قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنا

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

میں نے جلدی ہی گاڑی یا مکان یا کوئی دوسرا سامان قسطوں پر خریدنے کے متعلق اپنا ایک مختصر مضمون اور لیکچر ارسال کیا تھا۔ چند احباب کے سوال اور موضوع کی اہمیت وضرورت کے پیش نظر مزید تفصیلات ارسال کررہا ہوں۔

قسطوں پر خریدوفروخت کا مطلب ہوتا ہے کہ سامان پر قبضہ تو فوراً ہوجائے لیکن سامان کی پوری یا بعض قیمت کی ادائیگی چند متعین قسطوں پر کی جائے، جن کی ادائیگی کا وقت اور رقم طے کرلی جائے۔
صحیح بخاری (۲۰۶۸) اور صحیح مسلم (۱۶۰۳) کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک یہودی سے اپنی زرہ رہن میں رکھ کر جو (Barley) ادھار خریدے۔یہ حدیث دلالت کررہی ہے کہ قیمت کی ادائیگی کو مؤخر کرکے یعنی ادھار خرید وفروخت کرنا جائز ہے۔ قسطوں پر کوئی سامان خرید نے کے لئے بھی قیمت کی ادائیگی مؤخر کی جاتی ہے، جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ مستقبل میں قیمت کی ادائیگی کس طرح ادا کی جائے گی۔ اور شرعی حکم میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ادھار کی قیمت ایک قسط پر ادا کی جائے یا متعدد قسطوں میں۔

صحیح بخاری (۲۱۶۸) میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس حضرت بریرہ رضی اﷲ عنہا تشریف لائیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالکوں سے ۹ اوقیہ چاندی پر مکاتبت کرلی ہے۔ شرط یہ ٹھہری ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی انہیں دیا کروں گی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معاوضہ قسطوں پر ادا کیا جاسکتا ہے۔

ان دونوں احادیث سے یہ تو معلوم ہوا کہ کسی سامان کی قیمت ادھار خواہ ایک قسط میں یا متعدد قسطوں میں وصول کی جاسکتی ہے لیکن ان احادیث میں وضاحت کے ساتھ یہ مذکور نہیں ہے کہ ادھار کی صورت میں قیمت زیادہ وصول کرنا جائز ہے یا نہیں۔ اس وجہ سے علماء کے درمیان مسئلہ مذکورہ میں اختلاف ہوا۔ علماء کی ایک چھوٹی سی جماعت کی رائے ہے کہ قیمت زیادہ کرکے قسطوں پر خریدو فروخت کرنا سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ لیکن جمہور فقہاء وعلماء جن میں چاروں ائمہ (حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ) بھی ہیں، نے قسطوں پر قیمت زیادہ کرکے خریدو فروخت کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ چاروں مذاہب کی ایک ایک مستند کتاب کی عبارت حوالہ کے ساتھ پیش ہے: ادھار کی وجہ سے قیمت زیادہ کی جاسکتی ہے۔ (بدائع الصنائع ۱۸۷/۵)۔ وقت کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ (بدایہ المجتہد ۲ /۱۰۸) ۔ پانچ نقد کو چھ ادھار کے بدلہ میں کیا جاسکتا ہے۔ (الوجیز للغزالی ۱ / ۸۵)۔ ادھار قسطوں پر قیمت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ۲۹ / ۴۹۹)

جمہور فقہاء وعلماء نے سورۃا لبقرہ آیت ۲۷۵ اور سورۃ النساء آیت نمبر ۲۹ سے استدلال کیا ہے کہ عمومی طورپر خرید وفروخت جائز ہے الّا یہ کہ قرآن وحدیث میں خرید وفروحت کی کسی خاص شکل کی ممانعت واضح طور پر موجود ہو۔ قیمت میں اضافہ کرکے قسطوں پر سامان خریدنا بھی خرید وفروخت کی ایک شکل ہے جس کو قرآن وحدیث میں منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ جواز کی تایےد کے لئے احادیث مبارکہ موجود ہیں۔

