خواتین کے حقوق اور ہماری غفلت

اﷲ تعالیٰ سے ہماری دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم خواتین سے منافع تو حاصل کر رہے ہیں مگر ان کے حقوق کی ادائیگی میں انتہا درجے کی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ہم اسلامی زندگی کی تکمیل اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک خواتین کے حقوق کی یہ خلا پُر نہ ہو۔ خاتون بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں اور نہ ہی مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سبب محض ہے۔ بلکہ خاتون باقاعدہ انسانوں کی جماعت کی مردوں کی طرح ایک فرد ہے اور اس کے باقاعدہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی شرعی نصوص سے نا صرف ثابت ھے بلکہ فرض ھے اور اس میں کوتاہی یا حق تلفی ایک عظیم جرم ہے۔ جو اﷲ کے عذاب کو نازل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسلام سے پہلے یا دورِ حاضر میں ادیان باطلہ کے نزدیک خاتون کا جو بھی Status ہو وہ اپنی جگہ لیکن اسلام نے خاتون کو جس عظمت کی نگاہ سے دیکھا ،جو حقوق دیے وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے اوپر ادا کرنا فرض ہے۔ اسلام سے پہلے تو خاتون روئے زمین پر ایک لاچار اور کمزورترین مخلوق تھی۔ مردوں کے ظلم و ستم کی تختۂ مشق تھی ـخواہشات کی تکمیل کا محض ایک آلہ تھی ـ مگر اسلام نے خاتون کونہ صرف حقوق دیے بلکہ ان کی باقاعدہ حیثیت واضح کردی اور انکے حقوق کی خلاف ورزی یا حق تلفی پر وعیدیں مقرر کیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کس حد تک حقوق دا کیے ہیں ـ رونا تو اس بات پر ہے کہ آج مسلمان بحیثیت مسلمان خواتین کے حقوق میں انتہا درجے کی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا ہے ـ اﷲ تعالیٰ نے خواتین کا باقاعدہ قرآن مجید میں میراث میں حصے مقرر و متعین کر دیئے ہیں اور ان کا نام مثلاً ماں، بیٹی ، بہن وغیرہ لیکر اس کی شرح بتائی ہے۔ ہمارے کلچر میں میت کا متروکہ مال مردوں میں تو باقاعدگی سے تقسیم ہوتا ہے لیکن خواتین کو یکسر محروم کیا جاتا ہے ـ صرف محروم ہی نہیں کیا جاتا بلکہ خواتین کو میراث میں سے حصہ دینا خاندان والے اپنے لئے عار محسوس کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری غیرت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ خواتین کو میراث سے حصہ دیا جائے ـ یہ ہماری روایت اور رواج کے خلاف ہے ـ اگر اس سے کہا جائے کہ یہ حصہ تو اﷲ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر مقرر کیا ہے تو ’’ فبھت الذی کفر‘‘کا مصداق بن کر خاموش ہوجاتا ہے اگر یوں کہا جائے کہ ان کی جائیداد اپنے پاس روک کر استعمال کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ بہت بڑی بے غیرتی ہے تو آنکھیں نیچے کرتے ہوئے لاجواب ہوجاتے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بڑے بڑے حاجی صاحبان تہجد گزار اور صف اول کے نمازی بھی اس گھناؤنی جرم میں برابر کے شریک ہیں اور شور بھی مچاتے ہیں کہ ہم تو حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت محتاط ہیں ـ تمہاری احتیاط کہاں چلی گئی، ایمانی غیرت کب بیدار ہوگی، تمہاری عقل کب کام شروع کریگی ،خواتین کو میراث سے یکسر خارج کرنے کے اس عظیم جرم اور خواتین کے حقوق پر ڈاکہ مارنے کے اس عظیم غصب میں ہم برابرکے شریک ہیں الا ماشاء اﷲ ۔ـ بعض متقی علماء اور تبلیغی حضرات شاید دیتے ہونگے تاہم یہ مسئلہ اجتماعی ہے اور اس اجتماعی جرم میں تقریباً سب ہی شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری دعائیں اور عبادات غیر مؤثر رہتی ہیں کہ ہم نے اﷲ پاک کے اس بڑے حکم کو بڑی ہلکی نظر سے دیکھا ہے اگر آپ جائیداد کو دوبارہ تقسیم نہیں کر سکتے تو کم از کم اسی جائیداد کی قیمت لگا کر میراث سے محروم خاتون کو اپنے حصے کی نسبت سے رقم تو دے سکتے ہیں اگر وہ راضی ہو تو شاید کفارہ کا کام دے ورنہ قیامت کے دن سخت پوچھ گچھ ہوگی اور اس جرم کا سنسنی خیز انجام ہوگاـ کل کی ندامت، شرمندگی اور رسوائی سے آج کی ادائیگی بدرجھا بہتر اور آسان ہے ۔

