اصحاب جنت بننے کی کوشش کرنے کو مقصد بنانا

 اگر ہم دنیا میں با عزت ،عہدے والے کو کامیاب تصور کرتے ہیں تو آخرت میں بھی جنت والے ہی باعزت ہونگے
سورہ حشر۔59.۔آیت 20۔آگ میں رہنے والے اور جنت میں رہنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔
59-18. O you who believe! Fear Allah and keep your duty to Him. And let every person look to what he has sent forth for the morrow, and fear Allah. Verily, Allah is All-Aware of what you do .
59-19. And be not like those who forgot Allah (i.e. became disobedient to Allah) and He caused them to forget their ownselves, (let them to forget to do righteous deeds). Those are the Fasiqun (rebellious, disobedient to Allah).
59-20. Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise. It is the dwellers of Paradise that will be successful.
۱۸۔ایک وہ لوگو ؛ جو یقین رکھتے ہو؛ اﷲ سے ڈرو اور اس کے احکام کا خیال رکھو۔ اور ہر آدمی یہ خیال رکھے کہ کل آگے کے لئے کیا بھیجا ہے۔ اﷲ سے ڈرو۔ بے شک وہ جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو۔
۱۹۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اﷲ کو بھول جاتے ہیں اور وہ پھر ان کو اپنا آپ بھلا دیتا ہے۔ ایسے ہی لوگ فاسق ہوتے ہیں۔
۲۰۔ تو پھر آگ والے( یعنی جن کو سزا دی گئی ہو) اور جنت والے( یعنی جن کو انعام دیا گیا ہو) برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ تو جنتی ہی ہیں جو کہ اونچے درجات پر فائز ہونگے۔

یہ تین آیات زندگی بارے نظریات کو بالکل واضح کر دیتی ہیں ۔ جس کی سمجھ ہمیں دنیا کی زندگی کے تجربات سے ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ہر بچہ جب معاشرے میں کسی بڑے آدمی کو دیکھتا ہے جیسے کہ کوئی لوکل چوہدری، امیر، پڑھا لکھا، ڈاکٹر انجینیئر،فوجی یا حکومتی افسر، ، ڈپٹی کمشنر، تھانیدار، پروفیسر،بزنس مین ،سیاست دان، عالم دین ، پیر، سیاست دان، وزیر، صدر وغیرہ جو کہ باعزت گنے جاتے ہیں ان کی بات مانی جاتی ہے۔ تو پھر وہ ان میں سے کسی ایک کی طرح بننا چاہتا ہے اور پھر اس کے لئے جو جو ضروری ہوتا ہے اس کے لئے مناسب تیاری کرتا ہے۔ اور پھرجب اپنا مقصد حاصل کر کے وہی بن جاتا ہے تو اپنے آپ کو کامیاب سمجھ لیتا ہے۔ کہ ا ب باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔ یعنی دنیا کی زندگی میں جب تک کوئی مقصد بنا کر کوشش نہیں کرتا تو وہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں نے جب وہ مقام حاصل کر لیا تو زندگی آرام سے گزرے گی۔ جب تک اسے یہ یقین نہ ہو تو وہ کوشش نہیں کرتا۔وہ یہ مقام اس لئے حاصل کرنا چاہتا ہے تا کہ بیوی بچوں کو آرام سے رکھ سکے اور ان کا مستقبل محفوظ بنا سکے۔

یہی حال لڑکیوں کا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کا بنیادی کیریئر شادی ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کماتی نہیں ہیں اور اس کا status وہی ہوتا ہے جو خاوند کا ہوتا ہے اس لئے ان کا ٹارگٹ کوئی امیر، با عزت،معاشرے میں اونچے مقام والا آدمی ہوتا ہے جس سے شادی کر کے آرام سے اور عزت سے رہ سکے ۔ والدین بھی جب رشتہ آئے تو پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ لڑکا کیا کرتا ہے۔آج کل لڑکیاں بھی چونکہ جاب کرتی ہیں اور معاشی لحاظ سے آزاد ہوتی ہیں تو ان کی چوائس مختلف ہونے لگی ہے مگر حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے کہ زیادہ تر ورکنگ ویمن کی زندگی میں خاوند پھر بھی ان کی لائف میں اہم ترین ہوتا ہے، نہ کہ جاب۔