جمہور علماء کی تیسری دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری (۲۰۸۶) میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو (مدینہ کے) لوگ پھلوں میں ایک سال اور دو سال کے لئے بیع سلم کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بھی کھجور میں بیع سلم کرے اسے متعین پیمانے یا متعین وزن کے ساتھ کرنی چاہئے۔۔۔ وضاحت: بیع سلم ایسی خرید وفروخت ہے جس میں قیمت پہلی دے دی جاتی ہے اور وہ سامان جو فروخت کیا گیا ہے بعد میں حوالہ کیا جاتا ہے، یعنی اصل مال کی غیر موجودگی میں خرید وفروخت ہوجاتی ہے۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ مقدار، جنس، اصل مال اور جس جگہ ومقام پر وہ مال خریدار کے حوالہ کیا جائے گا سب کی تعیےن پوری طرح کردی جائے تاکہ اصل اس طرح متعین ہوجائے کہ گویا وہ سامنے ہے اور اس کی طرف اشارہ کرکے تعیےن کردی گئی ہے۔ اسی لئے تمام اموال میں یہ بیع نہیں چلتی، صرف انہیں چیزوں میں چلتی ہے جو ناپی اور تولی جاسکیں یا انہیں شمار کیا جاسکے اور باہم ان معدودات میں کوئی خاص فرق نہ ہوتا ہو۔ چونکہ اصل مال موجود نہیں ہے اس لئے انہیں صورتوں میں یہ بیع سلم کی جائے جنہیں بعد میں اصل مال خریدار کو دیتے وقت کوئی جھگڑا پیدا نہ ہوسکے۔۔۔۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیع سلم کے جائز ہونے پر اجماع امت ہے اور یہ بیع قسطوں پر سامان خریدنے کے مشابہ ہے۔ بیع سلم میں قیمت نقد ہے جبکہ سامان ادھار، قسطوں پر سامان خریدنے پر سامان نقد اور قیمت ادھار، خواہ ادائیگی ایک مشت میں ہو یا متعدد قسطوں میں۔
جمہور فقہاء وعلماء کی چوتھی دلیل ہے کہ ابتداء اسلام سے ہی قسطوں پر سامان خریدنے پر قیمت میں بڑھوتری کا معاملہ مسلمان کرتے چلے آئیں ہیں، اور کسی زمانہ کے فقہاء یا علماء نے اس پر نکیر نہیں کی ہے، تو قسطوں پر سامان خریدنے پر رقم میں بڑھوتری کے باوجود اس کے جواز پر اجماع امت بھی ہو گیا۔
غرضیکہ امت مسلمہ کی بہت بڑی تعداد، چاروں ائمہ اور ہر مکتب فکر کے مشاہیر علماء نے قسطوں پر سامان خریدنے پر قیمت کے اضافہ ہونے کے باوجود اس کے جواز کا فتوی دیا ہے اور آج بھی تمام مکاتب فکر اس کے جواز کا فتوی دے رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کے جواز میں کوئی شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر کوئی شخص احتیاطاً قسطوں پر سامان خریدنے سے بچنا چاہئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں اس بات کا خاص اہتمام کیا جائے کہ قسطیں مالک کو ہی ادا ہوں، اور سامان بیچنے والے کی ملکیت میں ہو، تیسری پارٹی کی شمولیت نہ ہو۔

ان دنوں خاص کر ہندوپاک میں ایک اور مسئلہ درپیش آتا ہے کہ گاڑی فروخت کرنے والا مثلاً (گاڑیوں کا شوروم) کسی بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی سے معاہدہ کرلیتا ہے جس کی بنیاد پر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی گاڑی خریدنے والے کی طرف سے گاڑی کی مکمل قیمت نقد ادا کردیتی ہے، مثلاً تین لاکھ روپئے، اور گاڑی خریدنے والا گاڑی کی قیمت قسطوں پر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی کو ادا کرتا ہے، مثلاً تین لاکھ اور پچاس ہزار روپئے ۔ یہ شکل و صورت شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی سے سود پر قرض لینے کے مترادف ہے، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ ہاں اگر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی گاڑیوں کے شوروم سے گاڑی نقد خریدلے اور گاڑی بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی کی ملکیت میں آجائے ، پھر بینک یا انویسٹمینٹ کمپنی قسطوں پر گاڑی فروخت کرے تو یہ جائز ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنے پر اگر قسطیں براہ راست مالک کو ادا ہورہی ہیں، بینک وغیرہ کی شمولیت نہیں ہے تو پھر جائز ہے خواہ نقد کے مقابلہ میں قسطوں پر گاڑی یا مکان خریدنے پر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑے۔
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 25 Articles with 33299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.