تجھ سے فریاد ہے اے گنبدِ خضر ا والے۔۔۔کعبے والوں کو ستاتے ہیں کلیسا والے

ہم اسلام اور پردے کی اہمیت کے موضوع پے تحریر خاص!
 اے نبی اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اِس سے نزدیک ہے کہ اِن کی پہچان ہو تو ستائی نا جائیں اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے( القرآن سورۃ اعزاب ،آیت نمبر59)

مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگائیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں جو اُن کے لئے بہت ستھرا ہے بیشک اﷲ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے۔ (القرآن سو ۃ نور30)

مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگائیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناوٗ نا دیکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور اپنی چادریں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنا سنگھار ظاہر ناکریں مگر اپنے شوہر یا اپنے باپ( القرآ ن سورۃ نور31)

اسلامی دنیا میں شروع سے ہی پردے کو ایک انتہائی اہم اور منفرد اہمیت حاصل رہی ہے جوکہ کسی ناکسی صورت ہر دور میں زندہ ضرور رہی ہے مگر جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا گیا روشن خیالی اور کھلے زہن کے نام پر اُس نے کئی غیر اسلامی اقداروں کو اپنے سر پر ایسے سوار کیا کہ پھر انہیں کا ہوکہ رہ گیا ، گزشتہ دنوں اپنے سینئر صحافی دوستوں کے ہمراہ کسی کام کے سلسلہ میں صوبائی دارلحکومت لاہور کے معروف اور بڑے تعلیمی اداروں میں جانا ہوا یہاں پہنچ کر ہم پے ایسا سکتہ طاری ہوا اور یہ محسوس ہو اکہ جیسے ہم کسی یورپی ملک کے اُس حصہ میں آگئے ہیں کہ یہاں پے بے حجاب اور انتہائی مختصر سا ملبوس زیب تن کرنا ہی لازم وملزوم ہو، اُن تعلیمی اداروں میں جوان لڑکے لڑکیاں آپس میں ایسے چل پھر رہے تھے اور ایسے ٹولیوں کی اشکال میں بیٹھے مہو گفتگو تھے کہ جیسے ہمارے آباوٗاجداد بھی ایسے ہی تھے خیر اُس مملکتِ خداداد کہ جس کے لئے ہم دعویدار ہیں کہ اسلام اور کلمہ کے نام پر یہ ملک معرض ِ وجود میں آیا اور جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیتے ہیں دلی طور پر افسوس ہوا جس کا اظہار اپنی بے بسی کے باعث صرف لفظوں کی حد تک ہی کرسکتا ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ مسائل حل ہوں اور عوام سدر جائے ۔قرآنِ کریم میں عورتوں کے پردے کے حوالے سے کئی بار سختی سے بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے جبکہ حادیث نبویﷺ میں بھی عورتوں کی بے پردگی اور پردہ داری کے حوالے سے بارہا اور بے شمار آپ ﷺ کے ارشادات موجود ہیں مگر آج ہم ہیں کہ مصروف ہی اتنے ہیں کہ اور کوئی کام ہی نہیں بس اپنے کام سے کام رکھیں یہ ایک جملہ ہی ہمارے پاس باقی بچہ ہے کہ جسے ہم نبھا کر کسی بھی اصلاح کرنے والے فرد کا منہ بند کرواسکتے ہیں ۔ بطورِ مسلمان قرآن اور حادیث سے دوری ہی ہماری مشکلات اور پریشانیوں کی اصل اور سب سے بڑی وجہ ہے جس کا اقبالؒ نے بھی شاید اسی صورتحال کو بھاپتے ہوئے اپنے شعر کی صورت میں اِس کا اظہار کیا کہ ( وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر ،،، ہم خوار ہوئے تاریکِ قرآن ہوکر)ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مسلمان اور اسلام کے تابع ہونے کے تو دعویدار ہیں اور آپ ﷺ سے اپنے عشق کی دلیلیں دیتے ہیں مگر جن کے لئے اﷲ ارب العزت نے دنیا کی تمام رونقیں خوبصورتی اور چمک ودمک کو پیدا کیا اُن کے فرمان اور ضابطہ حیات سے مکمل طور پے انحراف برتتے ہیں اور اسلامی اقداروں کو نظر انداز ہی کرتے ہیں سچے عاشقِ رسولﷺ تو ہونے کا واویلا کرتے ہیں مگر آپﷺ کے ارشادات اور سنت نبوی ﷺ پر کسی صورت بھی عمل نہیں کرتے ،ایسی صورت حال پے شاعر نے کیا خوب کہا کہ!چھوڑ کہ آپ کا دامنِ رحمت آقا ہم سے بھول ہوئی کھو دی اپنی قدر وقیمت آقا ہم سے بھول ہوئی۔۔دیکھ ہماری آنکھ مچولی،اپنے سینے اپنی گولی۔۔بھول گئے ہم درسِ اخوت ۔۔آقا ہم سے بھول ہوئی۔۔بن گئے چیم و زر کے بندے۔۔تن کے اجلے من کے گندے۔۔لُٹ گئی ہم سے فقر کی دولت ۔۔آقا ہم سے بھول ہوئی۔۔اور اب ساری دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ہیں تیری گلی میں آئے ہوئے ہیں کھول دے اپنا بابِ رحمت آقا ہم سے بھول ہوئی-

