پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے
بڑا صوبہ ہےیہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 55 فیصد ہے
پاکستان بننے سے پہلے بھی پنجاب کے بیشتر شہروں میں اسکول ، کالجز تھے مگر
لاہور جو کہ پنجاب کا دارالخلافہ ہے "کالجوں کا شہر " کہلاتا تھا آج بھی
پنجاب اپنی 31 پبلک اور25 پرائیوٹ یونیورسٹیوں کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی
اداروں کے حوالے سے سب سے آگے ہے. اگر ان تعلیمی اداروں میں آسلام آ باد کے
سرکاری اور غیر سرکاری ، افواج پاکستان سے وابستہ تعلیمی اداروں کو بھی
شامل کر لیا جاۓ تو یہ تعداد تقریبا'' 75 بن جاۓ گی جو کہ بقیہ پاکستان کے
تینوں صوبوں کی سرکاری تعلیم گاہوں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہے . صوبہ پنجاب
میں یہ تعلیمی سہولیات جو انگریز کے دور میں ھی شر و ع ہوچکیں تھیں پاکستان
کے دارالخلافہ کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنےاورون یونٹ کےبننےسےمزید
مستحکم ہوئیں .خواند گی کی جو شرح ١٩٩٨ میں 46 فیصد تھی ٢٠١٤ میں 75 فیصد
ہوگئی-
دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی خواتین اور مردوں کی تعداد میں واضح فرق
ہے یعنی یہ تناسب ہر 100 خواتین پر107 مرد ہیں. عمومی طور پرتو پنجاب کی
خواتین بھی تعلیم ، روزگار وغیرہ کی سہولتوں میں مردوں سے پیچھے ھی ہیں مگر
پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں یہاں بہت زیادہ بہتری دیکھائی دیتی
ہے اسی لیے ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں بھی پنجاب (شہری و دیہی ) مجموعی
انڈیکس 0.670 کی شرح کے ساتھ نمبر ون ہےدوسرے نمبرپرسندھ ،تیسرے پر
خیبرپختونخواہ اورآخر پربلوچستان ہے. دیہی اور شہری آبادی کے تناسب میں
پچھلے 17 سال میں ایک حیرت انگیز تبدیلی برپا ہوئی سن ١٩٩٨ میں 31.3 فیصد
آبادی پنجاب کے شہروں میں مقیم تھی جو ٢٠١٢ میں بڑھ کر 50.3 فیصد ہوچکی ہے
-
سو آبادی ، انفراسٹرکچر ،تعلیم ، روزگار اور صحت عامہ کے حساب سے پنجاب اس
وقت پاکستان کا بہترین خطہ زمین ہے یہاں ٩٧ فیصد سے زیادہ عوام اسلام پر
ایمان رکھتے ہیں-
ایک بہت ھی دلچسپ اعداد ؤ شمار پنجاب میں رہنے والی مختلف لسانی اکائیوں سے
متعلق ہے یہاں 75 فیصد عوام پنجابی زبان بولتے ہیں جبکہ 17.4 فیصد سرائیکی
اور اردو بولنے والوں کی تعداد صرف 4.5 فیصد. پنجاب بھر میں پشتو زبا ن
بولنے والے صرف 1.2 فیصد ہیں جبکہ بلوچی اور سندھی زبان بولنے والےایک فیصد
افراد بھی یہاں مقیم نہیں ہیں . دوسری طرف اگر سندھ ، بلوچستان اور خیبر
پختونخواہ میں پنجابی بولنے والی آبادی کا تناسب دیکھا جاۓ تو وہ بترتیب 7
فیصد، 3فیصد .اور 4 فیصد ہے-
پنجاب کے بارے میں یہ اعداد ؤ شمار دینے کا واحد مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ
صوبہ پنجاب نے پاکستان کے نامساعد سیاسی اورمعاشی حالت کے باوجود اپنی
تعلیمی صلاحیتوں ، معاشی کامیابیوں اور معاشرتی ناہمواریوں پر دوسرے صوبوں
کی نسبت بہتر کنٹرول رکھا اسکی وجوہات کیا تھیں ؟ یہ کسی اور نشست میں سہی
مگر آج کی نشست میں الفاظ نہیں بلکہ اعداد ؤ شمار کے ساتھ ہم یہ جاننا
چاہیں گے کہ ترقی کے ہرمیدان میں جھنڈے گاڑتےاس صوبے کی خواتین کیوں اسکے
