سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس

گل زیب انجم کے ایک طویل مضمون سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس
وہ ناسوروں کا علاج جونکوں کے ذریعے کرتے تھے.
اللہ نے انہیں دست مسیحائی عطا فرمائی.

ان کے گهر آ کر پانی صرف پانی نہیں رہتا تها.

یہ کسی خفیہ کاریگر کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے

یہ جو مندو ہوراں نا دندا ہے نا جہاں یہ ختم ہوتا ہے وہاں گیائیں سے آتی ہوئی ایک کسی (ندی) بھی آ کر ملتی ہے کسی اور دندے کے سنگم پر ایک چوآ (spring) ہوا کرتا تھا جس کا پانی گرمی کے دنوں میں اس قدر ٹھنڈا ہوتا تها کہ دو تین گهونٹ ہی پی لینے سے تشنگی جاتی رہتی تھی اکثر کهلااڑے لگانے والے اسی چوئے کا پانی لے کر جاتے تهے یہ قدرتی طور پر ایسی جگہ سے بہتا تها جہاں کسی سمے بھی دهوپ نہیں پڑتی تھی عرصہ بیت چلا ہے کہ اس جگہ سے پهر گزر نہیں ہوا شاید آج کے دور میں اس کی کچھ باقیات ہوں. اس سے آگے عنایت اللہ کینٹاں والے کا دندا ہے کینٹ ایک کھردرا قسم کا پتھر ہے اور وہ پتھر ان کی الاٹ منٹ اراضی میں آتا ہے کافی عرصہ تک ان کا ذریعہ معاش سنگ فروشی رہا اس لیے پتھر ان سے اور وہ پتھر سے یوُں وابستہ ہوئے کے لوگ یہی سمجھنے لگے کے کینٹ ان کی قوم یا کنیت ہے ۔ بان کا یہ حصہ بھی انہی سے منسوب ہے وہ نہ صرف کینٹ فروشی کرتے بلکہ ناسوروں کا علاج بھی جونکوں کے ذریعے کیا کرتے تھے . یہ علم انہوں نے کہاں سے اور کیسے سیکها تاریخ کسی گهر بهیدی کی متلاشی ہے. جہاں کبهی کینٹ تها آج وہاں سے ایک سڑک بهی گذرتی ہے اب اس سڑک پر کاریں اور موٹر سائیکل چلتے ہیں جو کبهی صرف گدھا بانوں کا رستہ ہوا کرتا تھا . بان یہاں سے یو (U) ٹرن لے کر ھلہ اور پیلاں کے درمیان سے گزرتی ہوئی توتاں والے گراٹ کو اللہ حافظ کہتی ہوئی دُور نکل جاتی ہے. یہ جو پیلاں اور هلہ ہیں ناں یہ بھی دو گاوں ہیں ان کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی ناانصافی ہو گی . هلہ، ہلہ دونوں ح سے لکھا جانے والا ایک اسم ہے لیکن هلہ یا ہلہ کیوں کہا گیا اس کی وضاحت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے تاہم اس کا اجمالی تعارف کچھ یوں ہے کہ یہاں جو زرعی اراضی ہے اس میں کافی عرصے تک کاشت نہیں کی جاتی رہی کاشت نہ کرنے کی وجہ یہ زمین کچھ ریتلی قسم کی تهی اس لیے ملکان زمین نے کافی عرصے تک کچھ نہیں بیجا ،شاید وہ لوگ اصول زراعت سے بیگانہ تهے حالانکہ یہی زمین اگر جنوبی پنجاب میں ہوتی تو وہ لوگ دو کے بجائے سال میں تین فصل کماتے لیکن یہاں اسے ریت سے بنجر بنا دیا. یہاں سے بان کا پانی بھی اکثر شارٹ کٹ کر لیتا تها کچھ یہ خدشہ بھی لگا رہتا تھا. بان سے سرولیاں تک یہ هلہ کا سارا علاقہ سٹیپ بائی سٹیپ اونچا ہوتا رہتا ہے. هلہ کی لمبی لمبی باڑیاں پراٹی سے شروع ہو کر کینٹاں جا کر ختم ہوتی ان کی اس لمبائی کو دیکهتے ہوئے گھڑسواری کے شوقین نے خوب فائدہ اٹھایا. یہاں نیزہ بازی اور بیل دوڑائی کے ساتھ ساتھ کشتی کبڈی فٹبال اور کرکٹ کے کھیل بھی کهیلے جانے لگے اسی هلہ کی پیلیوں میں لوگ بیلوں کی دوڑ کی خوشی میں ڈهولک کی تهاپ پر ناچ رہے تھے کہ ایک گاما سہاگن سے بیوہ ہو رہی تھی.

