ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے رسم و رواج عام ہوچکے ہیں۔
بعض کا تعلق کسی بھی طور اسلامی اقدار سے نہیں پھر بھی ہم ان غیر اسلامی
طور طریقوں پر ، روایات پر عمل پیرا ہیں۔ بعض رسموں میں ہم نے غیر اسلامی
طریقوں کی آمیزش کر لی ہے۔ ان میں سے ایک 14 فروری کو ہر سال منایا جانے
والا تہوار ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔
اس تہوار کا اہتمام کرنا اہل مغرب کی روایت ہے، خاص طور پر عیسائی مذہب کے
لوگ اس دن ویلنٹائن ڈے کے نام سے خوشیاں مناتے ہیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں
محبت کے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس تہوار کا مسلمانوں سے یا اسلامی
روایات سے دور دور کا بھی واسطہ اور تعلق نہیں لیکن ہمارے نوجوان اس غیر
اسلامی تہوار میں شامل ہوکر بلاوجہ گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
|
|
بات ویلنٹائن ڈے تک ہی محدود نہیں بلکہ ہم نے تو بے شمار رسم و رواج ہندوؤں،
عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مغربی اقوام کے اپنا لیے ہیں اور بلا سوچے سمجھے
ان پر عمل کیے جارہے ہیں۔ شب برأت کے موقع پر آتش بازی کا کیا تعلق لیکن اس
دن ہمارے بچے جی بھر کے پٹخانے پھوڑتے ہیں، پھلجھڑیاں جلاتے ہیں، انار فضا
میں چھوڑتے ہیں حالانکہ اس دن آتش بازی کرنا قانوناً بھی منع ہے ، یہی نہیں
بلکہ اس حوالے سے بے شمار ایسے واقعات بھی رونما ہوچکے جن میں معصوم بچوں
کی جانیں بھی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس دن شہر شہر ، گاؤں گاؤں ، گلی
محلوں میں رات گئے پٹاخوں کی آوازیں امن و سکون غارت کرتی ہیں۔
جنوری کی پہلی تاریخ یعنی نیا سال شروع ہوتا ہے رات بارہ بج کر ایک منٹ پر
فضاء گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور کلاشنکوف کی گھن گرج سے فضا گونج جاتی ہے۔
باوجود اس کے کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارا نیا سال یکم محرم الحرام سے
شروع ہوتا ہے، ذوالحج آخری اسلامی مہینہ ہوتا ہے اس کے باوجود 31 دسمبر کی
شب بے شمار نوجوان جوڑے ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں اور نئے سال کی خوشیاں
مناتے ہیں۔ ساحل سمندر پر نئے سال کو سیلی بریٹ کرنے میں کونسی ایسی خصوصیت
اور انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اکثر پولیس کے ہاتھوں بے عزت بھی ہوتے ہیں لیکن
ساحل پر سال کے آخری دن کے سورج کو غروب ہوتے دیکھنا اور نئے سال کو سمندر
کی لہروں کے ساتھ استقبال کرنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔
|
|
یکم اپریل کو ’اپریل فول‘ بلاسوچے سمجھے ہم اس دن ایک دوسرے کو جھوٹ بول کر
بے وقوف بنادیا کرتے ہیں، کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ اپریل فول ہے کیا ، اس
کے پیچھے مسلمانوں کے حوالے سے کیا اسٹوری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسپین پر
عیسائیوں نے دوسری بار قبضہ کیا تو مسلمان ان کی نظر میں کھٹنے لگے، ان کی
خواہش تھی کہ مسلمانوں کو اسپین بدر کردیں ۔ اسپین کا مسلمان دشمن حکمراں
فرڈینینڈ جس نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی ، ان کے خون کی ندی
بہادی تھی پھر بھی اسپین کی سرزمین پر مسلمانوں کی موجودگی اس کے لیے سخت
پریشان کن تھی وہ اس فکر اور سوچ میں لگا رہتا کہ کس طرح ان مسلمانوں کو
اسپین سے نکال باہر کیا جائے۔ آخر کار فرڈینینڈ کوایک ترکیب سوجھی اس نے
اعلان کیا کہ اسپین کی سرزمین چھوٹی پڑ گئی ہے ہم مسلمانوں کے لیے ایک الگ
ملک قائم کرنے جارہے ہیں جہاں پر مسلمان اپنے ملک میں امن و سکون سے رہیں
