انتہا پسندی ایک پہلو یہ بھی ہے
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
تجدید وإحیاء
ڈاکٹرشیخ ولی خان المظفر
انتہاپسندی کاایک پہلو یہ بھی ہے
انتہاپسندی ایک نفسیاتی بیماری ہے،جو بعض اوقات موروثی اور بعض اوقات
ماحولیاتی ہوتی ہے،اول الذکر کاعلاج اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور
ہوتاہے،آخرالذکر ماحول کی تبدیلی سے ختم یا کمزور ہوجاتی ہے،اسی لئےکچھ
تبلیغی مراکزاورخانقاہوں میں فکری ہاضمہ کی کمزوری میں مبتلااِن افراد کو
جب غلو فی الدین وغیرہ کی بیماری لگ جاتی ہے،تو ذمہ دارحضرات انہیں بازار
لے جاکروہاں کا کھانا کھلانے کا کہتے ہیں،چنانچہ بیمار کے مزاج میں اعتدال
آجاتاہے،البتہ موروثی وماحولیاتی دونوں طرح کی یہ بیماری تقریباً لاعلاج
ہوتی ہے،ایسے شخص سے کوئی بھی معاملہ کرنے کی صورت میں سامنے والا اگر
بذاتِ خود مبتلائے مرض نہیں تو اسےضبطِ نفس کا مظاہرہ کرنا پڑتاہے۔
بد قسمتی سے اس وقت ہر دردِدل رکھنے والا مسلمان اس نفسیاتی بیماری کا شکار
ہے،پون صدی سےفلسطین میں ظلم وستم،کشمیر میں جبر وقہر،افغانستان میں ضرب
وحرب، بوسنیا ،کوسوو، اریٹیریا، چیچنیا، فلپائن، برما، صومالیہ میں خونِ
مسلم کی ارزانی اورشام،عراق،یمن ولبنان کا تو تذکرہ کرنے ہی سے کلیجہ منہ
کو آنے لگتاہے،اوپر سے بیشترمسلم حکمرانوں کی نااہلی یا بدنیتی،علماء
ودانشوروں کی ‘‘انا ولاغیری’’،بے روزگاری،ایک ہی وطن کے باسی امراء اور
غرباء کے لائف سٹائل میں بے تحاشا تفاؤت،قوم پرستیاں ،فرقہ پرستیاں،حکومتی
رٹ قائم کرنے والوں اور اسی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے درمیان کئی مسلم
ممالک میں خانہ جنگیاں،امن وسلامتی کے نام پر قائم شدہ بین الاقوامی اداروں
کی منافقت ودوغلاپن،سب سے بڑھ کر روحانیت کے بجائے مادیت پرستی،ان
گمبھیرحالات میں پہاڑ جیسے حوصلہ اور سمندر جیسی وسعتِ ظرفی رکھنے والا بھی
سرگرداں ہوجاتاہے،چکرانے لگتاہے، اس کی سوچ سمجھ کھوجاتی ہے،اب ایسے لوگ جو
کچھ بھی کہتے یا کرتے ہیں ،ظاہر سی بات ہے ،گویابلا سوچے سمجھے بولتے ،کہتے
اور کرتےہیں اورمکافاتِ عمل کے طورپربہت کچھ بھگتتے بھی ہیں۔
لیکن اس کے علاوہ انتہاپسندی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ انتہا پسندی کا
مقابلہ فہمائش کے بجائےانتہاپسندی سے کیاجاتاہے،اسلام ہمیں گالی کا جواب
دینے سے روکتاہے،کسی کےساتھ دشمنی میں حدود سے تجاوز کو ممنوع
قراردیتاہے،مخالف کے ساتھ سنجیدگی کا حکم کرتاہے،معاہدوں کی پاسداری لازم
کرتاہے،سفارتی مشنوں کی تذلیل وتحقیر کو حرام گردانتاہے،پر ہمارے یہاں
مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے تمام اقسام میں ہر کوئی منہ اٹھاکر مذہب اور مذہبی
اقدارکو ہدفِ تنقید بنانا شروع کردیتاہے،فرقوں کے درمیان صدیوں سےچلتے ہوئے
اختلافی مسائل کو موضوعِ سخن بنالیتاہے،معاشرتی رسومات وشخصیات پر ایسی بے
دریغ نشتر زنی کرتاہے کہ اگلے کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں،اور تو اور صدرِ
مملکت سود جیسی لعنت کے جواز کی راہیں سرِ بازار تلاش کرتاہے، وزیراعظم
دستور اساسی میں طے شدہ ایک اسلامی ملک کو دبی زبان میں لبرل بنانے کاعندیہ
ظاہر کرتاہے،بعض دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو آزادی اظہارِ رائے کا ہیضہ