ماکو قتل ہو گیا یوں خوف و ہراس پهیلا کے لوگوں نے هلہ کی پیلیوں میں جانا ہی چهوڑ دیا. کچھ عرصہ بعد بان میں پهر تغیانی آئی جب پانی خشک ہوا تو ریت کی جگہ مٹی آ چکی تھی مٹی کے آ جانے سے ان زمینوں میں پهر سے کاشتکاری شروع ہو گئی.

کبھی جو بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں بیل دوڑائی گھڑسواری نیزہ بازی سے ، یا کشتی کبڈی کے مقابلوں سے اب وہ ساری باتیں قصے کہانیاں بن گئی، اب لوگوں کے شوق بدل گے نہ تو دوڑنے والے بیل رہے نہ گھڑسواری کے شوقین رہے کشتی کبڈی جوانوں کا کھیل تھا اللہ بھلا کرے انٹرنیٹ بنانے والے کا کے سارے کام ہی اُس نے چھڑا دیے، اب جوان ماؤس کو پکڑنا ہی اپنا فن سمجھتے ہیں آج کے کاکے کیا جانیں وینی پھڑنا کیا ہوتا ہے ۔اب اُس پار کا ساحل بھی ویسا نہ رہا اُس سارے میدان میں کاشت کاری شروع کردی کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری .

هلہ کو سرسوں کے موسم میں دور سے دیکهنے پر ایسا لگتا ہے کہ نرسری والوں نے پودوں کی پنیری سجا رکهی ہے. هلہ کے پہلے حصے میں جو بان کی طرف سے ہے یہاں راجپوت قبیلے کے ایک بابا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مقیم تهے کب سے تهے یہ بتانے سے مصنف قاصر ہے لیکن مقامیت کب ختم ہوئی اس کا تذکرہ سیری نالا بان کے حصہ اول میں ہو چکا ہے. یہاں سے مغرب کی جانب بهٹی راجپوتوں کے چند گهر تهے (اب محلہ بن چکا ہے) جہاں بہت ہی مہمان نواز اور مخلص نفوس کا بسیرا تها کچے مکانوں میں متوسط طبقے کے لوگ جذبہ محبت سے سرشار تھے کهوئیرٹہ سے سیری آنے والے اکثر لوگ ان گهروں کے پاس سے گزرتے تھے کہ کچھ اور نہ سہی شیریں زبان والے صدیق اور ماسی بلو (ارشاد) ٹهنڈے پانی کا ضرور پوچھیں گے. حالانکہ پانی وہ بھی سرولیاں کے چوآ سے لاتے تهے جو رہگیروں کی راہ میں آتا تھا لیکن ان کے گهر آ کر پانی صرف پانی نہیں رہتا تها بلکہ ان لوگوں کا خلوص اور جذبہ مہمان نوازی بھی شامل ہو جاتا تھا.

نہایت کسمپرسی میں بھی یہ لوگ کسی کو اپنے صحن تو کیا پچھواڑے سے بهی بغیر آو بهگت کے نہیں گزرنے دیتے تهے. صدیق راہی عدم ہوئے تو ان کے گهر کا نقشہ ہی بدل گیا تاہم ماسی بلو کا گھر بدلہ ہے اخلاق نہیں، شاید یہ بہاریں ماسی کے دم سے ہی ہیں. پیلاں هلہ کے شمال میں ایک گاؤں کا نام ہے ان دونوں کے درمیان بھی بان ہی حد فاضل کا کام کرتی ہے پیلاں بھی شاید پیلی سے ہی مستعار لی گئی ہو لیکن وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہو گا کچھ جگہوں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ بڑے مشہور ہوتے ہیں اسی طرح یہاں کے بابو فاضل چوہدری اکبر اور چوہدری فاضل بڑے مشہور و معروف شخصیت کے مالک ہیں.بابو فاضل محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے ہیں اور اسی وابستگی کے دوران انہوں نے بہت ساری بچیوں کو محکمہ تعلیم میں نوکریاں دلوائی آج تقریباً وہ تمام ریٹائرمنٹ کی مدت کو پہنچ چکی ہیں لیکن بابو فاضل کی یہ نیکی غالباً سب کو یاد ہو گی بیشک یہ ان کا ایک عظیم کارنامہ تها . چودھری اکبر سیری بازار کے پرانے دکانداروں میں سے ایک ہیں ان کے ہم عصر دکانداروں میں چوہدری چراغ چوہدری رحموں صوفی صفدر صوفی نیک چوہدری دولہ صوفی رزاق صوفی فقیر محمد چوہدری صدو وغیرہ کا شمار ہوتا ہے. چوہدری اکبر بعد ازاں سیری کو چهوڑ کر کهوئیرٹہ منتقل ہو گے اور یوں ہوئے کے پهر پلٹ کر سیری کا نام تک نہ لیا تاہم سال گذشتہ مصنف کا نیشنل سائنس کالج سیری میں جانا ہوا تو ایم ڈی سے علیک سلیک کے دوران پتہ چلا کہ یہ انہی کا نور چشم ہے. چوہدری فاضل جنهیں قدرت نے دست مسیحائی عطا فرمائی ہے ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں میں روایتی طور طریقوں سے جوڑ بٹهانے کی گویا انہیں خداداد جراحتی مہارت حاصل رہی ہے اور بدستور آج بهی لوگوں کو راحت پہنچاتی ہے. ارتهو پیڈیائی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ آج بهی ان گنت لوگوں سے دعائیں لے رہے ہیں اللہ انہیں عمر خضر اور مذید دست مسیح عطا فرمائے کہ یہی پیلاں کی وجہ شہرت ہیں.

