رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار،غزوات اور جنگوں کا احوال-9

سریہ ابوسلمہ بن عبدالاسد
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو سوچ رہے تھے کہ شکست احد کی کمی کا جبر ان، فداکاری اور زبردست اور وسیع پیمانے پر جنگی اور سیاسی کوششوں سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف منافقین اور یہود اسلام کے داخلی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ حلیف و ہم عہد قبیلے اپنے کام میں سست پڑ گئے تھے۔ اگر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگی اور سیاسی قابل قدر مشق یا حملہ نہ کرتے تو مدینہ کی مثال اس مجروح کی ہوتی جو حجاز کے بیابان میں پڑا ہو اور اپنا دفاع نہیں کرسکتا ہے اور بدو مردہ خواروں اور قریش و بنی کنانہ اور ان کے حلیف عرب و یہود کے کینہ توز بھیڑیوں کے لئے لذیذ لقمہ بن جاتا ہے۔ اسی حالت میں قبیلہ طی کے ایک شخص نے پیغمبر کو خبر دی کہ ”بنی اسد“ مدینہ پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کے مال کو لوٹنے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سلمہ کو پنجشنبہ یکم محرم4 ہجری میں سردار لشکر بنایا اور پرچم ان کے ہاتھ میں دے کر 150 مجاہدین کو ان کے ہمراہ کیا اور حکم دیا کہ راتوں کو خفیہ راستوں سے سفر کریں۔ دن میں پناہ گاہوں میں سو جائیں اور دشمن کے سروں پر اچانک بجلی کی طرح گر پڑیں تاکہ دشمن کو دوسرے قبیلوں سے مدد لینے کی فرصت نہ مل سکے۔ ابو سلمہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق روانہ ہوئے اور مدینہ سے330 کلومیٹر کی دوری پر مقام ”قطن“ کے اطراف میں پہنچے وہاں ان کو پتہ چلا کہ دشمن ڈر کے مارے بھاگ گیا ہے۔ ابو سلمہ نے اونٹوں اور بھیڑوں کے ایک باقی ماندہ گلہ کو جمع کیا اور وہ بہت زیادہ مالِ غنیمت لے کر مدینہ پلٹ آئے۔ احد کے بعد اس کامیابی کا یہودیوں اور منافقین پر مثبت اثر ہوا۔ دشمن کے اوپر منہ توڑ حملہ کرنے والے اور ہم پیمان قبیلہ کے لئے دفاعی نکتہ گاہ کے عنوان سے لشکر اسلامی دوبارہ نمایاں ہوا۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰)

سریہ عبداللہ بن انیس انصاری
تاریخ دو شنبہ 5 محرم 4 ہجری کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ ”سفیان بن خالد“ نے مقام ”عرنہ“ میں جانبازان اسلام سے لڑنے کے لئے کچھ لشکر آمادہ کر رکھا ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس جنگی سازش کو ناکام بنانے کے لئے عبداللہ بن انیس کو حکم دیا کہ عرنہ جائیں اور اس کو قتل کر دیں۔عبداللہ کہتے ہیں کہ اس ذمہ داری کے بعد میں نے تلوار سنبھالی اور چل پڑا یہاں تک عصر کے وقت اس کے قریب پہنچ گیا۔ جب اس کے نزدیک گیا تو اس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ ”قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہوں۔ میں نے سنا ہے تم مسلمانوں سے جنگ کے لئے لشکر جمع کر رہے ہو، میں تم سے ملنے آیا ہوں۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ اس طرح ہم اس کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ جب وہ بالکل تنہا ہوگیا اور ہم نے اس پر مکمل طور پر دسترس حاصل کرلی تو ہم نے تلوار سے حملہ کرکے اس کو قتل کر دیا جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا ہ ”ہمیشہ سرخ رو اور سر بلند رہو۔“ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۵۱)

رجیع کا واقعہ
ماہ صفر 4ہجری کو پیش آیا۔ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے اور امن و امان قائم رکھنے کی غرض سے جنگی دستوں کو بھیجنے کے ساتھ ساتھ مناسب موقع سے ثقافتی اور تبلیغیاتی دستے بھی ان قبائل کی طرف بھیجتے رہتے تھے جو لاتعلق تھے تاکہ اسلام کے معارف کی نشر و اشاعت ہوسکے اور کبھی خود قبائل کی درخواست پر بھی مبلغ بھیجے جاتے تھے۔ رجیع کا واقعہ احد کے بعد اس طرح پیش آیا کہ قبیلہ ”عضل“ اور ”قارہ“ کا ایک وفد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ سے کہا کہ ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اپنے اصحاب کی ایک جماعت آپ ہمارے یہاں بھیج دیں تاکہ وہ ہم کو قرآن اور احکام اسلام سکھائیں۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فریضہ الٰہی کے بموجب چھ افراد کو ان کے ساتھ بھیجا اور مرثد بن ابی مرثد غنویٰ کو اس جماعت کا قائد معین فرمایا” مبلغین اسلام احکام الٰہی پہنچانے کے لئے ان دونوں قبیلوں کی طرف اس طرح روانہ ہوئے کہ ان کے ایک ہاتھ میں اسلحہ اور دوسرے میں قرآن کے نوشتے اور سینہ میں علوم الٰہی اور عشق خدا تھا۔ مکہ سے 70 کلومیٹر شمال کی جانب جب چشمہ رجیع پر پہنچے تو دونوں قبیلوں نے اپنا پیمان توڑ دیا اور ھذیل کی مدد سے ان پر حملہ کر دیا۔معلمین قرآن نے اپنا دفاع کیا لیکن حملہ آوروں نے کہا کہ ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ ہم تم کو قریش کے ہاتھوں زندہ بیچ دیں گے اور اس کے مقابل ان سے کچھ چیزیں حاصل کریں گے۔ 3 مبلغین نے کسی بھی طرح اپنے آپ کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور نہایت بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ دوسرے تین افراد زید، خبیب اور عبداللہ نے اپنے کو ان کے حوالہ کر دیا۔ حملہ آور تینوں کو مکہ کی طرف لے گئے تاکہ ان کو قریش کے ہاتھوں فروخت کر دیں۔ ابھی آدھے راستہ ہی پہنچے تھے کہ عبداللہ نے تلوار پر قبضہ کر کے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان لوگوں نے دوسرے دو اسیروں کو مکہ کے بڑے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ زید کو صفوان بن امیہ نے50 اونٹوں کے بدلے خریدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ امیہ بن خلف کے خون کے انتقام میں قتل کر دے۔ اور خبیب کو عقبہ بن حارث نے 8 مثقال سونے کے عوض خریدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ کے انتقام میں دار پر چڑھا دے جو بدر میں مارا گیا تھا۔ زید کی حیات کے آخری لمحہ میں ابو سفیان آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد قتل ہو جائیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے یا ان کو کوئی آزار پہنچائے اور میں صحیح و سالم بچ جاؤں۔

