خواتین کو تشدد سے بچانے کا قانون۔۔۔۔۔۔۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں
(Dr M Abdullah Tabasum, )
اس دور جدید میں بھی ہمارے ہاں خواتین کا
بڑا مسئلہ گھریلو تشدد ہے ،کہیں خواتین کو جلا کر مار دیا جاتا ہے تو کہیں
مار پیٹ کر کے انہوں گھر سے نکال دیا جاتا ہے اس قسم کے مسائل پر قابو پانے
کے لئے مختلف ادوار میں خواتین کو تحفظ دینے کے لئے مختلف قسم کے بل پاس
کئے گئے لیکن آج تک کسی بھی منظور شدہ بل نے خواتین کو اگر تحفظ نہیں دیا
تو اس کی بڑی وجہ اس بل کے نفاذ کا فقدان تھا ،خواتین کو شوہر کی مارپیٹ سے
بچانے کے لئے حال ہی میں پنجاب حکومت نے ’’خواتین کو تشدد سے بچانے‘‘ کا
قانون بنایا ہے جس کے مطابق اب کسی بھی خاتون کو تشدد کر کے گھر سے نہیں
نکالا جا سکے گا اور اس کا شوہر اس پر تشدد نہیں کرے گا ،اس بل پر مرد
حضرات خصوصا سیاسی و دینی جماعتوں میں کافی تحفظات پائے جاتے ہیں ،جب بل
اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ایوان مچھلی منڈی بنا رہا کوئی اس کے حق میں تو
کوئی مخالفت میں بول رہا تھا ،جبکہ مولانا فضل الرحمان نے تو اس قانون کے
خلاف حقوق شوہراں تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے پنجاب اسمبلی کے اراکین
کو’’رن مرید‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا ،جبکہ خادم اعلی پنجاب میاں محمد شہباز
شریف نے اس بل کو خواتین کی ترقی سے منسوب کر دیا ،اپوزیشن کے تحفظات اپنی
جگہ مگر اس بل میں جو چیزیں شامل کی گئی ہیں وہ خاصی تسلی بخش ہیں ،جیسے کہ
خواتین پر گھریلو تشدد ،معاشی استحصال،جذباتی ،نفسیاتی ،بدکلامی ،اور سائبر
کرائم بھی جرم قرار دیا گیا ہے ،اس کے علاوہ تشدد کرنے والے مرد حضرات کو
سزا کے طور پر ’’دو دن‘‘ کے لئے گھر سے نکالا جائے گا ،تشدد کرنے والے
مردوں کو عدالتی حکم پر ’’ٹریکنگ کڑے‘‘ لگائے جائیں گئے اور اتارنے والوں
کو ایک سال قید یا پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں
سزائیں ہو سکتی ہیں ،متاثرہ خواتین کے لئے شلٹر ہومز بھی بنائے جائیں گئے
،جہاں ان خواتین کے لئے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا ،خواتین کی شکایات کے
ازالے کے لئے ٹول فری نمبر قائم کیا جائے گا جہاں کال کر کے خواتین اپنی
شکایات کی تحقیقات کے لئے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی ،جبکہ
مصالحت کے لئے بھی سنٹرز قائم کئے جائیں گئے ،گھریلو تشددکے مرتکب کسی شخص
کو آتشی ہتھیار یا اسلحہ سے دستبردار ہو نا ہو گا ،عبوری پوٹیکشن ،ریذیڈینس
مانیٹری آڈرز کی ایک سے زائد مرتبہ حکم عدولی پر دو سال تک قید یا پانچ
لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا،ڈسٹرکٹ پروٹیکشن افسر کو متاثرہ خاتون کی شکایت
پر گھر داخل ہونے کی اجازت ہو گی ،ملزم نان و نفقہ سے انکار کرے گا تو اسکی
تنخواہ سے کٹوتی ہو گی ،عدالت متاثرہ خاتون کے حق میں پوٹیکشن آرڈر جاری کر
سکتی ہے ،جس کے تحت تشدد کرنے والا اجازت کے ساتھ یا بغیر کوئی رابطہ نہیں
کر سکے گا اور اس سے فاصلے پر رہے گا جس کا تعین عدالت کر ے گی ،بل کے اندر
اس طرح کی اور جس طرح سے ہونا چائیے تھا بلکہ یوں کہیے کہ کسی بھی بل پر