بان رواں دواں بہتے ہوئے توتاں والے گراٹ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے گذر جاتی ہے اور مصنف واپس سیری کی طرف پلٹتا ہے کیونکہ سیری نالہ بان ہی ہے مطلوب و مقصود مصنف۔۔۔۔

جمعہ اور اتوار کو یہ بان مکمل وقف نساء ہو جاتی ہے ، ان دنوں میں بان کی رونق قابل دید ہوتی ہے، خواتین جب رنگ برنگے کپڑے سوکنے کی خاطر آس پاس کی پیلیوں میں ڈالتی ہیں تو دُور سے یہی گمان ہوتا ہے کہ قوسِ قزح کے سارے رنگ دھرتی پر اُتر آئے ہیں۔عورتوں کے سروں پر ہلتے جُلتے آنچل ایسے ہی دیکھائی دیتے ہیں جیسے تتلیاں اُڑ اُڑ کر بیٹھ رہی ہیں، راہ چلتے رہگیروں کے دل میں کبھی یہ منظر دیکھنے کو جی چاہتا بھی ہے لیکن حیا کے تقاضے اڑے آ جاتے ہیں اور نگاہیں جُھکی کی جُھکی ہی رہتی ہیں کہ ساحل ختم ہو جاتا ہے ۔

جمعہ اور اتوار کے علاوہ بان سوتنوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے، بان کی بےبسی اُس وقت دیکھی نہیں جاتی جب گدھا بان ریت بجری نکالنے کی خاطر اپنے گدھوں اور کدال بیلچوں سے اس پر حملہ آوار ہو جاتے ہیں، صاف ستھرے پانی کا ستاناس ہو جاتا ہے ہتھلی جیسی ہموار سطح کو پل بھر میں بڑے بڑے گڑھوں میں بدل دیتے ہیں، لیکن یہ بے زبان بان، گدھا بانوں کا یہ ناروا سلوک خندہ پیشانی سے سہہ جاتی ہے کہ ! اس ریت بجری سے کئی پیٹ پل رہے ہوتے ہیں۔ جو حصہ گدھا بانوں کی نظر سے اُجھل رہا ہو وہاں ٹریکٹر ٹرالی والے وارد ہو جاتے ہیں ، پُرسکون بان میں ٹرالی کے ہچکولوں کا شور ٹریکٹر کے منہ کھلے سلنسر کا دھواں ٹاہروں کی چڑچڑاہٹ ابرارالحق کے گانے ( وہی سن سکتا ہے جو دو میل دور ہو ) ایک ہنگامہ سا برپا کر دیتے ہیں ،پورے دن کا جودوستم سہہ کر بھی شام کو پھر اپنی روانی پر آجاتی ہے کیونکہ سائیں چیر کا گھراٹ بھی تو آخر اسے ہی چلانا ہوتا ہے.

