مستقبل کا دھندلا منظر نامہ۔۔۔۔تحفظ خواتین بل کے نفاذ کے بعد

بیوی دیر سے گھرآئی۔شوہر نے حسب سابق اس سے باز پرس کی:دیر سے کیوں آئی ہو؟یہ کون سا وقت ہے گھر نے کا؟تمھاری چھٹی تو آٹھ بجے ہوجاتی ہے کالج سے۔۔۔۔۔۔بیوی نے شوہر کو تو کوئی جواب نہ دیا،واش روم میں گئی،جھٹ سے ٹول فری نمبر ملایا،کال فوراًریسیو کرلی گئی۔ہیلو۔۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔میں بنت حوا بول رہی ہوں۔اس نے کہا۔
آگے سے ایک مردانہ آواز آئی:جی،جی حکم؟اس وقت ہم آپ کی کیاخدمت کرسکتے ہیں؟
بیوی نے بلا تمھید اپنا مقدمہ پیش کردیا:میرے شوہر نے مجھ پر ذہنی تشدد کیا ہے،موبائل بھجوادیں۔آگے سے آوازآئی:
اوکے۔۔۔۔۔۔۔اور فون بند ہوگیا۔بیوی صوفے پر آگر بیٹھ گئی،شوہر بھی تلملاتارہا،کہ وہ اس کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔خود ہی اٹھا،کچن میں گیا۔کھانا گرم کیا اور لاکر زہر مار کرنے لگا۔بچے ماں کا انتظار کرتے کرتے بھوکے ہی نیند کی وادیوں میں جاچکے تھے۔
ابھی اس نے پلیٹ اٹھاکر کچن میں رکھی ہی تھی اور سونے کی تیاری ہی کررہا تھا کہ پولیس موبائل گھر کے باہر ہارن بجانے لگی۔وہ باہر کی طرف دوڑا۔اس کا سامنا تین چار پولیس اہل کاروں سے ہوا،سلام کلام کی نوبت آنے سے پہلے ہی اس پر سوال داغ دیا گیا:یہ ابن دم کا گھر ہے؟اس نے مختصر سا جواب دیا:جی۔۔۔۔آگے سے رعونت بھرے انداز میں پھر تصدیق چاہی گئی:آپ ہیں ابن آدم؟
جی میں ہوں۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔اس وقت۔۔۔۔۔۔آپ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پریشانی اور گھبراہٹ میں الفاظ بھی پورے ادا نہیں کیے جارہے تھے۔
ایک پولیس والادو لاتیں مارکربولا:چل موبائل میں بیٹھ،تجھے بتاتے ہیں تھانے تو چل۔۔۔تجھے پتا نہیں پنجاب میں عورتوں کی حکومت ہے۔۔۔اب وہ سمجھا ماجرا کیا ہے؟اسے اپنی بیوی پر غصہ تو بڑا آیا،مگر کر بھی کیا سکتا تھا،وہ بس دل ہی مسوس کر رہ گیا اور مرتاکیا نہ کرتا موبائل میں دبک کر بیٹھ گیا۔۔جیسے وہ شوہر نہ ہو کوئی عادی مجرم ہو۔۔۔یا پھر کوئی طالبانی کارندہ۔وہ پولیس والوں کو کیا بتاتا،وہ ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے،پڑھا لکھا روشن خیال انسان،بیوی کو اس نے جاب سے بھی نہیں روکا،وہ بھی ایک کالج میں پڑھاتی ہے،بچوں کو آیا سنبھال لیتی ہے۔وہ ان سے کچھ بھی نہ کہ پایا،کیوں کہ وہ اس وقت ایک مجرم تھا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔بس۔
اس کی گرفتاری کو تین دن بیت گئے۔جس نے بھی سنابیوی نے گرفتار کروایاہے،ویمن پروٹیکشن بل کے تحت۔۔تو خاموشی میں ہی عافیت جانی۔

