تشدد کا شکار خواتین اور مردوں کے لئے ٹریکنگ کڑے!

 مرد حضرات ہوشیار ہو جائیں، اور محتاط بھی، پنجاب اسمبلی نے مَردوں کو قابو کرنے کے لئے بل کی منظوری دے دی ہے۔ اس بل کے مطابق’’․․․ عورت کو تشدد کرکے گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا، تاہم تشدد کرنے والے مرد کو دو روز کے لئے گھر سے بے دخل کردیا جائے گا۔ عورت پر تشدد کا ارتکاب کرنے والے مرد کو عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑے بھی لگائے جاسکیں گے، کڑے اتارنے پر مردوں کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تشدد کا شکار خواتین کے لئے شیلٹر ہومز بھی تیار کئے جائیں گے جہاں ان کو اور ان کے بچوں کو رہائش وخوراک کی سہولت بھی میسر ہوگی۔ خواتین کو ٹال فری نمبر دیا جائے گا جس پر تشدد کی صورت میں ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی کو اطلاع دی جائے گی۔ مصالحت کے لئے سینٹر بھی قائم کئے جائیں گے، خواتین کے تحفظ کے لئے ضلعی افسر کسی بھی گھر میں کسی بھی وقت داخل ہوسکے گی، اس افسر کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے پر مرد کو چھ ماہ قید او رپانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، تاہم غلط شکایت کرنے پر خاتون کو بھی سزا بھگتنا پڑے گی․․․‘‘۔

خواتین پر تشدد بظاہر توا یک جاہلانہ عمل تصور کیا جاتا ہے، اس تصور کے پختہ ہونے کی شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کام زیادہ تر جاہل لوگ ہی کرتے ہیں۔ مگر یہ شکایت بہت تعلیم یافتہ یا مہذب لوگوں کے بارے میں بھی آجاتی ہے، اس معاملے میں چونکہ سیاستدان ہر وقت منظر پر ہوتے ہیں ، اس لئے انہی کی خبریں گردش کرتی ہیں، بیوروکریسی اور سرمایہ داروں کے ہاں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، تاہم وہ ایک تو تعداد میں کم اور بہت سے پردوں میں ہوتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا بل کسی حد تک سنجیدہ اور ضروری ہے اور کسی حد تک دلچسپ اور مزاحیہ بھی ۔ تشدد کا شکار عورت کو تو گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، مگر مرد کو بے دخل کیا جاسکے گا۔ یہ ٹریکنگ کڑے عدالت کے حکم پر کس وقت لگائے جائیں گے، جس وقت عورت پر تشدد کے بعد اسے گھر سے نکالا جائے گا تو کڑے پہنا دئیے جائیں گے کہ اس پر نگاہ رکھی جائے کہ وہ اپنے گھر کا غم ہلکا کرنے اور دل کی بھڑاس نکالنے کہاں جاتا ہے، شاید اس طریقے سے یہ راز بھی کھل جائے کہ مرد کے کونسے مشیر ہیں جو اُسے عورت پر تشدد کرنے پر آمادہ کرتے یا اکساتے ہیں۔

ٹریکنگ کا معاملہ بہت عجیب ہے، اگرچہ یہ کڑے مرد کو عدالت کے حکم پر پہنائے جائیں گے، مگر کس شکایت پر؟ یقینا کوئی خاتون اپنے شوہر پر الزامات لگائے گی، جس کی بنا پر مرد کو غصہ آئے گا اور نوبت تشدد تک پہنچے گی۔ اس سلسلہ میں اگر مرد قصور وار نہیں تو اسے ٹریکنگ کڑے (الیکٹرانک ہتھکڑی) پہنا کر عورت اور مرد میں یقینی نفرت کے بیج بوئے جائیں گے۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ عورت کو گھر سے بے دخل تو نہیں کیا جاسکے گا، مگر اس کے لئے شیلٹر ہوم تعمیر کردیئے جائیں گے (؟)۔ جونہی کوئی مرد اپنی عورت پر تشدد کا ارادہ کرے گا وہ فوراً ٹال فری کال ملا کر اپنے تحفظ کے لئے ضلعی افسر کو بلا لے گی، اگر مرد نے افسر کو گھر میں داخل نہ ہونے دیا تو اسے قید اور بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ تشدد کرنے والا غریب آدمی قید تو بھگت لے گا تاہم پانچ لاکھ روپے اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے ہونگے، لہٰذا غریب ایسی حرکتوں سے باز آجائے تو بہتر ہے۔ جہاں تک امیر کا معاملہ ہے، وہاں تک ضلعی افسر برائے تحفظ خواتین کا پہنچنا اتنا آسان نہیں ہوگا، جتنا سوچا جارہا ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہوجائے تو سب کچھ ممکن ہے، اگر صرف قانون بنا کر وقت ہی پاس کرنا ہے، تو یہ مظلوم لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور قانون سازی کے نام پر مذاق کے مترادف ہے۔

بل میں اِس طرف شاید دھیان نہیں دیا گیا ، (اس میں یقینا بے عزتی کا خوف ہی کارفرما ہوگا) کہ اگر کوئی عورت اپنے مرد پر تشدد کرتی ہے تو اس سلسلے میں قانون کیا کہتا ہے، کیا ٹریکنگ کڑے تشدد کرنے والی اور مردکو گھر سے بے دخل کرنے والی خاتون کو بھی پہنائے جائیں گے، یا یہ قانون صرف مردوں کے لئے ہی ہے۔ ایک عرصہ قبل اسی طرح اسمبلی میں بل پیش ہونے پر کسی معزز ممبر نے عورت کے تشدد کی بات کی تھی، تو اسے ( غیر سنجیدہ روایت کے مطابق) خوب مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم یہ بل صرف عورتوں پر تشدد کے بارے میں ہے، ایک دفعہ اس پر عمل ہو جائے ، مار کھانے والے مردوں کے بارے میں پھر دیکھا جائے گا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427210 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.