علاوہ ازیں خواتین کے حقوق میں سے اسلامی تربیت ـبھی ہے اس سے بھی موجودہ معاشرہ عاری نظر آتا ہے ہم خواتین کی اسلامی بنیادوں پر تربیت میں بڑی کوتاہی کرتے ہیں حالانکہ خاتون کو صحیح العقیدہ بنانا اور اﷲ کے احکام سمجھانا ہماری اولین ذمہ داریوں میں سے ہے اور یہ خواتین کا بنیادی حق ہے کہ اس کو دین سمجھایا جائے اور اس کو زندگی کا مقصد سمجھایا جائے اکثر خواتین کے تو کلمے بھی غلط ہوتے ہیں نماز روزہ تو دور کی بات ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ باپ کے گھر میں بھی یہ خاتون اسلامی تربیت سے محروم رہی اور بیاہنے کے بعد خاوند نے بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ خواتین میں فطری طور پر مادہ انفعالیت "Inspiration" زیادہ ہوتا ہے اس لیے قبروں پر جا کر مرادیں مانگتی ہیں یا باطل پیروں کے شکنجے میں آکر برباد ہو جاتی ہیں اگر ہم ابتداسے ان کا حق تربیت ادا کریں تو پھر خواتین کا یہ حال نہ ہوتا شروع ہی سے اس کو عقیدہ توحید سمجھانا اور دین شناسی کرانا ضروری ہے خواتین کو پتہ ہی نہیں کہ پردہ کرنا اﷲ کا کتنا بڑا حکم ہے اس لیے بازاروں میں کھلے عام پھرتی ہیں کیونکہ دین اور دینی تربیت سے انہیں الگ رکھا گیا ہے اور ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ دینی تربیت ان کا حق ہے جس سے ہم انہیں محروم کر رہے ہیں اگر کوئی خاتون پردہ کرنا چاہے بھی تو ہم خاندانی روایات کو سامنے لا کر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ بعض خواتین فطری غیرت کی وجہ سے یا کسی دینی بیان سننے کی وجہ سے پردہ کر نا چاہتی ہے اﷲ سے ڈرتی ہے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلتی ایسی خواتین ہزار خواہش کے باوجود پردہ نہیں کرسکتیں ۔کیونکہ اس کے پردے کے راستے میں خاندانی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں ایسا باپ،ایسا خاوند کل اﷲ کے ہاں کیا جواب دیگا کہ خود بھی اﷲ کے احکامات سے باغی اور دوسروں کے لیے بھی رکاوٹ ،حالانکہ خاتون کی حفاظت میں معاشرے کی حفاظت ہے اگر خواتین شرعی پردہ شروع کرلیں تو ہمارے معاشرے کا بگاڑ خود بخود درست ہوجائیگا کیونکہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ اور فساد میں نوّے فیصد کردار ان خواتین کا ہے جو اﷲ کے حکم کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے گھروں سے نکل کر بازاروں میں کھلے عام پھرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمارے دل صاف ہیں چلیں مان لیتے ہیں کہ آپ کا دل صاف ہے مگر کتنے مردوں کے دلوں کو ناپاک کرنے کا سبب بن رہی ہیں یہی معاشرے کا بگاڑ ہے شرعی پردہ میں بہت بڑی حکمتیں ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں اﷲ رحم کرے ان خواتین، پر جو اس گئے گزرے دور میں پردے کا اہتمام کر تی ہیں۔