گے۔ اس کی ایک وجہ اس نے یہ بھی بتائی کہ یہاں اسپین میں مسلمانوں کی جان و
مال ، عزت و آبرو محفوظ نہیں۔ اس نئے اسلامی ملک میں مسلمانوں کو پانی کے
جہاز کے ذریعہ پہنچانے کا اعلان کیا۔ مسلمان خوشی خوشی تیار ہوگئے اور اس
شاطر بادشاہ فرڈینینڈ کی باتوں میں آگئے۔ ایک بحری جہاز اس مقصد کے لیے
تیار کیا گیا یہ مارچ کے آخری دنوں کی بات تھی۔ شاطر بادشاہ نے اسکیم تیار
کر رکھی تھی۔ مسلمانوں کو جہاز میں سوار کر دیا گیا، دوسری جانب بادشاہ کے
گماشتوں نے تیار شدہ منصوبے کے تحت عمل کرنے کی تیاری کی۔ جب جہاز بیچ
سمندر میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے گماشتوں نے طے شدہ منصوبے کے تحت جہاز میں
بارود سے سوراخ کردیے اور خود بہ حفاظت کشتیوں کے ذریعہ محفوظ مقام پر
ہولیے۔ جہاز تمام مسلمان مسافروں کے ساتھ رفتہ رفتہ سمندر کی تہہ میں غوطہ
زن ہوتا چلاگیا اور تمام مسلمان جہاز سمیت سمندر برد ہوگئے۔ بادشاہ
فرڈینینڈ کو منصوبے کی کامیابی کا علم ہوا تو اس نے خوشی کے شادیانے بجائے،
عیسائیوں نے بادشاہ کی شاطرانہ چال کی دل کھول کر داد دی، جس دن یہ واقعہ
رونما ہوا اس دن یکم اپریل تھی، اسپین کے بادشاہ فرڈینینڈ کے منصوبے تحت
بڑی تعداد میں مسلمانوں سمندر کی نذر کرنے کی خوشی میں اہل مغرب یکم اپریل
کو اپریل فول مناتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو کس طرح فول بنایا۔ افسوس
بے شمار لاعلم مسلمان بھی یکم اپریل کو اس طرح کی حرکت کرتے ہیں اور اپریل
فول کی روایت میں شریک ہوجاتے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ اسی طرح بے
شمار مذہبی و سماجی تہواروں کا اہتمام ہم اسلامی عقائد و نظریات کی روح کے
منافی کرتے ہیں۔اپریل فول ایک طرح سے جھوٹ بولنا ہے اور اسلام میں جھوٹ
بولنے کی ممانعت کی گی ہے۔ اس طرح ہم مذاق میں جھوٹ بول کر دوسروں کو فول
تو بنا دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی گناہ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیا ہے؟ تاریخ میں اس کے حوالے سے مختلف روایات پائی
جاتی ہیں ، سچ کیا ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ایک روایت یہ ہے کہ غیر مسلم
اسے کیوپڈ یعنی محبت کے دیوتا اور وینس یعنی حسن کی دیوی سے تعبیر کرتے ہیں
جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ اس روایت کے حامی کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا کلیدی
کردار تصور کرتے ہیں۔
ایک اور روایت یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کا تعلق ’سینٹ ویلنٹائن‘ سے بتایا جاتا
ہے۔اہل روم مذہبی اعتبار سے نصرانیت سے عیسائیت کی جانب مائل ہوئے یعنی
انہوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔ یہ دور تیسری صدی عیسوی کا تھا۔ اس
وقت بادشاہ ’کلاڈیس دوم ‘نے فوجیوں کے لیے شادی نہ کرنے کا حکم جاری کیا
اور ان پر پابندی لگادی کہ کوئی فوجی شادی نہیں کرے گا۔ اس کا خیال تھا کہ
فوجی اپنی بیویوں سے محبت اور تعلق کے باعث جنگوں میں دلجمعی سے شرکت نہیں
کرتے،ان کی توجہ اپنی بیویوں کی طرف ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی
فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس کی نرالی منطق تھی۔ اس کے حکم کے
سامنے کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا لیکن سر پھر ے تو ہر قوم، ہر نسل اور ہر
دور میں موجود ہی ہوتے ہیں۔ سینٹ ویلنٹائنSt. Valentine ایک شخص نے بادشاہ
ِوقت کلاڈیس کے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا۔نہ صرف اس نے انکار کیا
بلکہ اس نے فوجیوں کو شادی کرنے پر مائل بھی کیا اور فوجیوں کی شادیاں
