مظاہر ِ ِ محبت اور ویلنٹائین ڈے

انسان بنیادی طور پر جذبات کے مجموعے یا جال کا نام ہے ۔ جذبات کے اس جال کا تانا بانا مختلف جذبات سے مل کر بنا ہوا ہے ،ان میں کچھ جذبات خوبصورت اور کچھ بدصورت جبکہ کچھ جذبات پسندیدہ اور کچھ نا پسندیدہ بھی ہیں ۔ مثال کے طور پر نفرت ایک ناپسندیدہ اور بدصورت ، محبت ایک پسندیدہ اور خوبصورت جذبہ سمجھا جاتا ہے ۔ جذبات کے بارے میں یہ رویہ کسی خاص قوم ، مذہب یا علاقے کا نہیں بلکہ اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے اور علاقے کا ہے ، یعنی انسان کی اجتماعی تہذیب میں انسان کے ان جذبات کے بارے میں یکساں رویہ پایاجاتا ہے ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس رویے میں انسانی تہذیب کے آغاز سے لیکر اب تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔نفرت کے معاملے میں ہم معاشرے میں ایک ہی رائے پاتے ہیں کہ بس یہ قابل ستائش نہیں لیکن انسان کا سب سے گھناؤنا اور قابل نفرت جذبہ کوئی اور نہیں بلکہ یہ محبت ہی کا جذبہ ہے ، اس محبت کی ہولناکی یہ ہے کہ یہ فرد کے فطری جذبے تک کو فنا کردیتی ہے کیونکہ انسان کے فطری جوہر سے محروم ہونے کا مطلب ہے کہ اس کا منصب انسانی سے محروم ہونا یعنی انسان سے شے میں تبدیل ہونا ہے ۔ یہاں یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ نفرت کی انتہا بھی انسانی جوہر کو DISTORTکرکے فنا کردیتی ہے لیکن نفرت والا اعتراض وارد نہیں ہوسکتا کیونکہ نفرت تو ہے ہی ایک منفی جذبہ ، مگر نفرت کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان اس کے اثرات سے قدرے چوکنا رہتا ہے جبکہ محبت کے مثبت پن کے عام تاثر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد اس سے چوکنا نہیں رہتا اور جذبہ اپنی خاص شکل میں اس کے وجود میں تحلیل ہوکر اس پر قابو پالیتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جوہر کو فنا کردیتا ہے ۔ محبت کے حوالے سے دنیا میں بے شمار حقیقتیں ہیں ، بے شمار واقعات نے جنم لیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید دنیا میں محبت سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ۔ پم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں محبت مختلف زایوں میں بٹ چکی ہے ، والدین کی اولاد سے محبت ، بچوں کی ماں باپ سے محبت ، بہنن بھائی اور بھائی بہن کی محبت ، دوستوں سے محبت ، میاں بیوی کی محبت وغیرہ لیکن اس محبت میں سب زیادہ محبت نے شہرت حاصل کی ہے تو وہ صنفی محبت ہے ،جس کی بے شمار دستانیں رقم ہوچکی ہیں ۔ ہم نے ابتداء میں بات کی کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کے جوہر کو تبدیل کردیتا ہے اس کی ایک مثال برصغیر میں ملتی ہے شہاب الدین محمد شاہجہان ہندستان کا ایک بڑا بادشاہ گزرا ہے اس نے اپنی ملکہ ارجمند بانو جو بعد میں ممتاز محل کے نام سے مشہور ہوئی سے بے انتہا محبت کی ہے ، 1630ء میں برہان پور کی جنگی مہم کے دوران بادشاہ کا چودہواں بچہ ( بچی) جنم دیتے ہوئے انتقال کرگئی بادشاہ نے اس کی موت کو محبت کی خاطر شہید ہونے کا رتبہ دیا اور ممتاز محل کو شہید محبت کا خطاب دے دیا ۔ بادشاہ کو ملکہ سے اس قدر محبت تھی کہ اس نے قسم کھائی کہ اب وہ ساری زندگی کسی اور عورت کو نہیں چھوئے گا اور اس محبت کی ایک ایسی نشانی دنیا میں چھوڑ جائے گا جسے دنیا والے ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ بادشاہ کی اس قسم کے بطن سے تاج محل نے جنم لیا ۔ محل پر 20 ہزار سے زائد مزدور اور کاریگروں نے 20 سال تک کام کیا۔ یہ ہندوستان کی پہلی عمارت تھی جس پر گنبد بنایا گیا اس سے قبل عمارتوں پر گنبد بنانے کی روایت نہیں تھی۔ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے جو کسی تعلیمی یا فلاحی ادارے پر جب سے اب تک خرچ نہیں کئے گئے ۔ یعنی یہ محبت کی لازوال نشانی ہے جو شاہجہان کی محبت کا اظہار ہے ۔

