رافعہ ارشد
( سلطان محمد شاہ آغا خان اسکول کراچی)
بُرائی کیا ہے؟ کبھی ہم نے یہ سوچا؟؟؟؟ کچھ لوگ برائی قصداًکرتے ہیں اور
کچھ بھوُلے سے کر دیتے ہیں۔ انسان کو اﷲ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے
،یعنی تمام مخلوقات میں سب سے بلند اور اعلیٰ درجہ انسان کو میسر ہے ۔
انسان ایک ایسی پروقار مخلوق ہے جس کو اپنی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں
ہے ،وہ برائی اس قدر ڈھٹائی اور آسانی سے کر لیتی ہے کہ اُس کو احساس تک ہی
نہیں ہوتا ،کسی سے معافی مانگنا تو درکنار شرمندگی کی کوئی رمق تک آنکھوں
میں دکھائی نہیں دیتی ۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو برائی ایک عام سی چیز معلوم ہوتی ہے
کسی کو مارنا ، معمولی معمولی بات پر گالی دے دینا ،بے حیائی کھلے عام ہونا
،والدین کی نافرمانی غرض یہ کہ ہر برائی تا حدِ نگاہ پھیلی ہوئی ہیں ، اور
مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اس سے گھبراتے بھی نہیں ہیں یہ اور اس جیسی کئی
برائیاں ہماری عام زندگی میں اس طرح رچ بس گئی ہیں۔اب اسی بات کو دیکھ
لیجیئے کہ عورتیں ننگے سر گھر سے نکلتی ہیں ،اس طرح کے لباس پہنتی ہیں جس
سے جسم نمایاں ہوتا ہے اور اس کو فیشن کا نام دیا جاتا ہے ،صبر برداشت نام
کی کوئی چیز ہی نہیں رہی بدلہ لینا تو اتنا ضروری ہے کہ اس کے لئے رشتے
ناتے سب فراموش کر دیتے ہیں ۔قصور چاہے اپنا ہی کیوں نہ ہو دوسرے کو موردِ
الزام ٹھرانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے ۔ان تمام برائیوں کو اس تواتر سے
کرنے کی آخر وجہ کیا ہے؟؟؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سے اﷲ
کا خوف ختم ہو گیا ہے۔
ہم عیش و عشرت ہم اس حد تک پڑ گئے ہیں کہ سامانِ عیش میں ذرا سی کمی برداشت
نہیں کرتے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ہر حد سے گزر جانے کو ہمہ وقت تیار
رہتے ہیں پھر چاہے وہ کمائی حرا م ہی کی کیوں نہ ہو ہم اپنی اولادوں کے منہ
میں یہ لقمہ بھی بہ خوشی اُنڈیل دیتے ہیں ۔
میں ایک طالبِ علم ہوں اور مانتی ہوں کہ ان میں سے شاید کچھ برائیاں میری
بھی زیست کا حصہ ہوں گی لیکن اوروں کی طرح شاید ذہن میں یہ ہی رہتا ہے کہ
جب کچھ ہو گا تو دیکھا جائے گا ۔اس قدر تواتر سے آنے والی قدرتی آفات بھی
کیا ہمیں خوابِ غفلت سے جگانے کے لئے ناکافی ہیں ؟؟؟؟
ہم صرف دنیا میں ہی کھوئے ہوئے ہیں اپنی کھوئی ہوئی چیزوں کے غم سے ہی نہیں
نکل رہے ہیں ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی یہ سب برائیاں ہمیں اپنی
ذات کا ہی حصہ معلوم ہوتی ہیں ، اور ہم ان برائیوں کو برائیاں ہی نہیں
سمجھتے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں اس سے پہلے معافی کا وقت بھی نہ ملے اور
توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں اپنی زیست
کا مقصد سمجھیں اور اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنوارنے کی کوشش
کریں ، کیونکہ کوشش کرنے سے ہر منزل آسان ہو جاتی ہے بشرطیکہ نیت صاف ہو
کیونکہ اﷲ رب العزت ہماری نیتوں کو ہی دیکھتا ہے ۔
(رافعہ ارشد۔ سلطان محمد شاہ آغا خان اسکول ۔کراچی) |