قوم کو جس طرح کے عذاب میں ویلنٹائن ڈئے جیسی خرافات مین
مبتلا کردیا گیا ہے اِس کی ذمہ داری دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک
میڈیا پر بھی ہے۔ نفوس پذیری کے حامل افراد معاشرئے میں شرم وحیا اور مشرقی
اسلامی تہذیبی ثقافت کے فروغ لیے اپنا کردار ادار کرسکتے ہیں۔
آزادی اظہار کے نام پر ویلنٹائین ڈئے کی نشرو اشاعت سے الیکٹرانک میڈیا
گریز کرئے۔ حکومت اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کرئے۔تمام میڈیا ہاوسز از
خود اپنی ذمہ داری کو پورا کریں ۔معاشرتی روایات کی حفاظت سب کی مشترکہ ذمہ
داری ہے۔ ہمارئے معاشرئے میں پہلے ہی حالت یہ ہے کہ فحاشی عریانی عروج پر
ہے۔ اِس قوم پر رحم کیا جائے۔اور قوم کی بیٹیوں بہنوں کو عزت اور وقار سے
جینے کا حق دیا جائے۔ویلنٹائین ڈئے کے نام پر خرافات نبی پاکﷺ کی تعلیمات
کے منافی ہیں۔ نبی پاکﷺ کی شفاعت سے محروم نہ ہوا جائے۔اﷲ تعالی نے قرآن
کریم میں سورہالمائدہ میں فرمایا۔ ان لوگوں کی نفسانی خواہشات کی پیروی مت
کرو جو پہلے ہی بھٹک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا چکے ہیں اور سیدھی راہ سے
ہٹ چکے ہیں۔ اﷲ تعالی نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے
کہلوایا کہ کہہ دیجیے میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب
اﷲ تعالی کے لیے ہی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیاں
ہیں۔ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لیکن اگر ہم بات کریں مسلمانوں کی تو مسلمانوں کی
زندگی قرآنی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہیے نشانیاں یا شعار وہ علامتیں ہوتی
ہیں جن سے قومیں پہچانی جاتی ہیں۔ وہ تہوار وہ عبادات جن کی اسلام اجازت
دیتا ہے وہ ہم مسلمانوں کی پہچان ہیں اور کچھ ایسے تہوار بھی دنیا میں
منائے جاتے ہیں جن کا نا صرف ہمارے دین میں دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں
ملتا بلکہ وہ جس طریقے سے منائے جاتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں منع فرماتا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل ایسے واہیات تہوار جوش وخروش سے مناتی
ہے اور اس طرح ہم اپنی دنیا و آخرت کو تبا و برباد کر رہے ہیں۔ اور اگر ہم
غیر مذہب لوگوں کی پیروی چھوڑ کر اﷲ تعالی کے دین اسلام کی پیروی کر لیں تو
ہمارا دین بھی بچ سکتا ہے اور دنیا بھی اور جو تھوڑا سا وقت ہمیں ملا ہے اس
دنیا میں گزارنے کے لیے اگر ہم اس کی قدر وقیمت سمجھ جائیں تو ہم کبھی ایک
لمحہ بھی ضائع نہ کریں۔ دنیا میں بہت سے لوگ وقت کی حقیقی قدر و قیمت کا
احساس کئے بغیر ماہ سال گزارتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پچھتاوے کے سوا
کچھ حاصل نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وقت قدرت کا سب سے گراں قدر تحفہ ہے۔ دنیا
میں کسی کے پاس بھی لامحدود وقت نہیں۔ اور کوئی بھی اس دنیا میں سدا نہیں
رہنے والا۔ ہم اس دنیا میں مختصر وقت کے لیے آئے ہیں اور ہمیں جلد اس دنیا
سے جانا ہوگا اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وقت بھی ان کو بھول جاتا۔
جولوگ زندگی کے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور احتیاط، شعور اور اچھی
عادتوں کے ذریعے وقت کو اچھے اور کامیاب طریقے سے گزارتے ہیں۔ وقت بھی ایسے
لوگوں کو ان کے جانے کے بعد تک یاد رکھتا ہے اور وہ لوگ مر کر بھی نہیں
مرتے۔ وہ اپنے کارناموں میں زندہ رہتے ہیں۔ اچھائی اور برائی ہر جگہ موجود
