شاید ۔۔۔

آؤ کے مل کر اک نیا جہاں تعمیر کریں وہ جہاں وہ دنیا جس کا خواب دیکھا ہمارے بزرگوں کی آنکھوں نے اور حوالے کر دیا اس چمن کو اپنے چمن کے نوخیز تروتازہ پرشباب پھولوں یعنی نوجوانوں کے تاکہ وہ اپنی مہک سے اپنے رنگوں سے اپنے حسن و خوبصورتی سے اپنے شباب سے اپنے جوب کی ترنگ سے اپنی امنگ سے اس چمن کو نکھار دیں سنوار دیں اور اس چمن کو ہمیشہ کے لئے اس طرح بہاروں سے ہمکنار کردیں کہ اس چمن بہارستان سے باد خزاں پھر کبھی نہ گزر سکے-

ہم جو امن و محبت کے پیامبر امن و سلامتی کے متلاشی اپنے چمن کو تا قیامت ہنستا مسکراتا پھلتا پھولتا شاد و آباد دیکھنا چاہتے ہیں کیوں ہماری یہ چاہت یہ آرزو یہ خواہش تکمیل کی منزل تک کیوں نہیں پہنچ پاتی کہ انسان جو چاہتا ہے وہ ضرور پا لیتا ہے تو کیوں ہمارا کارواں طویل مسافت کے بعد بھی اپنی سے کوسوں دور جاتا محسوس ہوتا ہے کیوں ہر آس ہر امید دم توڑتی دکھائی دیتی ہے کیوں ہمارا عزم بار بار ٹوٹتا بکھرتا چلا جاتا ہے ہم چیختے ہیں پکارتے ہیں روکتے ہیں بلاتے ہیں کچھ لوگ آواز سنتے ہیں ٹھٹکتے ہیں اور رکتے بھی ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس راہ پر چلتے ہیں جس راہ کی سمت بلایا جا رہا ہے لیکن پھر اچانک ہی کسی سمت سے تیز آندھی کی صورت بپھرتی چنگھاڑتی تیز ہوا چلتی ہے اور خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اس کارواں کے مجتمع مسافروں کو مخلتف سمتوں میں بکھیر دیتی ہے اس زنجیر کو توڑ دیتی ہے جس نے کارواں کے تمام مسافروں کو ایک عرصے تک باہم مربوط رکھا ہوتا ہے-

اور پھر یہ سب ایک دوسرے سے جدا ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر اپنی اپنی راہ چن کر ایسے آگے بڑھ جاتے ہیں گویا پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے بن جائیں گے اور پکارنے والا پھر تنہا رہ جاتا ہے پھر سے ٹوٹ کر بکھر سا جاتا ہے لیکن کبھی ہمت نہیں ہارتا اپنے شکستہ وجود کو پھر ایک نئے عزم سے یکجا کرتا ہے اپنے بکھرے وجود کے ٹکڑے سمیٹتے ہوئے خود کو یہ دلاسہ دے کر پھر سے ایک نئی منزل کے لئے نئے راستوں پر اپنی ہمراہی میں گامزن کرنے کے لئے انجانے ہمنواؤں کو پکارتا چلا جاتا ہے اس یقین کے سہارے کہ رات کتنی بھی طویل ہو نور کا راستہ نہیں روک پائے گی مسافتیں کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو جائیں ایک دن روشن سحر ضرور طلوع ہو جائے گی اب نہیں نہ سہی کبھی نہ کبھی تو منزل خود اپنا پتہ دے جائے گی یا پھر زندگی ایسے ہی گزرتی جائے گی کہ یہ سفر ہی زندگی کا حاصل ہے یہ سفر ہی زندگی کی کہانی اسی لئے شاید یہ مسافت یہ سفر لافانی ہے جو کل بھی جاری تھا جو آج بھی جاری ہے نئے مسافر نئے ہمسفر نئے کارواں کو لئے ایک ایسی منزل کی سمت گامزن جو شاید انسان کی آخری منزل ہے جو ابدی ہے جو لافانی ہے شاید یہی زندگی کی کہانی ہے اس دنیا کی یہ زندگی فانی ہے جب کے اس مسلسل سفر کے راستوں کی آخری منزل ابدی و لافانی ہے شاید یہی زندگی کی کہانی ۔۔۔ شاید ۔۔۔
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 459408 views Pakistani Muslim
.. View More