ابو سفیان نے کہا کہ”میں نے ابھی تک محمد جیسا کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اصحاب میں اس طرح کی محبوبیت رکھتا ہو۔“

خبیب نے بھی چند دنوں تک زندان میں رہ کر شہادت پائی۔ شہادت کے وقت انہوں نے اجازت مانگی تاکہ دو رکعت نماز ادا کرلیں۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم گمان کرو گے کہ میں موت سے ڈر گیا تو میں اور زیادہ نمازیں پڑھتا۔ پھر آسمان کی جانب رخ کر کے دعا کی۔ تختہ دار پر لٹکانے کے بعد ان کے سامنے کافروں نے یہ پیشکش رکھی کہ اسلام کو چھوڑ دیں۔ انہوں نے جواب میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دی اور کہا کہ خدا کی قسم روئے زمین کی ساری چیزیں مجھے دے کر اگر یہ کہا جائے کہ اسلام چھوڑ دو تو بھی میں اسلام نہیں چھوڑوں گا۔اس مجاہد اور شہید کا پاکیزہ جسم ایک مدت تک تختہ دار پر لٹکا رہا، آخرکار خفیہ طور پر کسی نے اتارا اور دفن کر دیا۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۳۰، ۵۴۲)

بئر معونہ کا واقعہ
سفر4ہجری میں مدینہ میں کچھ نوجوان رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے قرآنی و اسلامی علوم کا درس لیتے اور مسجد میں دینی بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے تھے۔ قرآن مجید سے ان کی واقفیت اتنی تھی کہ وہ مبلغ اسلام ہو سکتے تھے۔

ایک دن قبیلہ بنی عامر کا ابو براء نامی ایک شخص رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ” اگر آپ اپنے اصحاب میں سے کچھ افراد کو نجد کی سرزمین پر بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” کہ میں نجد والوں سے اپنے اصحاب کے بارے میں ڈرتا ہوں ابو براء نے کہا کہ میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہوں وہ لوگ میری پناہ میں رہیں گے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نےاسلام سے آشنائی رکھنے والے 40 معلمین قرآن کو منذر بن عمرو کی سرکردگی میں ایک رہنما کے ساتھ سرزمین نجد کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں اسلامی حقائق کی تبلیغ کریں۔

جب یہ لوگ بئر معونہ پہنچے تو اس جماعت کے ایک شخص نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خط قبیلہ بنی عام کے سردار کے سامنے پیش کیا۔ سردار قبیلہ نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خط پڑھے بغیر نامہ بر کو قتل کر دیا اور بنی عامر سے اس نامہ بر کے ساتھ آنے والوں کو قتل کرنے کے سلسلے میں مدد مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابوبراء کے امان کو نہیں توڑیں گے۔ اس نے فوراً قبائل بنی سلیم سے اس سلسلے میں نصرت چاہی۔ انہوں نے ایک دستہ ان مبلغین اسلام سے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ ان 40افراد نے مردانہ وار ان کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان میں سے صرف ایک شخص عمرو بن امیہ نامی مجروح ہوگئے اور اس معرکہ کے بعد وہ کسی طرح مدینہ پہنچے۔

انہوں نے راستہ میں قبیلہ عامر کے دو افراد کو دیکھا اور اپنے شہید دوستوں کے انتقام میں ان دونوں کو قتل کر دیا، جب یہ مدینہ پہنچے اور انہوں نے ان مبلغین کی شہادت کے واقعہ کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا تو آپ بہت غمگین ہوئے اور ان مجرمین پر نفرین کی۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص۱۹۳)

سریہ عمرو بن امیہ
حادثہ رجیع کے بعد رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس درد انگیز حادثہ میں شہید ہونے والے شہیدوں کے خون کا انتقام لینے اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے ان اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے عمرو بن امیہ ضمری کو ایک آدمی کے ساتھ مامور کیا کہ وہ مکہ جا کر ابوسفیان کو قتل کر دیں۔ وہ لوگ مکہ پہنچے اور رات کے وقت شہر میں داخل ہوئے لیکن مکہ والوں میں سے ایک شخص نے انہیں پہچان لیا، مجبوراً ان لوگوں نے شہر سے باہر نکل کر ایک غار میں پناہ لی اور واپسی میں انہوں نے دو قریش کے نمک خوار اور ایک جاسوس کو گرفتار کیا اور انہیں مدینہ لے آئے۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۴۲)

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122474 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More