ہے کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا ہرانسان اپنے عملوں کی وجہ سے اچھا یا برا
بنتا ہے۔ جس کے (عمل) اچھے وہ اچھا ہوتا ہے اور جو کوئی برے عمل کرے تو وہ
برا۔ دور حاضر میں ہمیں شدید ضرورت ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کیا
اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ ہم ساری دنیا کے مسلمان اﷲ کے دین سے دور ہونے کی
وجہ سے مشکلات میں گھر چکے ہیں اور ہمارے معاشرے میں دنیا کی وہ تمام
برائیاں بھی موجود ہیں اسلام جن سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ جس طرح ہم ہر سال
بڑے شوق سے وہلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کا اس دن سے دور دور تک
کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وہلنٹائن خالصتا غیر مہذب لو گوں کا تہوار ہے۔ پہلی
دفعہ یہ دن 14 فروری 269ء کو ایک سائن وہلنٹائن نامی شخص کی نسبت سے منایا
گیا۔ سائن وہلنٹائن کو عیسائیت پر ایمان کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
وہ عیسائیت کی مقررہ حدود سے بالا تر ہو خدمات انجام دیا کرتا تھا اورسنا
ہے پسند کی شادیاں کرواتے وقت اپنے مذہب کی حدود سے تجاوز کرتا تھا۔ پھانسی
کے بعد اس کے حامی یہ دن تعزیت کے طور پر منایا کرتے تھے۔ بعدازاں یہ دن
یوم محبت کی شکل اختیار کر گیا کیونکہ پھانسی سے پہلے جب وہلنٹائن جیل میں
تھا تو جیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے عشق ہوگیا اور وہ جیلر کی لڑکی کو
عشقیہ خطوط لکھا کرتا تھا۔ اور جیلر کی لڑکی سائن کے لیے گلاب کے پھول لایا
کرتی تھی۔ سائن وہلنٹائن کے وہ خطوط اس کی پھانسی کے بعد منظر عام پر آئے
تو برطانیہ میں ان خطوط کو بہت پذیرائی ملی جس کے بعد برطانیہ میں یہ دن
تہوارکی شکل اختیار کر گیا۔ شروع کے دنوں میں یہ تہوار صرف برطانیہ میں
منایا جاتا تھا اور پھر پھیلتا ہوا ہم تک بھی آپہنچا۔ برطانیہ کے نوجوان اس
دن محبت کے گیت گاتے ہیں (غیر محرم عورت ومرد کی محبت میں) ایک دوسرے کو
پھول، کارڈ اور عشقیہ خطوط لکھتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ اس واقعہ سے مسلمانوں
کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جاننے، سمجھنے کے باوجود کے یہ تہوار ہمارا نہیں
ہے پھر بھی ہماری نوجوان نسل اس دن کو وہلنٹائن ڈے کے طور پر بھر پور طریقے
سے مناتی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ
تعالی کے احکامات بھی نہیں مانتے۔ وہلنٹائن ڈئے منا کر لوگ اپنی نفسانی
خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہم بحیثیت مسلم قوم
دنیامیں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ و ہلنٹائن ڈئے جیسے واہیات تہوار منا کر
ہم صرف قیمتی وقت کا زیاں ہی نہیں کر رہے بلکہ اس طرح ہماری نوجوان نسل
تیزی سے جنسی بے راروی کاشکار ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے مقام فکر ہے ہم ہیں
تو مسلمان لیکن غیر مذہبوں کے تہوار بڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ جب
تک نوجوان نسل قرآنی تعلیمات سے واقف نہیں ہوگی تب تک معاشرے میں پھیلی
ہوئی برائیاں ختم نہیں ہونگی۔ اﷲ کا دین ہی واحد راستہ ہے سب مشکلوں سے
نکلنے کا۔ اگر ہم اﷲ تعالی کے دین پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا میں ہر طرح
کی ناانصافی ناپید ہوجائے گی کیونکہ اسلام میں کسی انسان کی تذلیل کرنے کو
