زندگی سماج اور ہم

انسان اشرف المخلوق ہونے کے ناطے بہت ہوش مند ہے مگر۔۔۔ افسوس زندگی مدہوشی میں گزار دیتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اُس کو کیا کرنا ہے اوروہ کن کاموں میں کیوں کر لگا ہو ا ہے،سامنے پڑی چیز کبھی کبھار دیکھائی نہیں دیتی اور پوشیدہ چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا ہے، ہر سماج کے اپنے تقاضے ، اپنی حدیں ، اپنے رحجان اور اپنے میلانات ہوتے ہیں ، اور یہ ہی اقدار سماج کو بہتر یا برا بناتے ہیں، یہ ہی سماج کسی قوم کی ساخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، قوموں کے ارتقاء کے پیچھے اسی سماج اور سماجی اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ سماجی خوبیاں ہی انسان میں آدمیت کے اعلیٰ اوصاف اور اعلیٰ وجدان کو بیدار کرتی ہیں۔ جتنی بھی عظیم تہذیبیں گزری ہیں انکا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ شواہد سامنے آتے ہیں کہ ان شاندار تہذیبوں نے اپنے سماجی مسائل کو اپنی گرفت میں لیا اور اسی سماج سے جنم لینے والے ضابطہ اخلاق سے ایک ناقابل شکست قوم کی ساخت ہوتی ہے۔ اور پھر یہ ہی قومیں دنیا کو فتح کر لیتی ہیں۔ جو قومیں اپنے سماج کی تربیت نہیں کرتیں وہ بہترین صلاحیتوں کے باوجود ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتیں۔اخلاقیات سماج میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اپنے سماج کا ہی مطالعہ کریں تو دیکھیں کہ ہم اخلاق کے کسی دائرہ میں کھڑے ہیں، کسی بھی سماج میں اس کے اخلاق کو دیکھنے کے لیے اس سماج کے بازاروں میں چلے جائیں ۔ ادھر چلتے پھرتے لوگ اور ٹریفک کو دیکھ کر یہ بات آپ پر عیاں ہو جائے گی کہ ہم اخلاق کس کس دائرہ میں کھڑے ہیں۔ لوگوں کو شور، دھکے، لین دین میں تیزی، گاڑیوں کی جگہ جگہ پارکنگ ، بلا ضرورت ہارنو ں کی آوازیں یہ سب کسی بھی سماج کی اخلاقی اقدار کو عیاں کرتے ہیں ۔۔۔کہ ۔۔۔کس قدر شعور ہے اس سماج کے اندر۔۔۔اگر کوئی آئینہ ہماری عکاسی ہر وقت کر رہا ہوتا تو عیاں ہوتا کہ ہم معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کس لب و لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے، اور ہمارا لہجہ کیا ہوتا ہے، ہمارے لہجوں اور رویوں میں نہ جانے اتنا جھگڑا پن کیوں پایا جاتا ہے کہ ہم بات کرنے سے پہلے ہی لڑنے پر تیا ر کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کو کون سدھارے گا کون ہم کو اخلاقی اقدار سے آگاہ کروائے گا۔ ہم آ ج کے سماج کو ماضی کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھیں کہ وہ معاشرہ اخلاقی طور پر کیسے ٹھیک تھا۔۔۔؟ تو۔۔۔! اس کا صرف ایک ہی جواب سامنے آئے گا اس وقت سکول ، مدرسہ، ہجرہ ، بیٹھک اور چوپال سب اپنا اپنا کام صیح طریقے اور ایمانتداری کے ساتھ کر رہے تھے۔ مگر اب اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو ہمارے سکول صرف انگلش گرائمراور میرٹ کی لسٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اخلاقی مضامین کا کام رٹہ لگا کر صرف امتحانات تک محدود کر دیاگیا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے ہمارے معاشرے میں سے ہجرے اور بیٹھک جیسی نشست گاہوں کو ختم کر دیا ہے۔ اب کسی کے پا س ٹائم نہیں کہ وہ کسی کے پاس بیٹھے ، کسی کے دکھ درد بانٹ سکے ایک تائم تھا کہ انسانی ہمدردی کے تحت کسی کے بھی مسلئے کو پورا گاؤں اپنا مسلۂ سمجھ کر بیٹھ جاتا تھا اور ہر کوئی اس مسلئے کے حل کے لیے کوشش کرتا ۔ آج ہر بات گھر گھر تک محدود ہو گئی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سر سر کی بازی والی بات ہوگئی ہے۔ گھر میں بھی کسی کے پاس ٹائم نہیں رہا کہ وہ بیٹھ کر کسی بھائی کے مسلئے کوحل کرے۔اوپر سے ہمارے بے جا ٹی وی چینلز مایوسی و غم کی ایک لہر پھیلائے جا رہے ہیں ۔ ہر طرف و ہر وقت غم اور افسوس کی خبریں نشر کرکے مایوسی اور ناامیدی کو جنم دیا جارہا ہے۔ انسان کو ایک قسم کا ذہنی مریض بنایا جا رہا ہے۔ کسی طرف کسی کے پاس کسی کے واسطے کوئی ٹائم ہے اور نہ ہی سوچ۔یہ مسائل تو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر اور سماجوں نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قانو ن سازی کر رکھی ہے۔ ہمارے ہا ں تو بنیادی تعلیم کے مسائل ہی نہیں حل ہو رہے تو ہم کیا اخلاقی تعلیم دیں گئے۔ سکون ، امن اور سماجی اقدار کی بات کسی جگہ نہیں ہو رہی۔ کوئی کسی سے ملنے اور مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے میں آگے نہیں آ رہا۔ سکون و آرام کی چیزوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اخلاقی اقدار کی تربیت خود دیں۔ یہ اب ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری بن گئی ہے۔ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ تبدیلی اگر انسان کے اندر بیدار نہ ہو تو کوئی ڈنڈے کے ساتھ آپ کو سیدھا نہیں کر سکتا۔آج کون سا درد رکھنے والا دل موجود ہے جو کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی اور ان کی موجودہ ذلت و خواری اور ناداری پر نہ دُکھتا ہو ۔۔۔اور۔۔۔ کونسی آنکھ ہے جو کہ ان کی غربت ، مفلسی ، بے روزگاری اور لاچاری پر آنسو نہ بہاتی ہو۔۔۔ حکومت ہم مسلمانوں سے چھین لی گئی، دولت ہم سے لوٹ لی گئی، عزت و وقار کا ختم کر دیا گیا، شان و شوکت ہماری چلی گئی، رعب ودبدبہ اور جوش و ولولہ ہمارے اندر سے ختم ہو کر رہ گیا۔ زمانے کی ہر مشکل و پریشانی اور ہر قسم کے مسائل کا سامنا صرف اس وقت ہم مسلمانوں کو ہی ہے۔ ان سب حالات و واقعات کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مگر فقط رونے دھونے یا صرف دل دکھانے سے کام نہیں چلتا اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ ان مسائل کے بارے میں خود ہم مسلمانوں کو سوچنا ہو گاکہ آخر کیا کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ؟اور کیونکر ہو رہا ہے؟اور ہم کو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا کچھ تدابیر کرنی ہونگی۔ایک بوڑھے بزر گ کسی حکیم کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حکیم صاحب۔۔۔! میر ی نگا ہ موٹی ہو گئی ہے، حکیم صاحب نے کہا بڑھاپے کی وجہ سے۔ بوڑھے بزرگ پھر بولے کمر میں بھی درد رہتا ہے، حکیم صاحب نے جواب دیا بڑھاپے کی وجہ سے۔ بزرگ نے پھر کہا کہ چلتے ہوئے سانس پھول جاتی ہے ،حکیم صاحب بولے بڑھاپے کی وجہ سے۔۔

