پانی انسان کی ایک ضرورت ہے جس کا نعم
البدل صرف موت ہے ، زندگی کی حیات کیلئے پانی ناگزیر ہے اور اسی کمزوری کا
فائدہ اٹھانے کیلئے یہی انسان کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہوتا ہے ،
شہروں میں واٹر مافیا کی صورت میں ہو کہ دیہاتوں میں جاگیرداروں ، وڈیروں و
خوانین سرداروں کی صور ت میں حضرت انسان کسی بھی لحاظ سے پانی کو قیمتی
اثاثہ سمجھتا ہے اور جو اس قدرتی نعمت کی قدر نہیں کرتے انھیں ایک نہ ایک
دن پانی جیسی نعمت سے محروم ہونا پڑتا ہے ، جنوبی ایشیا میں اگلی جنگ پانی
کے حصول بزور طاقت قرار دی جا رہی ہے تو شہروں میں ایسے لسانی خانہ جنگی کی
ہونے والی ایک شکل بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں
ہوئی تو شہروں میں پانی کے مسئلے پر خانہ جنگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔حکومتوں کا
اس پر کیا ردعمل اور کیا عوامل ہونگے اسکے لئے جتنی تفصیل میں جائیں تو
سوائے بڑے بڑے دعوؤں کے اور کچھ نہیں ملے گا۔کسی بھی حکومت کے وزیر ، مشیر
کے پاس بیٹھ جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے دفتر سے اٹھیں گے تو گھر
پہنچتے ہی پانی کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔
تھر کی زمین اور تھری باشندوں کے لئے آر او پلانٹ بھی کام نہیں آیا اور
وہاں پس ماندہ ترین علاقوں میں بھی واٹر ٹینکرز مافیا کا راج چل نکلا ۔تھر
کی زمین ہمیشہ ابر کرم کے انتظار میں رہتی ہے ، لیکن آسمانی پانی نہ برسنے
پر وہ اپنے گھربار مویشوں کے ساتھ قحط سالی میں نقل مکانی کرنے پر مجبور
ہوجاتے ہیں۔ R Oیعنی پلانٹ ریورس آسموس (آر او) کا خواب 9مارچ 2014کو
سینیٹر و وزیر اعلی سندھ کے مشیر تاج حیدر تھر کیلئے لائے بقول ان کے انھوں
نے ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا کہ اب وہاں آر او پلانٹس سے تھر کی زمین
سیراب ہوگئی ہے16لاکھ افراد نل سے پانی پیتے ہیں80لاکھ سے زائد جانور اس
حوض سے پانی پیتے ہیں جو تعمیراتی کام میں ٹھیکدار بناتے تھے ، انھوں نے اس
آر او فلٹر پلانٹ کا پانی جو بھرنے سے بھی ضائع نہ ہو ، اس کیلئے پائپ لگا
دیئے ہیں، مجھے انھوں نے ایک تصویر دکھائی کہ جس میں انسان نلوں سے اور
جانور ٹینک سے پانی پی رہے تھے ۔سابق صدر آصف علی زرداری نے تھرپارکر کی
تحصیل مٹھی میں ایشا کے سب سے بڑے پانی صاف کرنے کے پلانٹ آڑ کا افتتاح کیا
جس میں ان کے دعوے کے مطابق روزانہ 20لاکھ گیلن نمکین پانی کو میٹھا بنانے
کی صلاحیت ہے ، جس سے مٹھی ، اسلام کوٹ ، نوکوٹ سمیت تھر پاکر کے100سے زائد
دیہات کو میٹھے پانی کی سہولت میسر آئے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورے
صوبے کے ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر منتقل کردیں گے اور پی پی پی کے دور میں
ہی تھر میں میٹھے پانی کی سہولت فراہم کریں گے۔اس کی تعمیراتی لاگت 94کروڑ
20لاکھ روپے تھی جو مکمل طور پر سولر سسٹم سے چلے گا ۔ آج تاج حیدر صاحب نے
کردکھایا کہ ایک کلو ووٹ بھی برآمد کئے بغیر وہیں کے وسائل سے سیولر
ٹیکنالوجی استعمال کرکے ریورس آسموس واٹر فلٹر پلانٹ چلا دیا جس پر وہ اور
ان کی حکومت و جماعت فخر محسوس کرتی ہے۔لیکن جب ارباب اختیار کہیں دورے پر