ہوجاتا ہے،سوشل میڈیا کے خودساختہ مجتہدین ومفکرین اورملک وملت کی خیر
خواہی سے نابلدکچھ الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسنزان نازک ترین حالات میں
بھی بھڑکتی آگ کو بجھانے کے بجائے اس پر مزید تیل چھڑکتے ہیں،پھر وہی
ہوتاہےجو ہمارے ملک اور پورے عالم اسلام میں ہورہاہے،حقیقت یہ کہ
انتہاپسندی دونوں طرف سے ہے،بس کچھ بندوق اٹھائے ہوئے ہیں،کچھ نے زبان
وبیان اور کچھ نے قلم کا سہارا لیاہواہے،کچھ خولوں میں بند ،سب کو اپنے
ساتھ خولوں میں بند دیکھنا چاہتے ہیں،زبردستی بھی کرنی پڑے تو اس سے گریز
نہیں کرتے،فرعونی ذہنیت ہے کہ جو میری رائے ہے، وہی سب کی ہو،ورنہ تہِ تیغ۔
ان کے بالمقابل کچھ ایسے لوگ ہیں جو مادرپدر آزاد رہناچاہتے ہیں اوراس
نظرئےر کے فروغ کے لئے ہر محاذ اور ہر اسٹیج کواستعمال کرنے کی کوشش کرتے
ہیں،اگر کسی نےان کی ہاں میں ہاں نہ ملائی ،تو اسے رجعت پسند ، قدامت پرست
اور خدا جانے کیا کیا القابات عنایت کرتے ہیں،ان میں ایک گروہ عملی دہشت
گردی کرتاہے اور دوسرا گروہ فکری ونظریاتی دہشت گردی کا مرتکب بنتاہے،اسلام
ان دونوں انتہاؤوں کے درمیان ہے،اعتدال اور وسطیت اس کا شعار ہے،حکمت
،دانائی اور تدریج اس کی متاع ہے،امامِ غزالی سے کسی نے پوچھا،حضرت
جی،اسلام میں تارک الصلاۃ کا کیا حکم ہے،انہوں نے بڑا حکیمانہ جواب دیا کہ
تارک الصلاۃ کا حکم یہ ہے کہ اسے نماز کی طرف راغب کیاجائے۔
ہمارے ملک اور عالم اسلام میں فکری ونظری تربیت گاہوں کا فقدان بہت بڑا
مسئلہ ہے،تعلیم وتدریس کی درسگاہیں موجود ہیں،لیکن سکول آف تھاٹ نہیں
ہیں،نشریاتی اداروں میں کام کرنے والوں کو اسی طرح تربیت کی ضرورت ہے جس
طرح خفیہ اداروں میں فرائض کی انجام دہی والوں کو تربیت دی جاتی ہے،بلکہ
ایسے اشخاص کے انتخاب کے لئے بھی وہی مراحل بتدریج لازمی قرار دیئے جائیں
جن مراحل سےمختلف پارلمانوں کے لوگوں کو گذرنا
ہوتاہے،علماء،سفراء،قائدین،اور کسی بھی سطح پر رہنمائی کرنے والوں کو ملک
وملت کے حساس معاملات پر وقتاًفوقتاً ورکشاپز کے ذریعے آگاہی دینی
چاہیئے،سب معلومات کہنے کی بھی نہیں ہوتیں اور سب معلومات چھپانے کی بھی
نہیں ہوتیں،بازار میں اشیاء کے درمیان طلب ورصد میں تطابق ومطابقت جیسے
ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی استعداد وصلاحیت کے مطابق معلومات فراہم ہونی
چاہیئں،اگرچہ انٹر نٹ نے یہ اختیار اب ہمارے ہاتھ سے چھین لیا ہے،پھر بھی
ہمیں ایک حد تک اس کا تدارک کرنا پڑے گا۔
عرض کرنےکا خلاصہ یہ ہے کہ انتہاپسندی کے روک تھام کے لئے پہلے اس کے اسباب
پر غور کرنا پڑے گا،بیماری کے علاج سے قبل اس کی تشخیص لازمی ہوتی ہے،اسباب
وعلل کا تعین کرکے ان کے چھوڑنے کا مریض کو کہا جاتاہے،علاج میں جیسے دوا
دی جاتی ہے،ایسی ہی پرہیز بھی کرایاجاتا ہے،پرہیز میں بسا اوقات تیمارداروں
کو بھی سمجھایاجاتاہے، کہ بھائی مریض کی شفایابی اگر مقصود ہے،تو پھر دوا
کھانے اور پرہیز کرنے دونوں میں نگہداشت لازمی ہے، تب جاکر کوئی شفا پاتاہے
اور کوئی نہیں پاتا،ہمارے یہاں انتہا پسندی کے مریضوں کا یا تو باقاعدہ
علاج نہیں اور اگر کچھ ہے بھی سہی،تو نگہداشت کے طورپر جن اسباب سے انہیں
یہ مرض لاحق ہواہے،ان اسباب کی بیخ کنی نہیں کی جاتی،چنانچہ مرض
بڑھتاجارہاہے جوں جوں ہم دواکررہے ہیں۔ |
|