بزرگ بولے حافظہ بھی کچھ کمزور ہو گیا ہے، حکیم صاحب بولے کہ بڑھاپے کی وجہ سے۔ بزرگ کو غصہ آگیا اور وہ بولے اے بیوقوف حکیم۔۔۔! تونے ساری حکمت میں بڑھاپے کے سوا کچھ نہیں پڑھا؟ حکیم نے کہا بزرگوں آپ کو جو مجھ بے قصور پر غصہ آیا ہے یہ بھی بڑھاپے کی وجہ سے۔

آج ہمارا بھی یہ ہی حال ہے مسلمانوں کی بادشاہت گئی ، عزت گئی، دولت گئی، وقار گیا، صرف ایک وجہ سے وہ یہ کہ ہم نے شریعت ِ مصطفی ﷺ کی پیروی چھوڑدی۔ ہماری زندگی اسلامی نہ رہی، ہمیں خوف ِ خدا نہ رہا، نبی ﷺکی شرم اور آخرت کا ڈر نہ رہا۔ یہ تمام نخوستیں صر ف اسی لیے ہیں۔ مسجدیں ہماری ویران، مسلمانوں سے سینماو تماشے آباد ، ہر قسم کے عیوب مسلمانوں میں موجود ، ہندوانی رسمعیں ہم میں قائم پھر ہم کس طرح عزت پا سکتے ہیں ۔ مولانہ محمد علی جوہر نے خوب کہا تھا۔
بلبل و گل گئے لیکن!
ہم کو غم ہے چمن کے جانے کا
ترجمہ : دنیاوی تمام ترقیاں بلبلیں تھیں اور دولت ایمان چمن، اگر چمن آباد ہے تو ہزار ہا بلبلیں پھر آجائیں گی مگر جب چمن ہی اُجڑ گیا تو اب بلبلوں کے آنے کی کیا اُمید ہے۔۔۔ مسلمانوں کی اصل ناکامی کی وجہ ہی شریعت مصطفیﷺ کو چھوڑنا ہے۔ اب اسکی وجہ سے اور بہت سی بیماریاں پیدا ہو گئیں۔ اغیار ہم کو تقسیم کرنے کے در پر لگے ہیں اور ہر لمحہ ہمارے درمیان رنجشیں اور خلعشیں پیدا کر کے ہم کو ایک دوسرے سے متنفر کرکے ہم کو دین سے دور کرتے جارہے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اﷲ کا آخر میں ایک شعرپیش کرتا ہوں جو انھوں نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں کہا تھا کہ:
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدی ﷺ کو اس کے بدن سے نکال دو
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 80 Articles with 50042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.