جاتے ہیں تو انھیں نقشے کا دوسرا رخ دیکھایا جاتا ہے اور ان کے دورہ ختم
ہوتے ہی عوام کو پرانی حالت میں واپس آنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ نے دعوی تو کیا
تھا کہ یومیہ بیس لاکھ گیلن میٹھا پانی تیار کرکے مٹھی کے شہریوں کو فراہم
کیا جائے گا لیکن ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود ابھی
تک اس پلانٹ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکی ہے بلکہ آراو
پلانٹ کا پانی ٹینکر واٹر مافیا کو فرخت کئے جانے لگا جس کی قیمت چار سے چھ
ہزار روپے ہے ، ٹینکر ڈرائیور کا الزام ہے کہ انتظامیہ فی ٹینکر تین سو سے
پانچ سو روپے وصول کرتی ہے ۔پلانٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانی فلٹر کرکے
تالاب میں جمع کردیا جاتا ہے جس کے بعد شہریوں کو پانی کی ترسیل مقامی
تحصیل انٹظامیہ کی ہے ، جبکہ مقامی انتظامیہ کے مطابق واٹر لائنیں بوسیدہ
ہونے کی وجہ سے باقاعدہ طور پر پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔آج بھی ایشیا
کے سب سے بڑے آر او پلانٹ لگنے کے باوجود تھر کے باسیوں کو صاف پانی میسر
نہیں ہے ، وزیر اعلی سندھ کے مشیر تاج حیدر مجھے بھی دعوت دیتے ہیں کہ
17/18مارچ کو دس سنیٹرز تھر کے دورے پر اآئیں گے آپ بھی دیکھیں کہ کتنا بڑا
کام ہوا ہے ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ گورنر پنجاب نے ان سے اس سلسلے میں
مدد بھی مانگی ہے۔ لیکن مشیر اعلی صاحب مجھے کیا وہاں جا کر یہ دیکھنے کو
ملے گا کہ اس آر او پلانٹ پر واٹر مافیا قابض ہوگئی ہے اور من مانی قیمتوں
پر پانی بیچ رہی ہے۔دو دن کے دورے میں کیا سب نظر آجائے گا ۔ یقیناََ ایسا
نہیں ہوگا جب وزیر اعظم یا وزیر اعلی کے دورں پر جعلی ہسپتال بن سکتے ہیں
تو اس قسم کے دوروں کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ سائیں سرکار نے تو
دو دن میں وہاں سے چلے جانا ہے پھر وہی تھری عوام وہی واٹر مافیا ۔
آر او پلانٹ کس کے کنٹرول میں ہے اس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں ویسے تو
سندھ میں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا محکمہ پبلک ہیلھۃ انجئینرنگ
کی ذمے داری قرار دی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں ایسے عضو معطل بنا دیا گیا
کیونکہ یہ وزیر اعلی کا خصوصی پروگرام ہے جس کا محکمہ بلدیات یا کوئی اور
محکمہ کو کوئی علم میں نہیں ،آر او پلامٹس نصب کرنا اور ان کی دیکھ بھال کس
محکمے کی ذمے داری ہے۔بلکہ ان کو لاگت کا بھی نہیں پتہ ، پلانٹ لگانے والی
کمپنی اپنے بے شمار پلانٹ پر کام کر رہی ہے جس کی تعداد اشتہار میں نہیں
بتائی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق پلانٹ چلانے کیلئے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی
ایک ایک آدمی سات ہزار روپے مہینہ پر رکھا ہے۔ پی پی پی کے رہنما تاج حیدر
کو ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ کراچی ، حیدرآباد کے صحافیوں کو تھرپاکر
لے جائیں اور آر او پلانٹس دکھائیں ، ماہرین کے رائے کے مطابق کہیں کوئی
ایسا سروے موجود نہیں ہے کہ زیر زمین کتنا پانی ہے ، کس علاقے میں اس کی