بیوی کالج سے واپسی پر بڑی بے چینی سے گھر کے وسیع دالان میں ٹہل رہی تھی۔اس کو کسی کمی کا بڑی شدت سے احساس ہورہا تھا۔وہ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر خود کلامی کے انداز میں ۔۔۔۔اف اﷲ!آج تین دن ہوگئے،میرے میاں جی حوالات میں ہیں،میں اکیلی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ خود کو کتنا غیر محفوظ تصور کرتی ہوں،کاش میں ایسا نہ کرتی،براہوشہباز شریف کا،میرا تو گھر ہی جھونک ڈالا۔اب کیا ہوگا۔۔۔۔سب رشتے داروں نے بھی منہ پھیر لیا۔ایک ہی بات ہے کیوں بند کرایا تھامیاں کو جیل میں،اب بھگتو۔۔۔۔تھانے والے بھی نہیں سنتے۔رشوت مانگتے ہیں،کہاں سے دوں۔۔۔۔اوپر سے میاں نے بھی دھمکی دیدی ہے کہ رہا ہوتے ہی تجھے طلاق دے دوں گا۔میں کیا کروں؟کہاں جاؤں۔۔۔۔اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر۔تھانے والے بھی کہتے ہیں،طلاق اس کا حق ہے ہم اسے نہیں روک سکتے،ہاں ہم اس کو اس بات کا پابند کریں گے کہ وہ تجھے گھر سے نہ نکالے،ہم اس کوٹریکنگ کڑے بھی پہنادیں گے،اس کی ایک ایک حرکت کی بگرانی بھی کریں گے۔۔۔۔لیکن ان کو کون سمجھائے۔۔۔۔۔اس طرح گھر میں رہ کر میں کیا کروں۔۔۔شوہر کے سائبان سے محروم ہوکر۔۔۔یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے۔

اف اﷲ!میں کیا کروں؟کاش میں مولویوں کی بات مانتی،مولانا فضل الرحمن اور مفتی محمد نعیم صحیح تو کہتے تھے یہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے والا بل ہے۔۔۔میں اوریا مقبول جان ہی کی سن لیتی،میں تو دین بے زاری میں اندھی ہوگئی تھی۔ان لبرل ،سیکولر دانش وروں نے تو میرا گھر ہی جھونک دیا۔انھیں میرے دکھ سے کیالینا دینا،خود تو اپنے گھروں میں مزے سے زندگی گزاررہے ہیں۔وہ حقوق نسواں کی سب سے بڑی ٹیکے دار بننے والی ماروی سرمد بھی فون نہیں اٹھارہی،حالاں کہ مفتی محمد نعیم سے الجھنے پر جب میں نے اسے فون کیا تو کتنی خوش ہو رہی تھی،اب کیسے نگاہیں پھیر لیں۔۔۔شرمین عبید چنائے اورعاصمہ جہانگیر کے دفتر سے بھی دھکے مل رہے ہیں۔۔۔۔کوئی بھی تو نہیں ہے جو میری اشک شوئی کرے ۔لے دے کے اب بھی میرے غم میں وہی مولوی ہی شریک ہیں جنھیں گالی دیے بنا مجھے چین نہیں آتا تھا،کتنے عظیم ہیں یہ لوگ،خود رابطہ کرکے کہا میاں کو ہم طلاق سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے،تم دونوں کے درمیان مصالحت کرائیں گے،خدانخواستہ نباہ نہ ہونے کی صورت میں مجھے پیش کش بھی کہ وہ اپنے بنات کے مدرسوں میں مجھے اور میرے بچوں کو پناہ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

یہ دانش فروش تو میرا گھر جھونکنے کے بعد اب میری عزت کے بھی پیچھے پڑگئے ہیں،کہتے ہیں، خبردار،مولویوں کے پاس مدرسوں میں نہیں جانا،وہ تجھے تنگ نظر بنادیں گے، گورنمنٹ کے بنائے ہوئے شیلٹر ہوم موجودہیں،وہاں پناہ لینا۔۔۔۔۔۔مگرمیں جانتی ہوں وہاں میں لٹ جاؤں گی جنسی درندوں کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔!!!
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307862 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More