دونوں لڑکی یا لڑکے کو بہر صورت مقصد بنا کر اس کے حصول اور کامیابی کے لئے مناسب کوشش ضروری ہوتی ہے۔ اور کامیابی کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ زندگی کے نئے مقام میں اس کے حقوق و فرائض کی ادائیگی سے ہی پھر زندگی اچھی گزرتی ہے۔ورنہ اس میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ پہلے جاب کو لے لیں کہ اس میں ترقی کے لئے باس کی ہر بات پر عمل کرنا ہوتا ہے چاہ جی کرے یا ہ کرے۔ چاہے باس صحیح ہو یا غلط۔ چاہے اس کے احکام logic پر مبنی ہوں یا نہ ہوں کیونکہ وہی فیصلے کرنے والا ہوتا ہے۔ سال کے آخر میں جب سالانہ رپورٹ لکھتا ہے تو سارے سال کی کارکردگی کا جائز لیتا ہے سارا سال ٹھیک بھی کام کریں اور آخر مین کوئی غلطی ہو جائے تو وہ غلطی سارے اچھے کاموں پر حاوی ہو جاتی ہے اور بری رپورٹ مل جاتی ہے۔جو کہ اس کے ساتھ ساری سروس میں رہتی ہے اور اس کی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی کو اﷲ تعالی بھی یوں فرما رہے ہیں کہ دیکھو آگے کیا بھیجا ہے کیونکہ یہاں کے اعمال دراصل اگلی زندگی کے بھی اعمال بن رہے ہیں ۔ اور ریکارڈ ہو رہے ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ اﷲ کی باتوں پر کتنا عمل کیا ہے۔ یعنی اﷲ بھی باس کی طرح ہے اور وہ بھی سال کے آخر مین سالانہ رپورٹ لکھتا ہے اور اسی پر بندے کی ترقی کا انحصا ر ہوتا ہے۔

یا اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ یہ زندگی ایک ڈرامہ ہے جس میں ہر ایکٹر ایک خاص رول کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد، یعنی قیامت آنے کے بعد اس ڈرامے کے ایکٹر پھر اکٹھے کئے جائیں گے۔ یعنی ڈرامہ replay ہو گا مگر اس بار بجائے انسانوں کے آپس کے تعلقات اور ان کے ایک دوسرے کے اثرات کی بجائے اﷲ تعالی ہر ایکٹر سے اس کے رول کے بارے پوچھے گا کہ تم نے میرے سکرپٹ کے مطابق رول کیا یا درمیان میں اپنی مرضی سے کچھ اور ہی کر دیا تھا یعنی یہ بتایا جائے گا کہ تم نے اس جگہ اچھا رول ادا کیا مگر وہاں پر یہ یہ غلطی کی۔ اور پھر پاس یا فیل کیoverall grading ہوگی۔ اﷲ کا جج کرنے کا کیا سٹینڈرڈ یاcriteia ہوگا اس کا اسے ہی پتہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ سائکولاجیکل ٹسٹ مین ہوتا ہے کہ بندے کو نہیں پتہ ہوتا کہ ممتحن کی اس تصویر سے کیا مطلب ہے۔ اور پھر اس کے مطابق تمام ایکٹروں کو انعام ملے گا یا سزا ملے گی ۔ لیکن ایک بات تو سب کو سمجھ ہوتی ہے کہ جو کام دیا جائے اس کا ٹسٹ یہی ہوتا ہے کہ ہدایات کے مطابق کیا ہے یا کہ نہیں ۔بات ہمیشہ فرمانبرداری یا نافرمانی کے ٹسٹ کی ہی ہوتی ہے۔ اور نافرمانی کو ہمیشہ زیادہserious لیا جاتا ہے۔ اس لئے گھر ہو سکول یا معاشرہ جس چیز سے منع کیا گیا ہو وہ نہ کی جائے تو فرمانبرداری میں کمی بیشی کو ہر ایک انسانی بھول چوک سمجھ کر معاف کر دیتا ہے مگر ایک بار کی بھی منع کی گئی چیز کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے اگر ہر سسٹم کیdon'ts کا پتہ ہونا چاہئے ۔یہی اﷲ کی don'ts پر عمل کیا جائے تو پھر دہdo's مین کمی بیشی پر رعایت مل جائے گی انشاء اﷲ۔کیونکہ اﷲ تعالی رحمان و رحیم ہے اور اس کی رحمت سے ہی جنت ملے گی۔یعنیgrace marks دے کر پاس کر دے گا۔یہی امید رکھنی چاہئے۔ جیسے کہ اچھے ایگزامینر ہمیشہ بچوں کے ساتھ نرمی ہی برتتے ہیں۔