کرانے کا اہتمام بھی کرنے لگا۔ بادشاہ وقت کو جب اس بات کا علم ہوا تو آگ
بگولہ ہوا اور حکم صادر فرمایا کہ سینٹ ویلنٹائن کو فوری گرفتار کر کے جیل
کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ بادشاہ ِ وقت نے سینٹ
ویلنٹائن کو سزائے موت کا حکم جاری کردیا۔ کہا جاتا ہے سزائے موت پر عمل
درآمد سے قبل قید کے دنوں میں سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی،
جیلر کی بیٹی بھی ویلنٹائن کے عشق میں گرفتار ہوچکی تھی۔ دونوں کی شادی کسی
طور ہو نہیں سکتی تھی اس لیے کہ اس وقت پادریوں اور راہبوں ، کاھن، ،مذہبی
پیشواؤں کے ہاں شادی یا محبت کے تعلقات قائم کرنا سخت منع تھا۔ ویلنٹائن کو
پھانسی کی سزا ہوئی اور اسے 14فروری 270عیسوی کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ویلنٹائن تو پھانسی پر چڑھ گیا لیکن محبت کرنے والوں نے اس کی موت کو یاد
رکھنے کے لیے اس دن کو محبت کے پیغامات کے تبادلے کے دن کے طور پر منانے کی
روایت قائم کی۔
|
|
اُس وقت سے اس دن کو سینٹ ویلنٹائن کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا اور
محبت کرنے والے ، حتیٰ کہ دوست کے درمیان ، محبت کرنے والوں کے مابین محبت
کے پیغامات کا تبادلہ ہونے لگا۔اس دن کو تہوار کے طور پر منانے کا اہتمام
عیسائیوں کی جانب سے کیا گیا ۔ عیسائی نوجوانوں کے اس عمل کی مخالفت عیسائی
پادریوں نے کی ، اس لیے کہ یہ رسم جوانوں کو بے راہ روی پر ڈال رہی تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس تہوار نے دم توڑ دیا لیکن انیسویں صدی میں پھر سے اہل
مغرب اس جانب متوجہ ہوئے اور اس تہوار کو پھر سے زندہ کردیا۔ اس رسم کو
زندہ کرنے میں اور اسے عروج پر پہنچانے والوں میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے
جو کارڈ کی ڈیزائننگ ، طباعت اور فروخت کا کام کرتے تھے۔
ایک سروے کے مطابق اس سیزن میں 150ملین ویلنٹائن ڈے کے کارڈ خریدے اور ایک
دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کرسمس کے بعد ویلنٹائن ڈے تہوار
دوسرا بڑا تہوار ہے جس میں اس قدر زیادہ تعداد میں کارڈ ایک دوسرے کو بھجے
جاتے ہیں۔ جو لوگ کارڈ نہیں بھیج سکتے اور ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں وہ
اس دن اپنے جذبات کا اظہار ایک دوسرے کو پھولوں کا تحفہ دے کر ویلنٹائن ڈے
منالیتے ہیں۔ اب ویلنٹائن ڈے پر پیغامات کا تبادلہ برقی میل اور ایس ایم
ایس کے ذریعہ ہونے لگا ہے۔
بنیادی بات جو اس مغربی تہوار یا غیر مسلموں کے تہوار کے حوالے سے سامنے
آتی ہے وہ یہ کہ اس تہوار کا کسی بھی طرح اسلام سے یا اسلامی روایات سے دور
دور کا واسطہ نہیں۔ یہ روایت صرف اور صرف غیر مسلموں خاص طور پر عیسائیوں
کی ہے اس لیے مسلمانوں کو اس بیہودہ رسم سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اسلام خوشی
منانے کے خلاف نہیں، خوشی منانا، ایک دوسرے کو تحفہ دینا، کھانا کھلانا،
دعوت کا اہتمام کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اس دن بھی خوشی منائی جاسکتی ہے
لیکن اس کا انداز وہ نہیں ہونا چاہیے جو غیر مسلموں کا ہے۔ وہ طریقے نہ
اپنائے جائیں جو عیسائی اختیار کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم اسی دن خوشی کا
اظہار کریں اس کے لیے کسی بھی دن کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اپنے خاندان کے
ساتھ، بہن بھائیوں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ خوشی منائیں ایک دوسرے کو کھلائیں
پلائیں، تحفے دیں اور خوشیاں منانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ بس غلط ، غیر شرعی
، غیر اسلامی، غیر اخلاقی حرکات و سکنات سے گریز لازمی ہے۔
|