اپنے ھی شہریوں کے ہاتھوں بربریت ؤ ظلم کا شکار ہیں وجوہات تو اس صوبے کی
باگ ڈور سنبھالنے والے جانیں مگر ڈیٹا بتا رہا ہے کہ نہ 75 کے قریب ا علی
تعلیمی ادارے نہ بہتر شہری /دیہی تقسیم اور نہ ھی سڑکوں ، پلوں ،میٹروکے
شاندار جال اور نہ رنگ برنگی ٹیکسی ، رکشہ کے معاشی مضبوطی پھیلاتے تحفے
خواتین کے خلاف جرایم کی شرح کو کم کر سکے -
قارین سے بھی گزارش ہے کہ تعصب سے بالاتر ہو کر سوچیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں
جو 50 فیصد شہری علاقوں، 74 فیصد خواندہ اور ٩٧ فیصد مسلمان افراد پر مشتمل
اس علاقے کے لوگوں کو اس سے جڑے دوسرے صوبوں کی نسبت خواتین کے خلاف جرایم
پر آمادہ کرتی ہیں جبکہ اسی صوبے میں پاکستان کی دوسری اکایوں کی نمایندگی
بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور جرایم کا فرق دوسرے صوبوں سے اس قدر زیادہ ہے
کہ اس پر سوچ بچار نہ کرنا بھی ایک جرم ھی سمجھا جانا چاہیے-
پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات ،پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد
اور جرایم کا کل 74.5 فیصد ہیں ،سندھ میں یہ فیصد 14.5، پختونخواہ میں 7.4
اور بلوچستان میں 2 فیصد .اب یہاں یہ معاملہ بھی زیر غور آسکتا ہے کہ یہ
جرایم آبادی کے تناسب سے ہورہے ہیں تو ایسا نہیں ہے !
اعداد ؤ شمارثابت کر رہے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد میں پنجاب اپنی آبادی
کے 0.008 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ سندھ آبادی میں دوسرے نمبر پر ہونے
کے باوجود خواتین کے خلاف متشدد واقعات میں 0.002 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر
پر ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کی آبادی تو ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر خواتین
کے خلاف تشدد کے واقعات 0.003 فیصد ہیں.
پاکستان میں خواتین کے اغوا کی کل تعداد سن 2014 میں 2170 رہی جسمیں سے
1928 یعنی کل اغوا کا 88.8 فیصد جرم صرف پنجاب میں ہوا اور 7 فیصد سندھ
میں، اسی طرح خواتین کے قتل کی تعداد پنجاب میں 982 ہے اور خیبر پختونخواہ
میں 324 جبکہ سندھ میں 249 ."جھوٹی " غیرت کے نام پر قتل اسکے علاوہ ہیں
جنکی تعداد 362 ہے ، تیزاب پھینکنے کے بہیمانہ واقعات کی تعدادپنجاب میں
108 ہے جو کہ خواتین کوتیزاب سے جھلسانے کے واقعات کا 91.5 فیصد ہے سب سے
تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ ریپ اور گینگ ریپ کی تعداد صوبہ پنجاب میں
شرمناک حد تک زیادہ ہے یعنی 1408 اور اس کا عشر عشیر بھی بقیہ صوبوں میں
نہیں .
ریپ / گینگ ریپ کےجرم کا92.3 فیصد صرف پنجاب میں وقو ع پزیر ہوتا ہے اور یہ
ایک ایسی اندوہناک خبر ہے کہ ہر باشعور پاکستانی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور
کر دیتی ہے
یہ اعداد ؤ شمار نہ کسی تفصیل کے محتاج ہیں اور نہ کسی کج بحثی کے !!
سوچیے اور وہ وجوہات تلاش کریں جو ان جرایم کی پرورش کر رہی ہیں
ملک کی ترقی اسکی نسلوں کی ترقی میں ہے اور نسلوں کی بہبود انکی ماؤں کی
خود اعتمادی میں ہے مجرموں کے درمیان پلنے بڑھنے والی بچیاں کہاں سےخود
اعتمادی لائیں گی ؟ |