ویلنٹائن ڈے ثقافتی یلغار

 کفار کچه دن خاص طور پر مناتے ہیں.انہی میں سے ایک ویلنٹائن ڈے ہے.جو ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے.اس دن کهلی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے.ہر عاشق اپنی محبوبہ کو سرخ پهول پیش کرتا ہے.حالانکہ وہ یہ جانتا ہے کہ یہ لڑکی بهی کسی کی بہن یا بیٹی ہے، اور یقینا وہ اپنی بہن کے لیے یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی بہن کو کوئی غیر پهول پیش کرے.

دراصل یہ مغربی کلچر ہے جس میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی اصطلاح کو معیوب نہیں سمجها جاتا'بلکہ یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے.لیکن پهر بهی وہ مغربی لوگ اس دن کو اتنی اہمیت نہیں دیتے کہ جتنا ہمارا میڈیا اور روشن خیال لوگ اس کو اہمیت دیتے ہیں.

جس طرح ہر برائی اور بے حیائی کے پیچهے یہود و نصاری کا ہاته ہوتا ہے.تا کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل کو تباہ و برباد کیا جا سکے.بلکل اسی طرح ویلنٹائن ڈے کا آغاز بهی کچه اس طرح ہوا کہ ایک عیسائی پادری جس کا نام "ویلنٹائن" تها.ہوا کچه اس طرح کہ رومی بادشاہ کلاڈیس دوم کے عہد میں رومی باشندے جنگ میں جانے کے ڈر سے گهبرا کر اپنی بیویوں کے پاس گهر بیٹهے رہتے تهے.آخر بادشاه نے یہ حل نکالا کہ شادیوں پر پابندی لگا دی.

اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس 'ویلنٹائن'پادری نے خفیہ شادیاں کروانا شروع کر دیں.اس حکم کی خلاف ورزی کے جرم میں اسے 14 فروری کو قتل کر دیا گیا.

تاریخ میں تین مختلف 'ویلنٹائن' اشخاص گزرے ہیں کہ جن کو ان کے کرتوتوں کے سبب قتل کیا گیا اور اتفاق سے تمام کو قتل کرنے کا دن 14 فروری ہی تها.

ان میں سے ایک بڑا معتبر عالم 'ویلنٹائن' جو تیسری صدی عیسوی میں ایک راہبہ کا دیوانہ ہو گیا.پهر اس نے راہبوں اور راہبات والی نکاح کہ بغیر والی زندگی سے انحراف کا راستہ نکالا.اس نے راہبہ کو کہا کہ'14 فروری کو اگر ہم جسمانی تعلق قائم کر لیں تو کوئی گناه نہیں ہو گا.یہ تو مجهے خواب میں بتایا گیا هے.راہبہ نے یقین کر لیا اور نے جسمانی تعلق قائم کر لیا.

"کلیسیا کی روایت سے انحراف کرنے کی پاداش مین ان دونوں کو قتل کر دیا گیا.کچه عرصے بعد ان کو محبت کا شہید جان کر لوگوں نے یہ 'ویلنٹائن ڈے' منانا شروع کر دیا.

لیکن اے مسلم! نوجوان بہنوں اور بهائیو ہمارے دین اسلام میں اس طرح کے بے حیائی اور بے شرمی کے تہوار منانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے.اسلام میں تو نکاح سے قبل کوئی تعلق ہے ہی نہیں اور ہمارے اسلام نے تو ہمیشہ حیا کا درس دیا ہے.

آج ہم میڈیا میں کتنا سنتے ہیں کہ ایسے بے حیائی پر مبنی تہواروں کی وجہ سے کتنے گهر اجهڑ گئے اور کتنوں نے خود اپنی جان ختم کر دی.لیکن پهر بهی ہم سبق حاصل نهیں کرتے.

آج یہ والدین کی بهی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکهیں.تا کہ وہ اپنے بچوں کو ان غلاضتوں میں جانے سے روک سکیں.قران مجید میں واضح کہا گیا ہے کہ
"ایسے کام کے قریب بهی نہ جاو.

تو اب خود سوچنا ہو گا کہ شرم و حیا کہ بارے میں ایسے سخت احکامات کی موجودگی میں ایسی غیر اخلاقی حرکات اور بے حیائی کے تہواروں کی کیسے گنجائش نکالی جا سکتی ہے.