بہت ہی برا کہا گیا ہے۔ انسان کی عظمت کو اﷲ تعالیٰ نے روز ابد سے ہی اپنے
فرشتوں سے سجدہ کروا کے ثابت کر دیا ہے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات
سے اعلیٰ وافضل بنا کر اشرف ا لمخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے۔ ایک ایسا
ضابطہ حیات قرآن کریم کی صورت عطا کیا جس کی پوری کائنات میں کوئی دوسری
مثال نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی، آج ہم مسلمان اسلام کی حکمرانی کی بات
کرتے ہیں۔ ہم اﷲ تعالی کے دین کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔ مگر بلندو بالا
نعروں کے با وجود ہم اسلام سے بہت دور ہیں۔ سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ ہم دین
کے ساتھ اتنی زیادہ محبت کرنے کے باوجود دین سے دور کیوں ہیں۔ مجھے لگتا ہے
کہ ہم حقیقت سے دور نکل آئے ہیں اور دن بدن دور ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ اور
صرف دیکھاوے کی محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ اﷲ کا دین خالی نعروں کا نہیں بلکہ
عمل کا درس دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نے عمل کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ لیکن
اگر ہم آج بھی وقت کی قدر کریں اور وقت کو ضائع کیے بغیر اپنے دین کی طرف
پلٹ جائیں تو بہتر ہوگا۔یہ تہوار عیسائیوں نے شروع کیا ہے اس میں مقصود
محبت زوجیت کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے عشق اور دل کوعذاب میں ڈالنے والی
محبت مراد ہے جس کے نتیجہ میں زنا اور فحاشی پھیلے اورعام ہو اور اسی لیے
کئی اوقات میں عیسائیوں کے دینی لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس
کیخلاف کام کیا اوراسے باطل قرار دیا اور اسے ختم کیا لیکن انیسویں صدی میں
دوبارہ زندہ کیا گیا۔ چونکہ عشق کا تعلق انسان کے اندرونی جذبہ سے ہے اسی
کا استحصال کرنے کیلئے تجارتی کمپنیوں نے ویلنٹائن ڈے کو ذرائع ابلاغ اور
میڈیا کے ذریعہ خوب شہرت دی اور دلفریب بنا کر پیش کیا۔ اس دن کھربوں ڈالرز
کا فائدہ یہ اپنی مصنوعات محبت کے دیوانوں کو فروخت کر کے حاصل کرتی ہیں۔
انہیں کے زیر اثر دنیا تمام ذرائع ابلاغ اس دن کو بڑے تزک و احتشام سے نشر
کرتے ہیں خصوصا اسلامی ممالک میں براہ راست موسیقی اور گندی تصاویر اور رقص
و سرور کی محافل نقل کرتے ہیں جس کی بنا پر بہت سے مسلمان لوگ بھی اس کے
دھوکہ میں آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اسی لئے پچھلے چند برسوں میں بہت سے مسلمان
نوجوان لڑکے لڑکیوں میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس دن ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے کہ میرے
والنٹائن محبوب بنو۔ سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ مٹھائیوں، خاص بدقسمتی
سے اِسے بھرپور انداز میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں
منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے
ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوجاتے ہیں، تعلیمی اداروں
بازاروں اور بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول
پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جبکہ تمام پارکوں اور گارڈنس میں نوجوانوں
کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ
تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اِب یہ
ایک فیشن بن گیا ہے اور ہر کوئی اِس فیشن کو اپنانے کیلئے سرگرداں ہے۔ یہ