اب جو جگہ قادری ہوراں نی پیلی ہے کبھی یہ چیانیاں ہوا کرتی تھی ،چیانیاں کی تعریف پرانے لوگ یُوں کرتے ہیں کے یہاں کافروں(ہندوؤں) کو جلایا جاتا تھا اس لیے اس کو چیانیاں کہتے ہیں یعنی شمشاں گھاٹ ہوا کرتا تھا ،جو کافر(ہندو) مر جاتا اُس کو وہاں لے جاکر جلایا کرتے تھے جلاتے وہ صرف مرے ہوئے لوگوں کو کرتے تهے اور جلاتے یوں تهے کہ چار من لکڑیاں مردے کی چاروں اطراف میں یوں رکهتے تهے جیسے ہم سکهانے کے لیے رکهتے ہیں ، پهر ایک آدمی تیل کی بوتل اٹھا کر دائرے کی شکل میں چلتے ہوئے چهڑکتا اور پهر دیا سلائی سلگاتے ہوئے ایک لکڑی کے پاس رکهتا اور جوں ہی آگ سب لکڑیوں کو لیپٹ میں لے لیتی مرنے والا جل کر بهسم ہو جاتا پهر اس کی راکھ اڑا دی جاتی یا بہا دی جاتی ،دیکھا جائے تو طریقہ الگ ہے جب کے جلاتے تو مسلمان بھی ہیں لیکن ان کے جلانے کے لیے نہ تو جگہ کا تعین ہوتا ہے نہ زندہ اور میرے ہوئے کی شرط ہوتی ہے اور نہ ہی لکڑیوں کی ضروت ہوتی ہے بلکہ باتوں سے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں اب چونکہ ہندوؤں چلے گئے ہیں اس لیے چیانیاں کو بھی وہ حثیت حاصل نہ رہی اور چیانیاں اب سیدھی سادی پیلی بن کر رہ گئی۔ چیانیاں سے اوپر سڑک ہے جو سیری بازار کو جاتی ہے اس کے اطراف و اکناف لوگ کا رین بسیرا ہے ،چیانیاں سے اُوپر برلب سڑک انہی قادری کا گھر ہے جن کے نام سے چیانیاں والی پیلی منسوب ہے یہ گھر پرانے بادشاہوں کے قلعہ نما محلات کی طرح کا ہے جس میں مکھی مچھر تو دور کی بات گرمی سردی بھی پوچھ کر داخل ہوتی ہیں بنوانے والے نے نہ جانے کس آرٹیکیٹ سے نقشہ لے کر اس محل کو بنوایا کہ آپ کہیں سے بھی آئیں اپ کو اس کا در و بام نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی روزن دیوار نام کی چیز آپکی باریک بین نظروں میں آ سکے گی، شاید چیانیاں میں بھٹکتی آتماوں کی خاطر یا ہندوؤں کی بلند پوسٹ کی پیش نظر ایسا کیا گیا ہے جو ان کے جنوب مغرب میں واقع ہے ،البتہ یہ مکان کسی خفیہ کاریگر کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس سے تقریباً دس پندرہ میٹر آگے بی بی عظمت کا گھر ہے جو اتنا خاص تو نہیں ہے لیکن بی بی عظمت کے حسنُ اخلاق کی وجہ سے کافی مشہور ہے محلے کی بہت ساری خواتین کو ان سے قرآن پاک پڑھنے کی سعادت حاصل ہے الل عفیفہ کو صحت دے اچھی عورت ہیں(اب اللہ سے ان کی مغفرت کے لیے بھی دعا گو ہیں، جب یہ مضمون لکھا گیا تها تب وہ حیات تهیں) رنگ و روپ کی کمی قدرت نے اعلٰی اوصاف سے پوری کر دی ہے۔ اُن کے سامنے سڑک کے دوسرے کنارے بابے معمے(بابا امام دین مرحوم)کا گھر ہے اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے بس کسی حرف کنجوس نے یہاں بھی اپنا کام دکھا دیا کہ اچھے بھلے امام دین کو معمہ بنا دیا۔

اس سے آگے حنیفے ملک کی کوٹھی ہے(یہ بھی اس وقت باحیات تهے) جنهیں قدرت نے حاجی حنیف بنا دیا اس کوٹھی سے دائیں بائیں دو راستے نکلتے ہیں بائیں والا سیدپور کو اور دائیں والا پارلے موڑے کو جاتا ہے،پارلہ موڑہ وہ جگہ ہے جو سیری شہر کے بلکل سامنے ہے شاید اسی لیے سیری والوں نے اُسے پارلہ موڑہ کہا ہو گا لیکن حیران کن بات یہ ہے کے اُس موڑے والے بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں اور جو اس سے آگے کے گاؤں ہیں وہ بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ اس موڑے میں اکثریت مستریوں کی ہے مستری جلال مستری فتح مستری میاں مستری محمد مستری ادریس اور مستری عظیم ( عظیم بہت ہی ہر دلعزیز شخص تها اور نام کی طرح ہی عظیم بھی تها ہمہ وقت لبوں پر تبسّم رکهنے والا بچهڑا تو برسوں کے لیے یادیں سونپ گیا. یہ مستری فتح صاحب کا لختِ جگر تها لیکن اپنے اخلاق اور بذلہ سنجی کے باعث پورے علاقے کا جگر تها )جیسے مستری اس محلے کی پہچان تهے اس کو مستریوں کا موڑہ بھی کہہ سکتے تھے لیکن ایسا ہوا نہیں اور یہ موڑہ پارلہ موڑہ ہی رہا.
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.