اسی لئے اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ اﷲ کی جواب دہی کو مت بھولو۔ اگر بھول گئے تو پھر اﷲ کو بھی پرواہ نہیں ہوگی اور وہ بھی انہیں بھولا ہوا ہی رکھے گا یاد نہیں دلائے گا۔مگر جو اﷲ سے ڈرتے ہیں اور کبھی کبار مصروفیت میں یا شیطان ان کو بھلا دیتا ہے تو اﷲ ان کو یاد دلا دیتا ہے۔ جیسے کہ ہم اپنے کسی عزیز کو مصرفیت کی وجہ سے کال کرنا بھول جائیں تو وہ کال کر کے پوچھ لیتا ہے کہ بھئی خیریت تو ہے ناں ۔یہی کال اﷲ کی طرف سے بھی بندے کو ضرور آتی ہے۔ بات اﷲ سے تعلق کو اہمیت دینے کی ہے۔اﷲ کیسے کال کرتا ہے ہر ایک کے ساتھ مختلف طریقہ ہوتا ہے ۔ موما یہ ایک فلیش خیال کی طرح آتا ہے۔ بات میسج پہچاننے کی ہے۔اسی طرح شیطان بھی فلیش خیال ڈالتا ہے اس کے میسج کو بھی پہچاننا ضروری ہے یہ ہمیشہ نافرمانی کا میسج ہوتا ہے اسء لئے جب آئے تو اﷲ تعالی کہتا ہے کہ پھر فورا میری پناہ مان لو تو بچ جاؤگے۔

آخری آیت یہ بتاتی ہے کہ جب تک ہم اگلے جہاں میں اس جہاں کی زندگی کی جواب دہی پر دل سے یقین نہیں کرتے تو پھر اگلے جہاں میں بھی باعزت مقام حاصل کرنے کا مقصد نہیں بنائیں گے اور نہ ہی اس کے لئے تیاری کریں گے۔ اگلے جہاں کی تیاری زیادہ مشکل کام نہیں ہے اس کے لئے لمبی چوڑی عبادتوں ،وظیفوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کی تیاری اس دنیا میں انسانوں کے ساتھ اس جیسا سلوک کرنے سے ہو جاتی ہے جیسا کہ ہم دوسروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں گے۔ اگر اگلے جہاں میں درجات لینے ہیں تو اس کا نسخہ بھی یہ ہے کہ دوسرے ہمارے سارھ برا سلوک کریں تو ہم اس کو معاف کر دیں اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور رد عمل کے طور پر برا سلوک نہ کریں کیونکہ وہ اپنے رول کے مطابق ٹسٹ کیا جائے گا اور ہم اپنے رول کے مطابق۔ اگر کوئی اچھا سلوک کرے تو برابری کے اصول کے مطابق ہمیں بھی ویسا ہی اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اگر درجات چاہئیں تو پھر احسان کا سلوک کریں یعنی اس سے تھوڑا بہتر بدلہ دینا۔

یہ بڑا سادہ اور آسان طریقہ ہے، کیوں؟ اس کا جواب اور وجہ بھی پروردگار نے خود بتا دی ہے۔ کیونکہ اس کی تمام مخلوق کو وہ اپنی فیملی قرار دیتا ہے۔تو اﷲ کی فیملی کا جو خیال رکھے گااچھی طرحlook after کرے گا تو وہ اس سے خوش کیوں نہین ہوگا۔جیسے کہ ہمارے بچے سے کوئی پیار کرے تو ہم اس سے خوش ہو کر محبت نہٰن کرنے لگ جاتے۔؟ اگر یہ صحیح تجربہ ہے تو اﷲ اپنی ہر بات کی دلیل اس دنیا میں ہی دکھا دیتا ہے۔ ایک اور نقطہ اور بہت اہم نقطہ؛۔ اس میں مذہب کا کوی ذکر نہیں اور نہ عمل دخل ہے۔کیونکہ مسلمانوں کے علاوہ باقی تمام نان مسلم بھی اﷲ کی فیملی ہیں ان کو بھی اسی اصول سے برتاؤ کریں ۔ انسانوں کے علاوہ جانور،پرندے،نباتات جمادات بھی اﷲ ہی کی مخلوق ہے۔ ان سے بھی اچھا سلوک اور بھی اہمیت کا ہے کیونکہ وہ بول کر ہمیں نہین بتا سکتے کہ ہم نے ان کو تکلیف دی ہے۔ جبکہ انسان فورا بتا دیتا ہے ۔ اس لئے ان کو بھی جاندار سمجھ کر جو کہ احساسات رکھتے ہیں ، ان کا خیال کریں۔ وہ بھی ہماری خاموش خدمت کرتے ہیں ۔یہ سمجھنے کے لئے میں ایک ریفرنس دے رہا ہوں؛
" ہم میں سے ہر ایک کہتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ اس کا جواب سب یہ دیتے ہیں کہ ہمارے لیڈر صحیح نہہیں ملے۔مگر یہ درست نہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم محب وطن نہیں رہے۔ انگریز سخت محب وطن ہیں۔حب الوطنی کی ٹریننگ سکول سے شروع ہوتی ہے نرسری کلاس سے یعنی چار سال سے۔ وہاں ہی اس کی حب الوطنی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔یعنی سکول کی تعلیم شروع کرنے سے پہلے ہی اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ کیسے یہ یکھیں

