سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

آج سارے لوگ ماں سے محبت کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ ماں سے محبت کرنے والے ماں کے پیار، اسکی محبت، اس کی قربانی، اس کے جذبے، اس کی رحمدلی، اس کی ممتا کو یاد کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس سایہ رحمت سے محروم ہیں۔ ان کے اشکوں کا سیل رواں نہ خشک ہوتا ہے اور نہ تھمتا ہے کہ اس دنیا میں ماں جیسی کوئی شے نہیں ہے۔ وہ جو رات میرا انتظار کرتی تھی۔ میرے بستر پر آتے جاتے چادر ٹھیک کرتی تھی۔ میرے لئے دعاﺅں کو ایسا پہاڑ بناتی تھی کہ جس سے دنیا کی ساری آفت ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی تھیں۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔ میری ماں سے مجھے محبت ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پسند سے بھی محبت کروں۔ میری ماں کی زبان اردو تھی۔ دیہاتی اردو جو شہر میں کچھ بہتر ہوگئی تھی۔ اس اردو پر آج کڑا وقت ہے۔ آج صبح سویرے جو برقی ڈاک (ای میل) موصول ہوئی اس میں ایک ایسے گروپ کی جانب سے رکنیت کی درخواست کی گئی تھی۔ جو اردو سے محبت کرتا ہے اور اردو کی ترویج واشاعت کا خواہاں ہے۔ میں نے اس درخواست کی تائید کی۔ جس کے جواب میں مجھے اپنے تاثرات رقم کرنے کے لئے کہا گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے وہاں موجود افراد کے تاثرات انگریزی میں تحریر دیکھے۔ اسی طرح کا تجربہ ریڈیو پاکستان کے خبروں کے شعبے میں ہوا۔ جہاں اردو خبریں پڑھنے والی ایک نئی خاتون کو اردو گنتی یا اعداد شمار پڑھنے کے لئے انگریزی کا سہارا لینا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی اکثر اردو تقاریر رومن میں تحریر کر لیا کرتی تھیں۔ آج کل گشتی فون(موبائل فون کے لئے یہ ترجمہ ہمارے دوست ابو نثر نے کیا ہے) پر جو پیغامات آتے ہیں۔ وہ بھی رومن میں تحریر کئے جاتے ہیں۔ ہماری نئی نسل تیزی سے اردو رسم الخط سے دور ہوتی جارہی ہے۔ جس میں جدید برق رفتار ٹیکنالوجی کا کمال بھی ہے۔ غالب انے اپنے آپ کو غریب شہر کہا تھا۔ لیکن اب غریب اردو ہے۔ جس کے چاہنے والے انگریزی کے والی وشیدا ہیں۔ یہ اپنے ہی وطن میں غریب الدیار ہے۔ اور حکمرانوں سے اپنے حق کے لئے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ یہ ہر جگہ اپنا حق مانگتی ہے۔ مجھے دفتروں میں لگاﺅ، مجھے سرکار کے کاموں میں لگاﺅ، مجھے عدالتوں میں لگاﺅ۔ مجھے اپنی بول چال میں لگاﺅ۔ اردو کے اصل دشمن تو وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اردو اگر سرکار کی زبان ہوگی تو اس ملک کے ۸۹ فیصد عوام کو زبان مل جائے گی۔ اور وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے دفاتر میں اپنے کلرکوں فوقیت ہی اسی لئے ہے کہ وہ انگریزی میں فائلوں پر حاشیے تحریر کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ جب تک ہمارے دم میں دم ہے ہم اردو کو نہیں آنے دیں گے۔ غالب کے شعر میں کسی نے تحریف کر کے کیا خوب کہا ہے۔ ہم کو ان سے زبان کی امید۔ جو نہیں جانتے زبان کیا ہے۔ اخبارات و رسائل نے تو اردو کی کچھ دلجوئی کی ہے کہ ان کی بقا کا دارومدار ہی اردو کی اشاعت پر ہے۔ لیکن برقی میڈیا نے جو اردو پر ستم ڈھایا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہیں، انگریزی الفاظ خبروں میں یوں سمائے ہوئے ہیں گویا انگریزی میں اردو کا تڑکا لگایا گیا ہے۔ اردو میں جب تک ہم ذریعہ تعلیم نہیں اپنائیں گے۔ ہمارا معیار تعلیم بہتر نہیں ہوگا۔ نقل سے بھی اسی وقت چھٹکارا ملے گا۔ جب ہم اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھائیں گے۔ ہم اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ تقلید ایک ذہنی فعل ہے۔ اور جب تک ہم اپنی زبان نہیں اپنائیں گے۔ ہم دوسروں کی تقلید کرتے رہیں گے۔ اور ہم تخلیق میں پیچھے رہیں گے۔ اردو محبت کی زبان ہے۔ آج پختون خواہ کا کوئی شہری ہو، یا بلوچستان کا، یا سندھ کا کوئی باسی، جب وہ اپنا دکھڑا سب کو سناتا ہے تو اردو ہی میں بات کر تا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے آج یورپ، امریکہ، برطانیہ، اور دیگر ملکوں میں پاکستانیوں کا آپس میں کوئی رشتہ ہے تو اسی اردو کے سبب ہے۔ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390304 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More