نفاذ ہوا ہی نہیں ہے ایسے میں اس بل کا موثر انذاز میں عمل درآمد ہو سکے
گا۔۔۔۔؟ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے پر کسی بھی بل کے پاس ہونے پر خوشی کا
اظہار تو کیا جاتا ہے اس پر عمل درآمد کے بڑے بڑے دعوے محض دعوؤں کی حد تک
ہی رہتے ہیں ،نظر ڈالیں ہم خواتین کی صورتحال پر تو یہ بات سچ ہے کہ روشن
خیال اس معاشرے میں آج بھی عورت اپنے شوہر کے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہے
،یہ صورتحال دیہی علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں وہاں عورتوں کو اپنے مرد
وں کے ساتھ سخت سے سخت مشقت کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے شوہروں کے
مظالم سہتی ہیں ،ستم ظریفی یہ کہ آج عورت کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو اس
پر طعنے دئیے جاتے ہیں ،پسند کی شادی کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے
،عورتوں کے خلاف ظلم و ذیادتی کا دور کب ختم ہو گا ۔۔۔؟ کب ایک عورت آزاد
فضاؤں میں سانس لے سکے گی ۔۔۔؟ اور کب کوئی اس کو اس کا جائز حق اور مقام
دلائے گا۔۔۔؟ کوئی ہے جو ان سوالوں کا جواب دے سکے ۔۔۔؟ کیا مولانا فضل
الرحمان ،سراج الحق اور دیگر سیاستدان جو اس وقت اس قانون کی مخالفت پر کمر
بستہ ہیں کیا جواب دیں گئے۔۔۔؟شہری سطح پر پھر بھی صورتحال کچھ بہتر ہے
خواتین تھوڑی بہت باشعور ہیں اصل مسئلہ دیہی خواتین کا ہے ،معروف قانون دان
اور سیکرٹری بار چوہدری محمد اکرم ٹیپو کا کہنا ہے کہ دیہی خواتین ایسے
طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جو اپنے شوہروں سے مظالم تو سہتی ہیں لیکن ان کے
خلاف آوازاٹھانے کی جرات نہیں رکھتی ہیں ،ایسی خواتین کو باشعور بنانے کے
لئے آگاہی مہم کی ضرورت ہے اور ذرائع ابلاغ ،این جی اوز کو چائیے کہ وہ
خواتین کو اس قانون کے حوالے سے آگاہی دینے کے لئے بھرپور مہم چلائیں اور
انہیں ایجوکیٹ کریں کہ اس قانون کے تحت کس طرح وہ اپنے حقوق حاصل کر سکتی
ہیں ،اس قانون جو پنجاب اسمبلی نے بل پاس کیا اور گورنر پنجاب کے دستخط سے
قانون بن کر نافذ ہو چکا ہے میں سے کون سی شق غیر اسلامی ہے ۔۔۔؟ اس سلسلے
میں متعدد علمائے اکرام کے تبصروں اور موقف تک رسائی کی مقدور بھر کوشش کی
گئی لیکن یہ نہیں جان سکے کہ اس میں علماء کے نزدیک کون سی بات خلاف اسلام
ہے ۔۔۔؟ مولانا فضل الرحمن کی بلاغت اور حس مزاح کی داد تو دی جا سکتی ہے
لیکن ان کے بیانات سے بھی کوئی اس باب میں کوئی راہنمائی نہیں ملتی ہے
،ہمارے ہاں علماء یا مذہبی طبقے کا عمومی اسلوب کلام یہی رہا ہے کہ جو بات
ان کو پسند نہ ہو اسے وہ خلاف اسلام قرار دے دیتے ہیں ،پس منظر میں یہ
نفسیات کارفرما ہے کہ وہ اسلام کے اصل نمائندہ ہیں ،ان کی سوچ کا سانچا اس
طرح سے بنا ہے کہ وہ غیر اسلامی سوچ کے لئے غیر موزوں ہے ،جو خیال اس سانچے
میں ڈھل نہیں سکتا وہ لازما غیر اسلامی ہے ،یوں شاید غیر شعوری ظور پر مسلم
سماج میں بھی کلیسا کا ادارہ تشکیل پا گیا ہے ،دوراں حالیکہ ہمارا دعوی ہے
کہ اسلام میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ،علماء اور مذہبی طبقے کو یہ حق
