زندگی
(Muhammad Ayaz Nizami, Dera Ghazi Khan)
زندگی اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک ایسی
نعمت ہے جو ہر انسان کو صرف ایک مرتبہ دی گئی ہے ۔ انسان ماں کی گود ( بطن)
سے اس دنیا میں آنکھ روتے ہوئے کھولتا ہے۔جو اس بات کی پہلی دلیل ہے کہ یہ
دنیا آسان نہیں۔کیونکہ زندگی ان دشوار گزار راستوں کا نام ہے جس سے ہر
انسان نا آشنا ہے۔ اپنی زندگی اپنے لئیے تو ہر کوئی جیتا ہے مزہ تو تب ہے
کہ دوسروں کے لئیے جیا جائے اصل زندگی تو یہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے
لوگ مر کر بھی نہیں مرے۔ کیونکہ زندگی سانسوں کی مالا کا نام نہیں بلکہ کچھ
ایسا کر جانے کا نام ہے جسے صدیوں یاد کیا جاسکے۔وہ خاک زندگی ہے جو سو برس
جئیے مگر مٹ گئے۔ جو زندگی سانسوں پر چلے اور سانسوں پر ہی ختم ہو تو وہ
زندگی نہیں ۔ زندگی وہ ہے جس پر انگنت سانسیں چلیں ۔جو لوگ دوسروں کی خاطر
جئیے ان کی اپنی زندگیوں میں بھی کئی مسائل تھے لیکن صابر شاکر رہے ۔ کبھی
ہماری طرح ایسے نہیں کہا کہ خدا کو کیا صرف ہم دیکھتے ہیں جو بھی مصیبتیں
ہوں ہمیں لکھی ہیں ۔نہیں جناب یہ ہم آج کے انسانوں کی زبان ہے کہ مصیبتو ں
میں تو یہ کہتے ہیں لیکن کبھی خوشی میں نہ کہا کہ اس خوشی کے ہم حقدار نہ
تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کامیاب زندگیاں گزار گئے اور ہمشہ خوش خرم رہے
کبھی آفسردہ نہ رہے کیونکہ انکی اپنی مشکلات کا ذمہ خود خدائے پاک نے لیا
ہے تو پھر کوئی کیسے انھیں نیچا دیکھا سکتا ہے یا پھر وقت کیسے انھیں مٹا
سکتا ہے۔ اپنے منہ کا لقمہ دوسروں کو دینے والے کبھی بھوکے نہ رہے ایسے
لوگوں کی زندگی اس پھول کی ماند ہیں جو اپنے اردگرد کی فضا کو مہکا دیں ۔
جبکہ آج کی زندگی دوسرں کو ازیت ، بے پردہ ، حقارت ،روپیہ پیسا کمانے
اورعیاشی کا نام نہیں ہے ۔انھیں اندھیروں نے ہم سے روشنیوں کو دور کردیا
اور شومیء قسمت آج زندگی کا ماخذ بھی انھیں چار الفاظوں سے نکالا جاتا ہے۔
جب زندگی کی ریل انھی تاریکیوں پرسے شروع ہو تو پھر قوم کو میسحا نہیں بلکہ
فرعون ملتے ہیں۔ اور فرعونوں سے اچھائی کی امید ہرگز نہیں لگائی جا سکتی ہے
۔ وقت کی کسوٹی پر اگر سوچیں تو اسکا ذمہ دار آخر کون ہے۔ہم سبھی کہیں نہ
کہیں خود ذمہ دار ہیں۔کیونکہ زندگی احساسات کا نام ہے آج سے اگر پچاس سال
پیچھے کے معاشرے پہ نظر دوڑائی جائے تو وہ لوگ کیوں ایسے نہ تھے ۔ ہم آج ان
جیسے کیوں نہیں ہیں۔کیونکہ اس زمانے میں انسانی قدریں تھیں وہ لوگ انسانی
جذبوں اور محبتوں کے اٹوٹنگ رشتوں سے بندھے ہوئے تھے جو خون کے رشتوں سے
بھی زیادہ جانے جاتے تھے۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے دوست تھے ۔ آج کہاں ہیں
وہ لوگ جو علاقے میں مصیبت آنے پر اپنے مال میں سے گائے/ بھینس کو علاقے کے
چاروں کونوں سے گھما کر صدقہ خیرات کریں کہ اﷲ تبارک وتعالی ٰ اہل علاقہ کی
مصیبت کو دور کرے ،کہاں ہیں وہ عظیم ہستیاں جو جس دن گھر مہمان نہ آئے تو
اﷲ کے حضور سربسجودہو کر رو رو کرکہیں اے اﷲ مجھے معاف فرما کیا خطا ہوئی