دن سڑک چھاپ عاشقوں کیلئے ایک نعمت بن کر وارد ہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت
کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے اسے صرف پھول یا پھر
ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اس تک پہنچا سکتے ہیں۔ آگے آپ کے
محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے اور
کتنی مدت کیلئے۔
یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے خصوصا نئی نسل کیلئے جو ایسے فیشن اختیار
کرتی ہے اور ایسے ایام خوشی سے مناتی ہے جو ہمارے ہیں ہی نہیں۔ بلکہ اس
تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اِس تناظر میں
اِس امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلم ممالک اور معاشروں پر تہذیب کی جنگ
مسلط کر دی گئی ہے چند سال پہلے کسی کویہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا گلوبل
ویلیج ہے۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے
پھیلایا جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں
ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو اور اِسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول
کریں۔ اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کے تکمیل کیلئے
وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر
شکار ہوچکے ہیں کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور
ہمارے معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل ہے مغرب کی تقلید بن
گئی ہے۔ معاشرئے میں جس طرح کا چال چلن انسانوں کا اِس وقت ہے اُس لحاظ سے
جنگل کے جانوروں اور پاکستانی معاشرئے میں رہنے والے انسانوں کی بود وباش
میں مماثلت ہی مماثلت پائی جارہی ہے۔ ماضی قریب میں یہ مثال دی جاتی تھی کہ
فلاں شخص تو نرا جنگلی ہے اُسے کوئی تمیز نہیں ۔ لیکن حالیہ دور میں جب کہ
زمانہ جدت کی بلندیوں کوچھو رہا ہے۔ انسانی ترقی کا عالم یہ ہے کہ ہر ہر وہ
شے بنا لی گئی ہے جس کا صرف تصور کیا جاسکتا تھا ۔لیکن اِس جدت نے اِس نام
نہاد تعلیم نے ہم سے عزت و احترام چھین لیا ہے۔اکبر آلہ آبادی کے بقول کہ
ہم تو سمجھے تھے لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی
ساتھ۔ میرا سرجن رگِ ملت سے لہو لیتا ہے۔ادب احترام ختم ۔محبت اخلاص کے
جذبے قصہ پارینہ ہوئے۔دولت کمانے کی حرص نے حلال و حرام میں تمیز اِس طرح
غائب ہو ئی ہے۔ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔نبی پاکﷺ نے جس طرح کے معاشرئے کی
تشکیل فرمائی اُس کے اعجاز تو یہ تھا کہ ایک دوسرئے کے خون کے پیاسے مونس و
غم خوار بن گئے۔ سود خوری کو اِس طرح ختم کیا کہ لالچ و حرص کی بجائے بھائی
چارئے نے بلال حبشیؓ،سلمان فارسیؓ کو وہ مقام عطافرمادیا کہ بڑی بڑی
سلطنتوں کے بادشاہ اُن کے مقام پر رشک کرتے ہیں۔مہاجرین و انصار کے تعلق نے
وہ مثال قائم کی نبی پاکﷺ کی سیرتِ مقدسہ کا اعجاز پوری کائنات میں چھا
گیا۔موجودہ دور میں نہ جانے کہاں سے یہ ذلت ہمارئے نصیب میں آئی ہے کہ ہم
مادی ترقی کے لیے جائز و ناجائز کی تمیز فراموش کرکے اِس طرح دولت کو دن
رات سمیٹنے کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے لاکھوں سال
جینے کا پرمٹ لیے ہوئے ہیں۔ شرم و حیا ہمارئے معاشرئے کی پہچان ہوا کرتی
تھی لیکن مختلف قسم کی خرافات نے ہمیں اُس راہ پر گامزن کردیا ہے کہ یہود
ہنود ہمیں لاکھوں میل دور بیٹھ کر اپنی تہذیب کا دلداہ بنا رہے ہیں۔ |