ہمارے معاشرے میں جب بھی عورت کے لیے کوئی
رشتہ آتا ہے تو لڑکے والوں کی شرائط کا انبارلگا کر اپنے بیٹے کو چاند اور
بہترین ہیرو کے طور پر پیش کرکے دوسرے کی بیٹی سے ہر قسم کی خامی نکالی
جاتی ہے اور اس کے لیے ایسی ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ گویا کہ وہ سرخاب کی پری
چاہتے ہوں اورایسی ہو کہ کام کاج میں اس کے آٹھ ہاتھ ہوں اور کسی طلسماتی
طاقت کے ذریعے سے سب کا م جانتی ہو، تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی اور خوبصورت
اور اعلیٰ عہدے کی نوکری بھی کرتی ہو۔ اگر نوکری نہ بھی کرتی ہو تو کم از
کم اسکے جہیزکی اسقدر زیادہ لالچ کی جاتی ہے کہ پورا خاندان یہ کہنے پر
مجبور ہو جائے کہ واقعی اس کی بہو کو بہت زیادہ جہیز ملا ہے اور اس بات پر
اکتفا نہیں کرتے بلکہ بہو کے خاندان کی جائیداد پر بھی نظر اس لیے لگائے
بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس میں سے بھی ان کی بہو کا حصہ ان کے بیٹے کو مل جائے
اور وہ اپنے کام و کاروبار میں اور اپنی ضروریات کو پوری کرنے میں صرف کر
سکے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ شادی جو کہ دو خاندانوں کے میل ملاپ و تعلقات
کو استوار کرنے کا دوسرا نام ہوتا ہے اور ہم نے اس کو صرف سودے بازی کا نام
دے دیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھ کر سوچتے
ہیں تو شاید ہم کو اپنی بہو کے جذبات و احساسات کی سمجھ آجائے ، شاید یہ
سمجھ آجائے کہ بیٹی ہی وہ واحد ہستی ہوتی ہے جس کی قسمت اور اسکی مجبوریوں
کی وجہ سے باپ کو بہت سے میدانوں میں ہار ماننے پر مجبور ہو ناپڑتا ہے،
ایسے میدانوں میں کہ جن میں کوئی بھی اس کو مات نہ دے سکتا ہو، اور وہ
ہمیشہ بیٹیوں کے مقدر کے لیے لڑتا ہو ا دیکھائی دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس
کی بیٹی کا مقدر سنو ر جائے ، بیٹی جب گھر میں پیدا ہوتی ہے تو اول تو گھر
والوں اور سسرال والوں کا منہ بن جاتا ہے۔ مگر اس صنف نازک کی پیدائش سے ہی
نفرت کے عنصر سے نواز ا جاتا ہے، اور ارمان کیا جاتا ہے کہ کاش۔۔۔ کہ بیٹا
ہوتا۔۔۔ مگر گھرانے کے اندر بیٹی اپنا مقام خود پیدا کرتی ہے اور چاہے اس
کے ساتھ کوئی لگن یا چاہت رکھے یا نہ رکھے اس کو اس بات کے ساتھ کوئی سرو
قار نہیں ہوتا البتہ وہ ہر کسی کے لیے محبت کے جذبات ضرور رکھتی ہے اور
اپنی حرکات اور اپنی طورو اطوار سے پورے گھر کے افراد کے ساتھ ایک لگن اور
محبت کے جذبات کو بیدار کرتی نظر آتی ہے۔ مگر جیسے ہی عورت کی زندگی میں
نکاح کے دو بو ل آجاتے ہیں تو وہ دو بول بیٹی اور والدین کے لیے ایک عظیم
قربانی سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ بیٹی جس کو ناز و نیاز کے ساتھ پالا تھا،
جس کے ارمان ابھی تک والدین پورے نہیں کر پاتے کہ اس کو ڈولی میں بیٹھا کر
کسی کے گھر بھیجنے کی تیاریاں کس قدر اذیت ناک مراحل ہوتے ہیں ، مگر رسم و
رواج اور معاشرے کے اصولوں کی بنیاد پر بیٹی کو نکاح کے دو بول کے ساتھ کسی
کے گھر باعزت طریقے کے ساتھ اس امید پر روانہ کیا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی
صدا خوش رہے گی اور ان کی بیٹی کو ساس و سسر کے روپ میں ماں باپ، بہن
بھائیوں کے نعم البدل میں دیور ،جیٹھ اور نند ن اور سب سے بڑی بات کہ اس پر
جان نچاور کرنے والا اور اس کی حفاظت و ہمیشہ ساتھ دینے والا ایک خاوند مل
جائے گا۔ مگر یہ دو بول ایک عورت کی زندگی میں زبردست انقلاب سے کم نہیں
ہوتے ، دو بول پڑھ لینے کے بعد شوہر سے تعلق تو قائم ہو جاتا ہے ، مگر ان
دو بول کے بدلے میں اس کو اپنے ماں باپ، بہن بھائی، گھر بار ، خاندان ،
کنبہ اور خواہشات سب کسی کی قربانی دے کر صرف دو بول کے عوض ایک خاوند کی
ہو کر ایک اجنبی گھر، ماحول ، لوگ، خاندان اور اجنبی رسم و رواج کے ساتھ
ایک اجنبی شخص کے ساتھ اس نے ساری عمر بسر کرنی ہوتی ہے۔ ادھر اگر ایک بات
کو دیکھا جائے کہ یہ شرائط مردوں پر ہوتی کہ شادی کے لیے تم کو سب کچھ
چھوڑنا ہو گاتو کیا مرد یہ سب کچھ کر پاتے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ یقینا۔۔۔نہیں۔۔۔ یہ
جذبہ صرف اور صرف ایک عورت کو ہی نصیب میں ملتاہے۔ پھر بھی مرد اس عورت کی
قدر نہیں کرتے ، بلکہ ذلت میں اس کو ہر وقت کوستے ہی رہتے ہیں اور اس طرح
طعنہ زنی کرتے ہیں کہ وہ جیسے خادمہ ہو یا کہ باندی، مردوں کو اپنے دین
اسلام کی پیروی کرتے ہوئے ان عورتوں کا خیال رکھناچاہیے ،ہر وقت کہ طعنوں
اور طنزیہ اندازوالی روش کو اب ختم کریں۔۔۔۔ختم کریں یہ گھر وں میں گیس
لیکج سے لگنے والی آ گ میں بہو کے جلنے کی رسم کو۔۔۔۔ختم کریں سلنڈر سٹوپ
کے پھٹ کر مر جانے والی رسم کو۔۔۔۔ ختم کرنا ہو گا اس جہیز کی لعنت اور ہر
وقت کے طعنوں کو۔۔۔۔مردوں نے اپنا مقام کھو کر صرف اور صرف ان عورتوں پر
ظلم کرنے پر لگا دیا ہے، ان کی سوچ و چار بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے دنیا
ہم سے کوسوں دور نکل کر ہمارے اوپر ہنس رہی ہے، ہم کو اپنے اندر احساس کے
ساتھ اس سوچ کو پیدا کرنا ہو گا کہ کہیں اس روٹی کے آٹے کو گوندتے وقت اس
میں غم و الم کے آنسو مکس تو نہیں ہوئے۔۔۔ کہیں ہمارے گھر میں موجو د کسی
کی بیٹی کے دل میں کوئی ارمان تو نہیں دفن۔۔۔۔کہیں اس کو کسی چیز کی ضرورت
تو نہیں۔۔۔ مگر پھر بھی سلام پیش کرتی ہوں ایسی نیک سیرت بہو کو کہ جوکبھی
نہیں ٹوٹتی وہ اپنے شوہر کے برے سلوکوں کو ہنس کر برداشت کرتی ہے ، اپنے
سسرال کے طعن و ظلم کو ہنس کر اس امید پر سہتی ہو ئی نظر آتی ہے کہ شاید
اسکے آنے والے دن بہتر ہو جائیں۔ مگر ہمارے ہاں اگر کوئی گھر کے کام کاج
میں بیوی کا ہاتھ بٹا دے تو اس کو رن مرید کہا جاتا ہے، جو اپنی بیوی کی
صحت کا خیال رکھے تو اس کو کمزور شخصیت کا مالک کہا جاتا ہے، جو بچے
سنبھالنے بیٹھ جائے تو اس کو بیوی کا غلام کہا جاتا ہے مگر اسلام ہم کو اس
بات کی اجازت بھی دیتا ہے کہ جو کام ہم خود کر سکتے ہیں وہ دوسروں کو نہ
بولیں اور بیوی جو کہ ہر ایک کی ڈانٹ ڈپٹ اور باتیں سنتی ہے تو اسکو بھی حق
ہوتا ہے کہ وہ اپنے غصے کا اظہار کسی پر تو کرے۔ اس لیے ہم کو اپنی سوچ اور
اپنے اطوار کو بدلنا ہو گا،ہم کو ہر بہو کو اپنی بیٹی کی طرح دیکھنا ہو گا،
|