کہ آج میرے گھر کی دہلیز پر تیری رحمت( مہمان) نہ آئی اور اس وقت تک خود
بھی کھانا نہ کھاتے جب تک مہمان نہ آجائے۔ کہاں ہیں ایسے عظیم ماں باپ جو
اپنے پانچ ،چھ سال کے بچوں کی انگلیاں پکڑ کر صبح کی نماز پر لائیں اور ہر
نماز کی پابندی کروائیں۔کہاں ہیں وہ مرد مجاہد جو ظالم جابرکے سامنے نہ
جھکیں اور کلمہ حق کہہ دیں ۔کہاں ہیں وہ شائستہ لوگ جو اپنی شائستگی سے
دشمن کا دل بھی جیت لیں۔ کہاں ہیں وہ پیکر منزل ،منزلیں جنکے پیچھے
چلیں۔افسوس صد افسوس کہ ایسے عظیم لوگ اب نہیں رہے ۔ آج کے جدید دور میں
ہمارے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں آخر کیوں اسلئیے کہ ہم سے احساسات
، محبتیں ،ہمدردیاں،حیا ،بڑوں کی عزت ،قانون کی بالا دستی ، اچھے برے کی
تمیز ، حق گوئی سب سے بڑی بات اسلام اور اسلام کے سنہری اصولوں سے دوری ہے
جسکی وجہ سے ہماری زندگیاں اجیراً ہیں حقیقی سکون کسی کو بھی نصیب نہیں
کیونکہ ہم جو بھی اچھا کرتے ہیں خالصتاً اپنی ذات کے لئیے کرتے ہیں کسی کی
خاطر نہیں ، نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں، خون کے
رشتے بھی جذوی رہ گئے ہیں۔گناہ کرتے ہیں تو فخریا کرتے ہیں، ہر برائی پر
ناز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ماڈل دنیا ہے انجوئے یور سلیف ، مہمان گھر
آئے جیسے مصیبت گھر آئی ، بورھے ماں باپ ایسے جیسے کوئی بوجھ ہوں ، سیلاب
آئے،زلزلے آئے ، دہشت گردی عام ہوئی ، کئی چراغ گل ہوئے ، کون سی توبہیں
کیں کون سی اذانیں دی کون سی گریا زاری کی کہ اے اﷲ ہمارے گناہ معاف فرما ،
ہماری توبہ منظور فرما اور ان تمام مصائب سے ہمیں چھٹکارا عطا فرما ۔جبکہ
آج سے تقریباً 30 سال پہلے کبھی کبھار اگر سرخ آندھی یا کبھی تیز بارش کے
ساتھ اگر ژالہ باری بھی ہوتی تو وہ لوگ کانپ اٹھتے اور توبہ استغفارکاورد
کرتے جگہ جگہ سے اذانیں سنائی دیتی تھیں اور صدقہ خیرات کرتے کہ اﷲ ہم سے
راضی ہو۔ہم مدد امریکہ سے تو مانگتے ہیں لیکن بدقسمتی اﷲ سے نہیں ۔ یہ ہے
ہمارا آج کا معاشرہ اور یہ ہیں ہماری زندگیاں جو خوبصورت چہروں اور خوبصورت
کپڑوں میں کالے بھڑئیے کی ماند ہیں ۔ حقیقت یہی ہے ہم سب کو بخوبی معلوم
ہوتے ہوئے بھی اتنی توفیق نہیں کہ ہم اپنے آپ کی اصلاح کریں لیکن نہیں جناب
ہم نے تو دوسروں کی اصلاح کرنی ہے ہمیں خود کو اصلاح کی کیا ضرورت ہے۔سب سے
بڑا المیہ تو یہیں ہے کہ ہم دوسرں کی اصلاح میں لگے ہیں اپنا پتہ نہیں۔جس
دن ہم نے اپنے اپنے گریباں چاک کرلئیے اس دن کامیابی کی طرف گامزن ہوں گے
لیکن جو فضا چل رہی اس سے تو کہیں سے بھی یہ نہیں لگتا ہے کہ ایسا ہو جائے
،ہاں اﷲ تبارک وتعالیٰ کو تو سب توفیق ہے وہ چاہے تو سب کرسکتا ہے۔ قارئیں
حضرات میں کو ئی رائیٹر نہیں کوئی ادیب نہیں ایک چھوٹا سا بیکار سا آدمی
ہوں ۔آج کے حالات کے پس منظر جو محسوس کیا جو دیکھااسے بیان کردیا ۔ اس
تہمید میں کہیں کچھ جانے انجانے غلط تحریر ہوا ہو تو معاف فرمائیں ۔ مزید
یہ کہ یہ کسی کے خلاف نہیں لکھا صرف اپنے من کا بوجھ بیان کیا ۔ شکریہ |
|