سطح کیا ہے ۔ ڈاکٹر سونو کھنگرانی این جی او ایک جانا پہچانا نام ہے ان کا
تعلق بھی تھرپاکر سے ہی ہے وہ مصر ہیں کہ سروے کیا گیا ہے تو بتائیں کہاں
ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ زیر زمین موجود پانی کھینچ لینے سے درخت ہی پیدا
ہونے بند ہوجائیں ، اب بھی کھلے تالابوں میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے
اور دیسی طریقہ کار کے تحت فلٹر کیا جاتا ہے۔دعوی ہے کہ ان پلانٹوں سے
زندگی میں تبدیلی آئی گی لیکن شمسی توانائی یا پلانٹ کام کرنا چھوڑ دے تو
کمپنی لوگ فوری طور پر آسکیں ایسا کوئی کوئی طریق کار موجود نہیں ہے ۔
حکومت نے تو سرکاری طور پر یہ ذمہ داری بھی کسی کے سپرد نہیں کی ہے ۔تھر کے
رہنے والے بتاتے ہیں کہ تھرپارکر کے چیدہ چیدہ علاقوں میں( تاج حیدر کے
مطابق 700)پلانٹ نصب کردیئے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا گیا گاؤں کی پوری آبادی
مستفید ہوسکے گی کہ نہیں ، کئی علاقوں میں پانی کی فروخت کاروبار بھی بن
گئی ہے واٹر ٹینکر ہوں یا گدھا گاڑی والے بھاری قیمت لیکر پانی پہنچاتے ہیں
۔تھرپارکر 23ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں دیہاتوں کی
تعداد بھی لگ بھگ 23سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اب اس منصوبے میں کتنی صدق
دلی سے کام ہورہا ہے ایسے نقشوں اور فوٹوگفرافروں کی من پسند تصاویر دیکھ
کر متاثر تو ہوا جا سکتا ہے لیکن زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔کراچی میں واٹر
بورڈ کے ذرائع کے مطابق آر او پلانٹ کام نہیں کر رہے سب غیر فعال ہیں ۔
سائیں سرکار کے سندھ میں اربوں روپے سے لگنے والے آر او پلانٹس کھارے پانی
میں بہہ چکے ہیں ، تھر ، کراچی ، ٹھٹہ ، بدین ،جامشورو اور دادو میں24ارب
روپے کی لاگت سے لگائے گئے آر او پلانٹس ناکارہ ہوچکے ہیں۔تھر میں 80فیصد
پلانٹس لگائے گئے تھے جو کسی کام نہیں آسکے ، پھر مرمت تین سال تک پلانٹ
لگانے والی کمپنی کی ذمے داری تھی یہی نہیں مٹھی میں 86کروڑ روپے کی لاگت
سے لگایا گیاآر او پلانٹ بھی شہریوں کو فیض نہیں دے سکا آر او پلانٹس کے
نام پر کراچی والوں کو بھی چونا لگا دیا گیا لیاری میں لگایا گیا آر او
پلانٹ صرف ایک ٹنکی پر مشتمل ہے جس میں پانی بھی ٹینکروں کے ذریعے ذخیرہ
کیا جاتا ہے ۔لیاری اور کیماڑی ٹاؤن میں انہی پلانٹس کیلئے قومی خزانے سے
پانچ ارب روپے لئے گئے ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ گلہ کرتے ہیں کہ صحافی
ہماری کاوشوں کو کیوں نہیں بتاتے ، جب صحافی سب سچ بتایئے گا تو ایسے میڈیا
ٹرائل کہہ دیا جاتا ہے۔یا پھر ایک محترم سیانے سچ کہتے ہیں کہ گنجے کو ناخن
مل جائیں تو اپنا سر پہلے کھجاتا ہے، محترم سیانے بھائی ، کیا سچ لکھنا جرم
ہے،پھر کوئی خوش ہوگا ۔آپ کے منصوبے وقتی ضرورت کے تحت اور وقتی فائدے
کیلئے ہوتے ہیں طویل المدتی اور مربوط پلاننگ کیساتھ نہیں منصوبے نہیں
بنائے جاتے ، اربوں روپے چند دن کے لئے تو فائدہ مند ہوتا ہے لیکن پھر سب
کچھ کرپشن اورنا اہل افراد کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان دے جاتا ہے۔میں
کاغذ ی نقشوں کو دیکھو ں کہ لوٹ کر مقتل کو دیکھوں - |