سیکورٹی خدشات ‘ تعلیم کا نقصان

گزشتہ روز سیکورٹی خدشات کے پیش نظر آرمی کے اور پاک بحریہ کے زیر انتظامات تعلیمی اداروں میں تین دن کی تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا جبکہ باجاخان یونیورسٹی حملے کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہوسکے تھے اور تعلیمی اداروں پر ابھی تک خوف کی فضا قائم تھی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اعلان کے بعد اگلے ہی روز ملک بھر کی اہم ترین یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز بند ہونے لگے۔ کہیں سیکورٹی نہ ہونے کا جواز سامنے آیا تو کہیں ناقص انتظامات کے بیانات داغے گئے۔ کراچی میں پاک بحریہ اور آرمی کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے، لاہور کی 3 یونیورسٹیاں، ملتان میں زکریا یونیورسٹی اور 8 تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ قصور میں1یونیورسٹی اور 2کالجز سمیت 13تعلیمی اداروں کو سیل کردیا گیا۔ڈسکہ میں 5 اسکولز سیل، بہاولپور میں اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی اور چار تعلیمی ادارے جبکہ ساہیوال میں 11 ادارے سیل کئے گئے۔ احمد پور شرقیہ کا ووکیشنل کالج اور لیہ میں ناقص سکیورٹی کے باعث این سی بی اے یونیورسٹی کا کیمپس اور 3 ادارے بھی کارروائی کی زد میں آگئے۔ سرگودھا میں بھی 15اداروں کو بند کردیا گیا۔ اینمل یونیورسٹی پتوکی اور ڈگری کالج فار بوائز پتوکی سمیت 13 تعلیمی اداروں پر تالے ڈال دیے گئے۔ یہیں صورتحال خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں کی بھی کی گئی ہے۔

تمام ہاسٹل خالی کرا لئے گئے، طالبات اور طلبہ کو فوری طور پر ہاسٹل سے گھر جانے کا حکم دے دیاگیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں تعلیمی بحران کی صورتحال سامنے آنے لگی۔ اگر کچھ لمحوں کو ہم ملکی سطح پر تعلیم کی صورتحال کا جائزہ لیں تو سال کے پہلے ماہ کے اختتام سے ہی تعلیمی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ پرائمری، مڈل اور ہائیر کلاسوں کے امتحانات فروری سے ہی شروع ہوجاتے ہیں جو سال کے درمیان تک جاری رہتے ہیں، اس دوران نصاب کو پورا کرنا اور پچھلے نصاب کو رویژن کرنے کے لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے۔ موجودہ تعلیمی بحران سے نا جانے اسٹوڈنٹ کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔
حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہے تعلیمی اداروں کی بیرونی دیواریں بلند کرنے اور خاردارتاریں لگائی جارہی ہیں، جبکہ تعلیمی اداروں کی چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی بہتر کیا جارہا ہے۔ سیکورٹی انتظامات کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا لائق تحسین ہیں تاہم طلبہ کے مستقبل کا خیال رکھنا اور انہیں تعلیم کے حرج سے بچانا بھی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ تعطیل کرنا اور تعلیمی اداروں کو سیل کردینا سیکورٹی کو بہتر بنانے کا حل نہیں ہیں، اس سے صرف بچوں کی تعلیم کا ہی نقصان ہوگا۔ حکومت کو واضح حکمت عملی کا وضع کرنی ہوگی جس سے سیکورٹی انتظامات بھی ممکنہ حد تک مکمل ہوسکیں اور طلبہ کا تعلیم حرج بھی نہ ہو۔ اگر وی آئی پی پروٹوکول پر لگائی گئی سیکورٹی کوتعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر لگا دیا جاتا تو یقینا اس طرح کی ہنگامی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بجائے وہاں پر فوری طور پر سیکورٹی انتظامات کیا جائیں۔ اداروں کے جائز مطالبات سنتے ہوئے انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔

یہاں پر ایک پہلو یہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ گزشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعے کے بعد طلبہ تاحال ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ جس سے ان کی تعلیمی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ بہتر تعلیم کے لیے ماحول کا سازگار ہونا اور ذہنی سکون بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بچوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کی بجائے انہیں تفریح ماحول مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ تعطیلات اور پھر میڈیا کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے الٹے سیدھے بیانات سے نہ صرف نوجوانوں بلکے بچوں کے ذہنوں پر بھی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ان سے طلبہ غیر شعوری طور پر ایک عجیب بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے منفی رد عمل سے گریز کرتے ہوئے مخالف پارٹی کی بجائے ان طلبہ کا خیال رکھتے ہوئے مثبت رد عمل اپنانا چاہیے۔ اس وقت طلبہ کو یہ عملاً اور گفتاً یہ باور کرانا ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر محفوظ ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ جب تک طلبہ کو ساز گار پر اطمنان ماحول نہیں ملے گا شاید وہ تعلیم میں بہتر کارکردگی دیکھانے سے قاصر رہیں گے۔

یاد رکھیں آج کے یہ بچے اور نوجوان کل کو ملک کے معمار بنیں گے اور ان کو ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک اس میں نوجوان اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرتے اور نوجوان تعلیم و تعلم سے ہی مطلوب اہداف دے سکتے ہیں۔ آج ہم ان طلبہ کو بہتر تعلیم دیں گے تو یقینا کل یہ طلبہ ہمیں اچھا اور ترقی یافتہ مستقبل دیں گے۔
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 76324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.