تیسری چیز جس میں ہم زیادتی کرتے ہیں وہ ہے خواتین کا مہر،ـ ہمیں یہ امر جاننا ہوگا کہ مہر خالصۃً خاتون کا حق ہے ۔ خاوند سمیت خاندان کے کسی فرد کا اس میں کوئی حق نہیں اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ رخصتی کے وقت ہی مقررہ مہر پورا کا پورا خاتون کا ادا کردیا جائے۔ بعض اوقات خاندانی روایات کی وجہ سے خاتون اس کا مطالبہ نہیں کر سکتی مگر یہ اس کا حق ہے اور یہ خاوند کے اوپر واجب الاداء ہے۔ اسلامی طریقہ اور اصول کے مطابق مہر مقرر کرنا چاہیئے مہر کی تقرری میں بخل اور کمی سے احتراز ضروری ہے ۔ پھر جو مقرر ہوجائے اس کی بروقت ادائیگی ضروری ہے ورنہ مظلوم عورت کے دل کی آواز اﷲ سنتا ہے۔ کہیں اس ظلم کے ردعمل میں عذابِ خدواندی نازل نہ ہو ۔ یہاں اس امر کی رعایت بھی رکھی جائے کہ مہر کی تقرری میں تجاوز بھی نہ ہو کہ خاوند کی کمر ہی ٹوٹ جائے گویا مہر افراط و تفریط سے پاک ہونا چاہیئے اس کے ساتھ ساتھ حتی ّالمقدور بیوی کو نان نفقہ بھی دینا چاہیئے۔یہ بھی خاتون کا حق ہے۔ خاوند کو احسان نہیں جتلانا چاہیئے کیونکہ نان نفقہ بھی خاتون کا حق ہے اور حق کی ادائیگی کے وقت ادا کرنے والے کو مستحق کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے جس خاتون نے ایک بول پر والدین، بہن، بھائی اور پورا خاندان چھوڑ کر اپنے آپ کو خاوند کے حوالے کیا۔ کیا اس کا اتنا بھی حق نہیں بنتاکہ گزر اوقات کیلئے اس کو مناسب روٹی کپڑا مکان دیا جائے۔ ہماری روایات میں ایک بہت غلط خیال آکر شامل ہو گیا ہے وہ یہ کہ جو شخص اپنی بیوی کا لحاظ رکھتا ہے اس کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص بیوی کا غلام ہے حالانکہ بیوی کا مناسب اور حسبِ شریعت لحاظ رکھنا خاوند کی عین شرعی ذمہ داری ہے۔ خوشگوار ازدواجی زندگی کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے شرعی حقوق کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ کریں ۔ یہ جو خاندان اُجڑ جاتے ہیں ۔ اس میں یہی امر کارفرما رہتا ہے کہ حقوق کی ادائیگی کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یاد رکھیئے بیوی کے حقوق ادا کرنے سے والدین یا بہن بھائیوں کے حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،والدین کے حقوق شریعت نے الگ متعین کیے ہیں چونکہ بیوی بہن بھائی والدین اور اولاد سب کے حقوق الگ الگ ہیں اس لئے کسی ایک فریق کے حقوق ادا کرنے سے دوسرے فریق کے حقوق متاثر نہیں ہوتے یہ ہماری کم ظرفی اور خام خیالی ہے ـ بہترین شخص وہ ہے جو سب کے حقوق کا خیال رکھتا ہو اور ہر ایک کے حقوق کے متعلق الگ سوال کیا جائیگاـہماری غلط روایات میں ایک یہ ناجائز امر شامل ہو گیا کہ خدانخواستہ اگر خاتون کا خاوند فوت ہوجاتا ہے تو پھر خاتون کی رضامندی حاصل کئے بغیر اس کے بھائی وغیرہ کے ساتھ اس کا نکاح کرایا جاتا ہے اور خاندان والے کہتے ہیں کہ یہ ہماری عزت ہے ۔ اسے ہم باہر نہیں جانے دینگے ۔ بعض اوقات جس دیور کے ساتھ اس کا نکاح کرایا جاتا ہے وہ لوفر اورنشے کا عادی بھی ہوتا ہے۔ مگر خاتون کو اس کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور کیاجاتا ہے یہ خاتون کی حق تلفی ہے خاتون سے پوچھنا اور اس کی رضا معلوم کرنا ضروری ہے۔ یہ اس بیچاری کے مستقبل کا مسئلہ ہے لیکن صد افسوس کہ یہاں خاتون سے پوچھنا اور اس کی پسند معلوم کرنا خلاف غیرت سمجھا جاتا ہے حالانکہ جو شریعت ہے وہ کس طرح خلاف غیرت ہے؟خاتون اپنی روایتی شرم و حیا کی وجہ سے کچھ کہہ تو نہیں سکتی لیکن وہ یہ ضرور سوچتی ہے کہ میری مثال ان بے زبان جانوروں کیطرح ہے جن کی میلے میں خریدو فروخت ہوتی ہے۔ اگر اسی خاندان میں کوئی مناسب شخص اس کے نکاح کامل جائے تو بہتر بات ہے لیکن اس بے زبان اور مظلوم مخلوق سے اس کی پسند کے پوچھ لینے میں کیا مضائقہ اور قباحت ہے اور اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ خاندان ناخوشگواری اور فساد سے محفوظ ہوگا۔

