ماں ایک قابل احترام لفظ جسے ادا کرتے ہی
ایک نہایت خوش گوار احساس آپ ہی آپ آ جاتا هے رات گئے خبروں میں ایک دلدوز
خبر سننےکوملی کوئی بدقسمت اپنی ہی والدہ کا قاتل بن بیٹها !! ایسی خبریں
آئے دن کے واقعات بنتی جا رہی ہیں کہیں والدین بیٹے کے ہاتهوں قتل هو رہے
ہیں، کہیں بیٹی کا قاتل اس کا باپ هے تو کہیں غیرت کے نام پہ بہن بهائی کے
ہی ہاتهوں موت کی نیند سلا دی جاتی هے-
مگر جب سے رات گئے ایک ماں کے قتل کی خبر چینلز پہ دیکهی تب سے ہزاروں بار
ہی اس ان دیکهی ماں کا چہرہ تصور میں طوفان بپا کئے ہوئے ہے اگرچہ میرا اس
سے کوئی دور تک کا واسطہ نہیں مگر اس کے قتل سے میں ہی کیا ہر صاحب دل دکهی
ہو گا بار بار نہ جانے میری سوچ اسی ماں کی طرف کیوں جا رہی کہ اس خبر کو
سنتے وقت سیب کهاتے کهاتے میرا منہ رک گیا اور یکلخت ہی میٹها سیب عجیب بد
ذائقہ سا محسوس ہونے لگا لاکه دهیان بانٹا مگر آج میری سوچ میری باغی بن کے
بار بار اس ہی بد قسمت ماں کے گرد گهوم رہی هے سوچا بوجهل دل شاید هلکا ہو
جائے جو الفاظ کو مخاطب کر لوں-
یہ انسان جو اس گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا هے بینک میں اعلی عہدے پہ فائز اور
کافی معقول سا معلوم هوتا هے ماں کے قتل سے ایک دن قبل بیوی کو طلاق بهی دی-
وجہ گهریلو اور جائیداد کے معاملات بنے جبکہ بہن نے اس سارے واقعے میں گهر
سے باہر نکل کر اپنی جان بچائی-
یہ شخص چاہتا تو معاملات کو سلجهانا بهی اسی کے هاته میں تها مگر اس کو
اپنا غصہ نظر آگیا اور معاملات سلجهانے کی ڈور اپنے ہاته میں نظر نہ آ سکی
اب اس واقعے کا معاشی، معاشرتی، نفسیاتی پہلووں پہ جائزہ لیا جا رها هے اور
میں اور آپ بهی اس واقعے کو کچه دن میں بهول بهال جائیں گے بات یہ هے کہ ہم
اس المناک حادثے کو مختلف پہلووں سے دیکهیں تو وجہ سب سے بڑی ہماری معاشرتی
طرز زندگی پر ہی عائد ہو گی آج ہم اعلی تعلیم یافتہ طرح طرح کی آسائشی
سہولیات کے سنگ بلند طرز زندگی کو ہی معیار بنا بیٹهے ہیں ہمارے ارد گرد
کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں لوگوں کے سکه چین سے یامسائل سے ہمارا کیا
لینا دینا! معاشرے کے اجتماعی مسائل کیا ہیں اس سے آج کوئی سروکار نہیں ایک
مشینی طرز زندگی کو اپنا کے زندگی کا بلند معیار پا کر معاشرے میں اگرچہ
نمایاں مقام حاصل کر لیا جاتا هے مگر پهر بهی ازلی بے سکونی سے نجات نا
ممکن سی رہی مجهے یقین هے کہ اگر یہ بد قسمت انسان اپنے ان مسائل کو
سنجیدگی سے ٹهنڈے دل دماغ سے سوچتا تو آج صورتحال کچه اور ہوتی اپنے مسائل
کے حل کے لئے کسی با اعتماد فرد سے مشورہ مانگنا آج کی اہم ضرورت هے جسے آج
ہم یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہیں وجہ "لوگ کیا کہیں گے" اس پہ آ کے ہر باترک
جاتی هے اور اسی سبب آج ذہنی پستی عدم برداشت ہی کا عالم هے ماں کے قتل
جیسے اور اس جیسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رها هے آج سے بیس پچیس برس
پہلے لوگ جس طرح اپنے پرائے کا دکه سکه محسوس کرتے تهے آج صرف خواب کی ہی
بات لگتی هے معلوم نہیں ہم سب کے یہ انجان رویئے ہمیں کہاں لے جائیں گے- |