محبت کا اظہار کرنے یا خوشیاں بانٹنے کیلئے عام طور پر کوئی دن ، کوئی پہر یا کوئی تہوار مقرر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ان دیکھا جذبہ ہے جو کبھی بھی امڈ سکتا ہے لیکن مغربی دنیا میں ویلنٹائین ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن تیسری صدی عیسوی سے منایا جارہا ہے ۔ سیکولر اور آزاد خیال دانشور طبقے کی رائے ہے کہ اس دن خاوند اپنی بیوی یا بیوی اپنے سرتاج کو پھول پیش کرے اور محبت بھرے جذبات کا اظہار کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش وخروش سے منایا جاتا ہے اور اس روز ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ سان فرانسسکو میں ویلنٹائین ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست عورتیں اور مرد برہنہ جلوس بھی نکالتے ہیں ۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب تمام محبت کے آوارہ مرد اور عورتیں ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتے ہیں یعنی اس دن جسنی انارکی کا بدترین مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ویلنٹائین کون تھا ، اس دن کو منانے کی حقیقت کیا ہے ، اس سے متعلق ہمیں کئی روایات ملتی ہیں لیکن تمام کی تمام غیر مستند ہیں البتہ ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور یہ کہ یہ دن محبت کرنے والوں کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے جسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بتادیا ہے کہ 14فروری کا دن یوم محبت سینٹ ویلنٹائین سے منسوب کرنے سے متعلق کوئی مستند روایت یا حوالہ نہیں ملتا البتہ ایک مستند خیالی داستان کے مطابق تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائین نامی ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun)کے زلف کے اسیر ہوگئے تھے ، چونکہ عسائیت میں راہبوں یا راہبات کیلئے نکاح ممنوع تھا اس لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ شادی یا صنفی ملاپ کرسکتے لہٰذا ایک دن ویلنٹائین نے اپنی معشوقہ کی تشفی کیلئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایاگیا ہے کہ 14فروری ایسادن ہوگا جس میں کوئی راہبہ یا راہب صنفی ملاپ کرلیں تو گناہ نہیں ہوگا ۔ راہبہ اس پر یقین کرلیا اور دونوں جوش عشق میں وہ سب کچھ کرگزرے جس کی انہیں ممناعت تھی ۔کلیسا کی یوں دھجیاں اڑانے والوں کو عام طور جو انجام ہوتا ہے وہ ان کے ساتھ بھی ہو یعنی انہیں قتل کردیا گیا بعدازاں منچلوں نے ویلنٹائین کو شہید محبت کے درجے پر فائز کردیا اور اس کی یا د میں یہ دن منایا جانے لگا، اس کے باوجود چرچ نے ہمیشہ ان خرافات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے جنسی بے راہ روی قرار دیا اور ایسا بھی ہواکہ ایک پادری کئی افراد کو ساتھ لیکر ایسی دکانوں پر گئے اور نذر آتش کیا جہاں ویلنٹائین کارڈ اور پھول ہورہے تھے۔

پاکستان میں ویلنٹائین ڈے یا محبت کے اس دن کا تصور نوے کی دہائی کے آکر میں ریڈیواور ٹی وی کی مخصوص نشریات کے ذریعہ سے کیا گیا جبکہ ملک کی کئی سیاسی اور تمام مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس کی بھر پور مذمت کی جاتی رہی ہے ۔

دنیا بھر میں اب ویلنٹائین ڈے بھرپور انداز میں محبت کرنے والوں کا تہوار بن گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آرہی ہے کہ جس طرح سے دنیا ایک گلوبل ویلج بنتی جارہی ہے ایسے میں کوئی تہوار کسی کا ذاتی نہیں رہا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے یہاں پاکستان میں منائے جانے والے بہت سے تہوار اور رسومات ہماری اپنی نہیں بلکہ یہ ایک استعارہ ہیں جو صدیوں سے ہندوؤں کے ساتھ رہن سہن کے باعث ہم میں رچ بس گئی ہیں ۔ یعنی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا جیسے جیسے قریب آرہی ہے ، تہوار بھی کندھے سے کندھا ملائے نظرا ٓئیں گے اب ایسی صورتحال میں ہماری ترجیحات یہ ہونی چائیں کہ ہم ان جذبات ، احساسات اور رسوم کو اپنائیں جو ہماری تہذیب ، ثقافت اور تمدن سے متصادم نہ ہوں ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ محبت ایک لافانی اور کسی ھد تک فطری جذبہ ہے ، یہ کچھ دینے کا نام ہے نہ کہ ہم سمجھیں اس کی وجہ سے ہم بہت کچھ پالیں گے اگر تصور میں محبت صرف پالینے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے تو اسے ہوس کہا جاتا ہے ۔ حقیقی محبت ہمیشہ فرد کے اصول ِ نمو اور اس کی شخصیت کے امکانات کو تسلیم کرتی ہے ۔ محبت پابند نہیں بلکہ یہ فرد کو آزاد کرتی اور اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ کسی فرد کو پابند کرتی ہے تو اس لئے کرتی ہے کہ وہ کئی اور پابندیوں سے ہوجائے۔ یہ ضرور ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کے گرد دائرہ کھینچتا ہے تو خود کو بھی اس دائرہ سے باہر نہیں رکھتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر شے سے بے نیاز ہوگیا بلکہ اب وہ پہلے سے زیادہ محتاط انداز میں اقدام کرنے کا بھی پابند ہوگیا ہے تاکہ معاشرے میں کوئی بگاڑ کی وجہ نہ بن جائے یا اس کی وجہ سے کوئی بگاڑ پیدا ہو۔یہ محبت کا صحت مند تصور ہے ، اسی محبت کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ
محبت بنادیتی ہے مشت ِ خاک کو انسان
قوم آب و گل سے بھی کہیں انساں بنتے ہیں

Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 49091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.