ہے کہ وہ جس بات کو چائیں پسند کریں اور جس کو چائیں ناپسند ۔۔۔اس بات سے
اتفاق ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی اور یہ اختلاف لازم نہیں غیر اسلامی بھی
ہو۔۔۔َاسلام تو قرآن وسنت کانام ہے کسی قانون یا رائے کو خلاف اسلام قرار
دینے کے لئے لازم بتانا ہے کہ اس میں کون سی بات قراان پاک کے کسی نص کے
خلاف ہے یا رسالت مآب ﷺ سے متصادم ہے ،ہر شے اپنی حقیقت میں اسلامی ہے اگر
وہ خلاف اسلام نہیں ،کسی بات کے اسلامی ہونے کی مثبت دلیل کی ضرورت نہیں
البتہ خلاف اسلام ہونے کے لئے منفی دلیل کی ضرورت ہے ،مشال ک طور پر ٹریفک
کے قوانین کا قرآن وسنت میں کہیں ذکر نہیں کہ کہیں نہیں کہا گیا کہ سرخ بتی
پر رک جانا ہے ،اہم بات قرآن وسنت کی سکی ہدایت کے خلاف بھی نہیں ہے اس لئے
اسے اسلامی مانا جائے گا ،پنجاب اسمبلی کا بل جو اب قانون بن چکا ہے خلاف
اسلام نہیں ہے اگر اس میں کوئی شق اسلام کے کسی صریح حکم یا ہدایت سے
متصادم نہیں ہے ،اس بحث میں صوفی نوراحمد نور سے بات ہوئی تو ان کا کہنا
تھا کہ پنجاب کے اس قانون کو علماء اکرام خلاف اسلام قرار دے رہے ہیں لیکن
میرے علم کی ھد تک یہ نشان دہی نہیں کر پا رہے کہ کون سی شق یا کون سی بات
قراان پاک کی کسی آیت کے خلاف ہے یا رسالت مآب ﷺ کی سنت سے متصادم ہے ،جب
ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاتی اسے خلاف اسلام کہنا ایک جسارت ہے اور خود
کو شارع کے منصب پر فائز کرتا ہے ،اس قانون کی بحث میں ایک اور سوال بھی
اہم ہے کہ خاندان کے نظام میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حریف ہیں یا
معاون ۔۔۔؟ انہوں نے ایک دوسرے سے اپنے حقوق کو چھیننا ہے یا خاندان کی
سلامتی اور پائیداری کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے ۔۔۔؟ قراان پاک نے
ازواجی رشتے کی اساس مودت اور رحمت بتائی ہے دونوں کا ناگزیر نتیجہ ایثار
ہے ،آپ جس سے مھبت کرتے ہیں اس کے لئے اپنی جان بھی دینے پر آمادہ ہو جاتے
ہیں آپ محبوب کی پسند اور نا پسند پو اپنی پسند پر ترجیح دیتے ہیں اس کی
خوشی کے لئے اپنی تمناؤں کو تج دیتے ہیں اور اس میں تکدر نہیں لذت محسوس
کرتے ہیں ،جو رشتہ اس بنیاد پر قائم ہو تا ہے اس میں حقو ق کی بات بے معنی
ہو جاتی ہے ،قراان پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ’’عورت مرد کا لباس ہے
اور مرد عورت کا لباس ہے ‘‘جو گھر اس اساس پر کھرا ہو گا وہاں تشدد کا کوئی
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تاہم اختلاف ہو سکتا ہے ،مگر اس کے بھی آداب ہیں
،اگر اختلا ف کی نوعیت یہ ہے کہ خاتون خاندان کے نظم کو چیلنج کر دے
اورفساد کا مکان پیدا ہو جائے تو پھر اسلام کا حکم ہے کہ مرد معاملات کو
پانے ہاتھ میں لے لے ۔وہ پہلے مرحلے پر خاتون کو نصیحت کرے،اگر کارگر نہ ہو
تو پھر اظہار بارضگی کرتہ ہوئے اپنا بستر الگ کر لے ،اگر یہ بھی تدبیر
ناکام ہو جائے تو پھر وہ خاتون کو ضرب لگا سکتا ہے یہ سب باتیں سور نساء
میں بیان ہو ھئی ہیں ،ضرب لگانا سے مراد اس کو ایذ اپہنچانا نہیں محض تنبیہ
ہے ،رسالت مآب ﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الووداع میں خود اس کی وضاحت فرمائی کہ