جب بچہ سکول جاتا ہے تو اسے کتابیں نہیں دی جاتیں بلکہ سپیشل خاتون ٹیچرز اس کو کھلونوں سے بھی بات سکھاتی ہیں، اور پھر ان کوا یک درخت کے پاس لے جاتی ہیں۔ اور بتاتی ہیں کہ یہ درخت ہمیں کیا کیا دیتا ہے۔ دھوپ اور بارش سے سایہ دیتا ہے پھل دیتا ہے لکری دیتا ہے جو جلانے اور فرنیچر کے لئے کام دیتی ہے سب سے ضروری کہ یہ آکسیجن دہیتی ہے جس سے ہم سانس لیتے ہین جس سے ایک درخت ۲۳ بچوں کو زندہ رکھتا ہے۔ اس درخت سے ہمیں نہربل میڈیسن ملتی ہے اس سے ہم صحت من رہتے ہیں اس کے اتنے زیادہ فائدے ہیں اور یہ ہمارے لئے کیا کیا کرتا ہے تو پھر ہمیں بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے آؤ اور سب مل کر اسے پانی دیں ۔

پھر الیکٹرک پول کے پاس لے کر اس کے بارے بتائے گی۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک ٹیچر بیس پچیس بچوں کو لے کر فٹ پاتھ پر جارہی ہے۔ انہیں بتاتی ہے کہ لائین میں اس طرح چلنا ہے کہ کسی کے ساتھ نہ لگیں ، کسی کے پاؤں پر پاؤں نہ آے ان کا بیگ کسی کے ساتھ نہ ٹکرائے احتیاط کیسے کرنی ہے ایک زیبرا کراسنگ سے سڑک کی دوسری طرف لے جائے گی کچھ فاصلہ پر پھر زیبرا کراسنگ سے پہلی طرف آ جائے گی۔ اور یوں سڑک کراس کرنے کی ٹریننگ دیتی جاء گی۔ سگنل سرخ ہو جائے تو اونچی آواز میں ان کو بتائے گی کہ اس پر رک جانا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بس میں سوار کرانے کے لئے قطار بنوائیں گی۔ غرضیکہ بچوں کی تعلیم تربیت کے ذریعے کی جا رہی ہوتی ہے۔ نہ کہ کتابوں کے ذریعے ۔یہ سب سے پہلے اس لئے کی جاتی ہے تا کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ڈیلی برتاؤکے آ داب سکھا دئے جائیں ۔ جس سے زندگی میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک سٹیندرڈ معاشرتی اخلاق بن جاتا ہے اور ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا کیا کب کب کرنا ہے۔سی طرح بچہ دیکھتا ہے کہ باپ گھر کے کام خود ہی کر رہا ہوتا ہے ۔ باپ شام کو ماں کے کچن کے کام میں بھی مدد کرتا ہے تو یہ تمام مشاہدات بچے کے زہن میں نہ ختم ہونے والا تاثر چھوڑتے ہیں جو ساری عمر اس کے ساتھ رہتا ہے اور یہی پھر نیشنل پریکٹس اور سٹیندرڈ بن جاتا ہے۔ " کتاب کہے فقیر۔ سید سرفراز شاہ۔

تو درختوں کو بھی پانی دیں خصوصا گرمیوں میں ۔ ان کو بھی پیاس لگتی ہے۔جانوروں کے بھی کھانے پینے کا خیال رکھیں ۔

پرندوں کا بھی۔ ہم نے ایک دفعہ گرمیوں میں پانی کا پیالہ بھر کر صحن میں رکھ دیا تو پرندے شام کو گھر جاتے رک کر پانی پینے لگے۔ او ہر قسم کے پرندے آنے لگے۔ حیرت کی بات یہ نوٹ کی کہ پرندے بھی اپنی باری کا انتظار کرتے دیکھے یہ نہیں کہ سب جھگڑنے لگیں کہ ہم نے پہلے پینا ہے۔یہ صرف انسان ہی کرتے ہیں۔ آپ بھی تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

مجھے امید ہے کہ تمام قاری جنت میں اونچے درجات کے لئے انسانوں کی خدمت کا اصول اپنا لیں گے۔اور اس مضمون کو گھر والوں اوردوست احباب کے ساتھ شیئر کریں۔ کیونکہ ہمارے پیاری نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ۔" نعمت کا شکر یہ یہ بھی ہے کہ اسے پھیلایا جائے۔ کنزالعمال حدیث نمبر6435،" .اسی بات کو گورے یہ کہتے ہیں کہ؛۔sharing is caring یعنی اگر کسی کو اچھی بات بتاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بھلائی کی فکر ہے کہ اس کو بھی اس بات کا پتہ لگ جائے۔
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 36045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.