اب امت ِ مسلماں جس حال میں ہے(عباس مرزا)کے وہ پنجابی اشعار جو اپنے بچپن سے سنتا آیا ہوں میری قلم مجھے مجبور کررہی ہے کہ آپ سب معزز قارئین کی نظر کروں وہ اشعار جو کہ مافی نامہ بھی ہے ، وہ کچھ یوں ہیں کہ!
ہن تے امت جس حال وچ اے، ہن جے روناں تے آکھاں وچوں ھنیرا جاندا نیں نور جاندا
میں بد بخت ہواں جیدا سائیا وی میرے توں دُور جاندا
میں میلا اتھرو ،میں پاپی مجرم
حضور مافی حضور مافی
توساں سی ڈکیا جیناں کماں تھیں حضور جی میں ہو کر گیاں واں
گناواں دی دلدل اندر گلمے تیکر اوتر گیاں واں
تہاڈے حکماں نوں چھڈ کے آقا میں جیندا کیھتے آں مرگیاں آں ۔۔۔حضور مافی حضور مافی

آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین اگر اسلام میں واضع کردہ طریقے کے مطابق پردہ ( برخا) زیب تن کرلیں تو ہم انہیں جاہل اور ناگوار سمجھتے ہیں مگر جو خاتون فیشن کو ترجیح دے لوگ اُس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں آج سے برسوں قبل خواتین کو دنیاوی تعلیم دلوانے میں لوگ بے حد قباحت محسوس کرتے تھے شاید اِس لیئے کہ معاملہ پردے کا ہی سامنے ہوتا تھا مگر اب جب ہم لوگ روشن خیالی اور ترقی کا واویلا کرتے ہیں مگر دور تو وہی اچھا تھا کہ جب خواتین کی پردے داری پر توجہ دی جاتی تھی ،جن معروف تعلیمی اداروں کی میں بات کررہا ہوں وہاں بے پردگی کا ایسا مظاہرہ دیکھنے میں نظر آیا کہ بے حد شرمندگی ہوئی مگر صرف دیکھنے والے کو ہی جو بے پردہ تھا اُسے کچھ خبر نہیں کہ پردے کے حوالے سے ہمارا دین ہمیں کیا کہتا ہے اُسے تو بس دنیاوی اسلاف کو سیکھنا ہے اور بس،،،، مردو وخواتین میں اگر کوئی جسمانی تمیز کے علاوہ کردار ہے تو وہ پردے کا ہے مگر بد قسمتی سے اسے نظر انداز کردیا گیا ہے اور پردے کے نام پر بھی فیشن کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے ۔خاتون اگر شادی شدہ ہے تو اُس کا بناوٗ سنگھار اپنے شوہر کے لئے ،اگر بیٹی ہے تو اپنے والدین کو اچھی لگنے کے لئے مگر یہاں دونوں صورتیں ہی الٹی ہوچکی ہیں اور خواتین گھر کی بجائے باہر جاتے ہوئے فیشن میک اپ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو کہ اسلامی اصولوں کے برعکس ہے اسلام ہمیں بارہا اِس چیز کا درس دیتا ہے کہ ہم سادگی کو اپنائیں مگر ہم ہیں کہ سادگی کو جہالت کا نام دیتے ہیں پردے کو بے وقوفی گردانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری خواتین پردے پر دقت اور بے پردگی میں فخر محسوس کرتی ہیں ،بال بکھرا کے خدوخال نمایاں۔۔۔۔اپنی سرکار کے ٹی،وی کا سہار الیکر۔۔۔۔تبصرہ قوم کی بہبود پے فرماتی ہیں ۔

اگر صرف پنجاب ہی کی بات کرلی جائے تو وزیر اعلیٰ پنجاب سکولوں کی سیکورٹی کے لئے دن رات کوشاں ہیں مگر کتنا ہی اچھا ہو کہ ساتھ پردہ داری کے لئے بھی سخت قوانین مرتب کرواتے ہوئے انہیں فیل فور لاگو کیا جائے ،قابلِ افسو س امر ہے کہ ہمارے اکثر وبیشتر علماء کرام بسنت ،اپریل فول،ویلن ٹائن ڈے جیسے غیر اسلامی نام نہاد تہواروں کے خلاف تو بہت زیادہ لب کشائی فرماتے ہیں مگر پردہ داری کو تقریباً نظر انداز ہی تو کیا جارہا ہے ،خدارا ہمیں اپنے مذہب اپنے بزرگوں کی روائیات کو ملحوظ ِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے نا کہ انہیں پسِ پشت ڈال کر ہم روشن خیالی کے نام پے اپنی دنیا وآخرت دونوں کھو بیٹھیں اور آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم نبی آخر ازماں ﷺ کے فرمانوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں اِسی میں ہم دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی حاصل کرسکتے ہیں ِ آج ہمارا اخلاق جس راہ پے گامزن ہے وہ مسلم امہ کی راہ نہیں بلکہ غیر مسلموں کے پسندیدہ مشاغل ہیں ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر!
 
Ch Fatehullah Nawaz Bhutta
About the Author: Ch Fatehullah Nawaz Bhutta Read More Articles by Ch Fatehullah Nawaz Bhutta: 18 Articles with 21540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.