پاؤں میں جوتی نہ رہی ۔ ۔ ۔ عورت کے حقوق

وہ ماں ہے تو مقدس ہے ۔ بہن بیٹی عزت ہے ۔ لیکن جیسے ہی بیوی ، بہو ، بھابھی بنتی ہے تو پاوں کی جوتی بن جاتی ہے ۔

ساس ، نندیں ، سوتیلی مائیں بھی اپنے بدلے اسی سے لیتی آتی رہی ہیں۔۔۔

سوال ۔ کیا عورت کو اس کا قانونی حق جو مذہب بھی دیتا ہے ۔ اسے قانون کی شکل میں بنا کر لاگو کرنا معاشرے میں بیگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گا؟

عورت پر ہاتھ اٹھانا۔ بلاوجہ تششدد کا نشانہ بنانا۔ روز روز کی مار پیٹ کو معمول بنانا۔ بات بات پر تحزیق کا نشانہ بنانا۔ تعنہ زنی کرنا۔ اس کے خاندان والوں کو گالیاں دینے ۔ یہی نہی ان کی زندگی بھی اجیرن کرنے والے کو اگر قانون کی مدد سے روکنے کی کوشش کی جائے ۔ اسے انصاف دینے کی بات کی جائے ۔ تو اسی معاشرے کے نام نہاد مذہبی ، اور مردانگی کا غرور رکھنے والے جس طرح سامنے آئے ہیں اور واقعی میں اپنے مجرم ہونے کی خود دلیل ہیں۔

آپ کی بیٹی بہن سے اس کا شوہر ظلم و ستم کرے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے ۔ لیکن آپ دوسرے کی بیٹی بہن سے وہی سلوک آنکھوں بند کرکے کرتے رہیں گے ۔یہ ہے معاشرے کا وہ منافقانہ تعضاد جو اس قانون پر لعن تعن کرنے پر لگا ہوا ہے ۔

پاکستانی معاشرے میں عورت پر جو ظلم ستم کیا جاتا ہے ۔ تزاب سے چہرے تک جلا دیئے جاتے ہیں۔ اگر ان پر کوئی آواز اٹھائے تو اسے پاکستان کو دنیا کے سامنے بدنام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ کیسی بیغیرت قوم ہے یہ ۔ جو اپنی خواتین کو تحفظ دینے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ یہ دنیا سے ڈرتےہیں کہ اپنے گندے کپڑے ان کے سامنے مت دھوو۔ ۔ بلکہ ہمیں مزید کپڑے گندے کرتے رہنے دو۔

کیا یہ عورت پر لازم ہے کہ وہ ہر اس ظلم کو برداشت کرتے اپنی زندگی اسی سمجھوتے میں گزار دے کہ گھر بسا رہے ۔ وہ گھر جو اس کے لئے ہمیشہ دوزخ بنا رہے ۔ وہ اپنی زندگی کے دن ظلم کی چکی میں پستے گزار دے ۔

اب تمہیں ہاتھ اٹھانے سےپہلے سوچنا ہو گا کہ تمہارے گندے کپڑے اب قانون صاف صاف کرےگا۔ یا تم اسی ڈر سے کہ قانون حرکت میں آئے اپنے کپڑے صاف ستھرے رکھ کر معاشرے میں عزت دار بن کر رہنا پسند کروگے ۔ قانون استعمال کی شاید نوبت ہی ناآئے ۔ اس کا ڈر ہی کافی رہے گا۔ یا اگر پھر بھی کوئی باز نہ آیا تو پھر اس جنم سے سمجھوتا کرکے جینے سے بہتر الگ ہو جانا ۔

عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت تب ہے جب اگر وہ بے راہ روی کی راغب ہو۔ ایک حدیث میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ منہ پر مت مارو۔ لیکن یہاں تو کلمہ گو منہ پر تیزاب پھینک کر اپنی معاشرتی مردانگی پوری کرتے ہیں۔

مذہب کے ٹھیکیداروں سے سوال۔ جو مولانہ حضرات اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا وہ بتا نا پسند کریں گے انہوں نے اس معاشرتی ظلم کے خلاف کیا کچھ کیا؟ کیا کوئی فتواہ دیا؟ کیا جہیز کی لعنت کے خلاف کوئی فتواہ؟ کیا عورت کے حقوق پر کبھی لب کشائی کی؟ آجا کر تمہاری زبان پر ایک ہی لفظ آتا ہے ۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا جانتے ہو آپ؟ یا جان بوجھ کر زبان پر لانا نہی چاہتے ۔ کیوں کہ اس کی زد میں آپ خود پہلے آو گے ۔

جس ماں کے قدموں تلے جنت ہے وہ جنت کسی کی بیٹی بھی ہے ۔ وہ جنت بہو بھی ہے ۔ بہن بھی ہے ۔ اس جنت کی اسی طرح عزت کرو۔ اسے عزت دو۔

میں شرمین عبید کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جس پہلی فلم پر تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف قانون بنا۔ قانون حرکت میں آیا۔
اور اب دوسری فلم جو عورت کی آواز ہے ۔ جسے ملک میں کوئی سننا پسند نہی کرتا تھا۔ دنیا کو سنا کر تم بے غیرت مردوں کے منہ پر تمانچہ مارا ہے ۔
اب اس پر بھی قانون بنے گا۔ اور اسے انصاف ملے گا۔ اور خدا کو انصاف ہی تو چاہئے ۔ یہی عمل ہماری دنیا آخرت ہے ۔

جیو اور جینے دو۔ ہاتھ مارنے کے لئے نہی ۔ گلے سے لگانے کے لئے ۔ سر پر رکھنے کے لئے زیادہ ضروری ہے ۔۔۔

شکریہ
ahmed
About the Author: ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.