یہ’’ضربا غیر مبرح‘‘ ہو ۔قدیم مفسرین مین سے کسی نے اس کی تعبیر مسواک
مارنا بیان کی ہے ،کسی کا خیال ہے کہ رومال یا کپڑے سے مارنا ہے ،قراان پاک
و حدیث میں بالکل واضح ہے کہ ازواجی تعلق میں ’’تشدد‘‘ کا کوئی گزر نہیں
،جو اس کا رتکاب کرتا ہے وہ بلاشبہ خلاف اسلام حرکت کا مرتکب ہوتا ہے
،کیونکہ یہ ماخذ دین سے متصادم رویہ ہے ،رسالت مآب ﷺ کا معاملہ تو یہ تھا
کہ ایک بار ایک صحابیہ نے آپ سے مشورہ کیا کہ فلاں ساحب کی طرف سے نکاح کا
پیغام اایا ہے مجھے کیا فیصلہ کرنا چائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’وہ تو ڈانڈا
اپنے کندھے سے نہیں اتارتا (مسلم) یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے خاتون
کو کیا مشورہ دیا ،آپ ﷺ کے ہر ارشاد کرامی کی طرح آپ کا یہ جملہ بھی آب زر
سے لکھنے کے قابل ہے کہ ’’ یہ کوئی اچھا رویہ نہیں ہے کہ ایک ہاتھ میں کوڑا
اٹھا لو اور دوسرے وقت اسی کے ساتھ ہم بستر ہو جاؤ (بخاری ومسلم)آپ ﷺ کا
اپنا اسوہ یہ ہے کہ عمر بھر کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔۔۔۔۔پنجاب حکومت
کا یہ نیا قانون خواتین کے تحفظ کے لئے اہم ترین قدم ہے اور اس قانون کو
وزیر اعلی پنجاب نے خواتین کی ترقی سے منسوب کر کے ناقدین کے منہ بند کر
دئے ہیں ،پنجاب حکومت کا یہ کارنامہ دیگر انسانیت کے لئے بنائے گئے قوانین
جس میں خاتون کے لئے ناجائز حراساں کرنا ،وراثت میں حصہ نہ دینا اور ملازمت
پیشہ خواتین کو تحفظ دینے سے متعلق قوانین بنائے گئے ہیں ،اس سے خواتین میں
جذبہ پیدا ہو گا اور وہ اپنے حق کے لئے کھڑے ہوں گی،جبکہ دوسری طرف مودت
اور عحمت کی اساس پر قائم یہ رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے اس میں ایثار ہے حقوق کا
تصادم نہیں ہمارے ہاں اپنے حقوق کی جنگ مغرب کے زیر اثر نہ بنائی جائے اور
متنازعہ بیانات سے خواتین کے حقوق کے علم برداران نے شوہر اور بیوی کے تعلق
کو حریفانہ کشمکش میں بدل دیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل
کاکھڑا کیا ہے ۔۔۔۔۔امیر جماعت اسلامی اور سینٹر سراج الحقنے بھی خواتین کے
اس نئے قانون کو مسترد کر دیا ہے کہ اس سے خاندانی نظام پر قدغن لگانے کے
مترادف ہے اس سے ماں ،بہن شوہر کے مابین عزت و احترام کے رشتے متاثر ہوں
گئے مغربی ممالک یو چاہتے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام اور تہذیب و تمدن
متاثر ہو ۔۔۔۔متحرم سراج الحق صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ قانون شوہر
اور بیوی کو حریف فرض کر کے بنایا گیا ہے سادہ سی بات ہے کہ اگر خاوند اپنی
بیوی پر تشدد کرتا ہے یا بیوی شوہر کو پولیس کے ہاتھوں کڑے پہنائے گی تو
پھر کون سی مودت اور کون سی رحمت باقی رہے گی۔۔۔۔؟ سماج میں خواتین کے خلاف
تشدد کے لئے قانون سازی لازم ہے اور ریاست اس بارے میں سخت قدم اٹھا سکتی
ہے تاہم اس کے لئے لازم ہے کہ معاشرتی اور سماجی پس منظر کو پیش نظر رکھا
جائے اور اس قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے ،معاشرتی حالات سے لاتعلق
قانون کی کتابوں میں بند رہ جاتے ہیں اور معاشرہ کسی اور طرف نکل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|