ویلنٹائین ڈے اور اظہار محبت ۔
(Usman Ahsan, Gujranwala)
تہوار اور میلے ہر قوم کی اپنی مذہبی و ثقافتی اقدارو نظریات کے ترجمان ہوتے ہیں |
|
١٤ فروری کو ہر سال دنیا کے اکثر و بیشتر
ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے جسے عشاق کا دن کہا جاتا ہے ، اس دن نوجوان
لڑکے لڑکیاں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کیا ہے اور اس کی
ابتدا کس طرح ہوئی ؟ اس کے بارے میں کئی روایات ملتی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے
بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper
Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست
لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ
جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘
کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر
اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں
تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن
ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا
خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔
بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا (
ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص۳ ) - اس کے متعلق کوئی مستند
حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ
تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی
زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے
نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے
لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے اس
میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا
جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر
گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً
ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن
صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع
کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی
تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن
کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد
کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے
تھے۔ ( ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی ) - اس میں کوئی شک نہیں کہ
دنیا سکڑ کر گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن اسکے باوجود ہر خطے و علاقہ کے
اپنے رسم ورواج اور ثقافت ہے ۔ ہم دنیا کے سینے پر شتر بے مہار نہیں ہیں
ہمارے خطے کی اپنی ثقافت بھی ہے اور ہم اسلام کی قیود و حدود کے بھی پابند
ہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دین فطرت ہے ۔ کھانا پینا انسان کی
فطرت ہے اس کے بغیر روح و جسم کا ناطہ بحال رکھنا محال ہے اسی لئیے اسلام
نے کھانے پینے پر پابندی نہیں لگائی ہاں البتہ حرام خوراک پر پابندی لگائی
ہے ، کھاؤ اور پیؤ مگر حلال ۔ اسی طرح صنف مخالف سے جنسی تعلق استوار کرنا
فطرت انسانی اور بشری ضرورت بھی ہے ، اس فطرت پر بھی دین فطرت نے پابندی
نہیں لگائی البتہ حرام سے روکا ہے کہ نکاح کرو مگر زنا کے قریب مت جاؤ ۔
اسی طرح جذبہ محبت کے اظہار کے مواقع اور طریقہ کا بھی اسلام نے بتلایا ہے
جو کہ مغربی ثقافت و رسم و رواج سے بالکل مختلف ہے اسلام نے ہر اس فعل سے
منع کیا ہے جو کہ معاشرتی فساد کا باعث بنتا ہے ۔ ویلنٹائین ڈے پر اظہار
محبت ہمارے جیسے معاشرے میں ایک بہت بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔
ثقافت و رسوم اپنی ہی اپنانی چاہئیں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ذہنی محکوم
ہیں ہمارے پڑوسی کا چہرہ لال ہو تو ہم اپنا پیٹ کر لال کرنے کی کوشیش کرتے
ہیں بعد میں آنے والے نتائج کی پرواہ کیے بغیر ۔ ہمارے ہاں اہل مغرب سے
مرعوب دانشوروں کی بھی کمی نہیں اور وہ بھی مغربی ثقافت کے حق میں صفحوں کے
صفحے سیاہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ محترم جاوید چوھدری صاحب کا کالم نظر سے گذرا
جسمیں دور حاضر کے ارسطو صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت کو چاہئیے کہ ویلنٹائین
ڈے کو سرکاری طور پر منائے اسے تھوڑا اسلامی اور مشرقی ثقافتی ٹچ دے کر ۔
یہ تو حال ہے اہل دانش کا خود نہیں بدلنا اسلام کو بدلنے چلے ہیں ۔ دور
حاظر کے ارسطو کی منطق سے اکثر میں محظوظ ہوتا ہوں دلائل و براہین وہاں سے
لاتا ہے جہاں سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ویلنٹائین کی حلت میں بھی موصوف نے
منطقی دلیل پیش کی ہے فرماتے ہیں میکڈونلڈ اگر حلال ہوسکتا ہے تو ویلنٹائین
ڈے کیوں نہیں ۔ مجھے تو ڈر ہے آنے والے وقت میں جاوید چوھدری صاحب یہ نہ
فرما دیں کہ دودھ گر حلال ہوسکتا ہے تو شراب کیوں نہیں ۔ دور حاضر کے
دانشوروں سے اتنا ہی کہوں گا اقبال کا لہجہ مستعار لیکر ۔۔۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ۔ |
|