ایک اور قبیح روایت جو ہمارے بعض علاقوں میں پائی جاتی ہے اور خواتین اس روایت کی نذر ہو کر برباد ہوجاتی ہیں اس کو عام طور پر ’’ سورہ ‘‘کہا جاتا ہے کہ اگر دو خاندانوں کی دشمنی ہے تو اس دشمنی کے ازالہ کے لئے خاتون کو قربانی کا بکرا بنا کر دوسرے خاندان کے حوالے کیا جاتا ہے ایسی خواتین کا مستقبل اکثر تاریک ہوتا ہے اور ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ازدواجی زندگی ناخوشگور اور پورے خاندان والے اس کو طعنے دیتے ہیں اور یہ مظلوم مخلوق زندگی بھر ان طعنوں کو سُن سُن کر برداشت کرتی رہتی ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے ان مذکورہ قباحتوں کے علاوہ ایک قباحت یہ بھی ہے کہ خاتون سَن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے مگر باپ اس کے نکاح کی فکر نہیں کرتا حالانکہ نکاح جس طرح مرد کا حق ہے اسی طرح خاتون کا بھی حق ہے۔ سن بلوغت کو پہنچ جانے کے بعد جب اس کے جوڑ کا خاوند ملتا ہے تو بیاہنے میں رکاوٹیں پیدا کرکے خاتون کی حق تلفی نہیں کرنی چاہیئے۔ جس طرح مرد خاتون سے استمتاع کرتا ہے اس طرح خاتون بھی انسان ہونے کی حیثیت سے خواہشات رکھتی ہے اس کا بھی جذبہ ہوتا ہے کہ اس کا خاوند ہو، گھر ہو اور خوشگوار ازدواجی زندگی ہو۔

خواتین کے حقوق کے غصب میں ایک اور کارفرما روایت یہ ہے کہ دوسرے خاندانوں میں خاتون کے بیاہنے سے احتراز کرتے ہوئے اپنے ہی خاندان میں بیاہنے پر اہلِ خاندان مصر ہوتے ہیں اور ایسی صورتوں میں بعض اوقات جوڑ کا خاوند نہیں ملتا ۔ اور چچا کہتا ہے کہ میرے پانچ سالہ بچے کیلئے اس خاتون کو انتظار کرنا پڑیگا اگر کوئی رشتہ اس خاتون کیلئے آتا ہے تو چچا صاحب بزور شمشیر اس کو منع کرتا ہے کہ یہ تو میری بہو بنے گی ورنہ اس کی شادی ہوگی ہی نہیں۔ یہ اس خاتون کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض اوقات چچازاد کی عمر تو موافق ہوتی ہے مگر خاتون اس کے ساتھ شادی کرنا بالکل پسند نہیں کرتی پھر کیاہوتا ہے کہ خاندانی ناچاقیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس فساد کے اصل ذمہ دار اہلِ خاندان خود ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں خاتون جانور نہیں بلکہ انسان ہے اور ظلم تو جانوروں پر بھی نہیں کرنا چاہیئے لیکن ہم ناجائز طور پر اپنی بیویوں کو وہ سزائیں دیتے ہیں جو بالکل نامناسب ہوتی ہیں اور وہ اس ظلم کو یا تو برداشت کرتی ہیں ورنہ پھر اس ظلم کے نتیجے میں طلاق اور خاندانی دشمنیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنانا، معمولی معمولی باتوں پر میاں بیوی کے جھگڑے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ان سے احتراز ضروری ہے بلکہ انتہائی خوشگوار انداز میں ازدواجی زندگی گزارنی چاہیئے تاکہ زندگی پُرلطف ہو۔ صحابیات اور صحابہ کی زندگی کے مطالعے سے ہمیں بہترین اور خوشگوار زندگی مِل سکتی ہے۔ جہاں ہر کوئی حق ادا کرنا چاہتا ہے اور ہم تو حق مانگنے والے ہیں ادا کرنا تو ہماری روایت ہی نہیں ورنہ پھر یہ فساد ہرگز نہ ہوتا۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ احکام شریعت کے احکام ہیں اور یہ وہ حقوق ہیں جو شریعت نے تو خواتین کو دیئے ہیں مگر ہم اسلام کے نام لیوا خواتین کو یہ حقوق دینے کیلئے تیار نہیں اب روشن خیال سے میں یہ سوال ضرور کرونگا کہ وہ خواتین کے حقوق کے متعلق اسلام اور اسلامی قوانین پر اعتراضات کرنے سے پہلے ان حقوق کا مطالعہ ضرور کرے جو شریعتِ اسلام نے خواتین کیلئے مقرر کئے ہیں یہ تو ہمارا قصور ہے کہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتے اس میں بھلا اسلام کا کیا قصورہے۔
 
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 3 Articles with 3309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.