۸ مارچ کو خصوصا اور وقتا فوقتاً عموماً
عورتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ اگرچہ نام تو’’عورتوں کے حقوق‘‘
کا ہی لیا جاتا ہے مگر اس کے پس پردہ وہ خطرناک عزائم ہیں یورپ جنھیں مشرقی
دنیا میں خاص طور پر اسلامی مملک میں پروان چڑھانا چاہتا ہے اگر ہم اس دن
کے مطالبات ، طریقہ کار، جلسے، جلوسوں اور مختلف پروگراموں کا بغور جائزہ
لیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہماری عورتوں کو بہت بڑا دھوکہ دینے کی
کوشش کی جارہی ہے اور انھیں غلاظت کے اس گڑھے میں اتارنے کی سعی کی جارہی
ہے جہاں سے مغربی عورت کا نکلنا محال ہو چکا ہے۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں عورتوں کے حقیقی مسائل سے قطع
نظر مغرب کی نقالی کی کوشش کر رہی ہیں وہ پاکستان عورتوں کو اس بربادی میں
اتارنا چاہتی ہیں جس میں یورپ سر تا پاؤں دھنس چکا ہے۔ یورپی معاشرہ کو اس
تحریک نے کوئی فائدہ تونہیں پہنچایا البتہ وہاں کے خاندانی نظام کو تباہی
وبربادی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ اس لیے تو ۱۹۷۳ء میں امریکہ میں ہی اس
تحریک کی زبردست مخالفت شروع ہو گئی تھی۔ اہل مغرب نے جب ایسے معاشرہ میں
ناجائز بچوں کا سیلاب امڈتے اور گھروں کا سکون برباد ہوتے دیکھا تو خود ہی
مزاحمت کرنے لگے۔ مگر افسوس کہ آج ہماری بعض نام نہاد ترقی یافتہ بیگمات
پاکستانی ماؤں، بہنو کو وہ میٹھا زہر دینے کی کوشش کر رہی ہیں جو ان کے لیے
جان لیوا ثابت ہو گا۔
خاندان نظام کی تباہی اور شادی کی ضرورت کا خاتمہ، تحریک نسواں کے بنیادی
اہداف میں شامل رہا ہے۔ میری وولسٹن کرافٹ سے لے کر آج تک اس تحریک کی
علمبردار تمام عورتوں نے خاندان کو اپنی جاحانہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
چونکہ خاندان بطور ادارے کے مردوزن کے آزادانہ اختلاط اور جنسی بے راہ روی
کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ اسی لیے خاندانی ادارے کو اس تحریک کے
علمبردار راستے کا پتھر سمجھتے ہیں۔ درج ذیل سطور میں پیش کردہ تحریک نسواں
کی پرجوش مبلغات کے خیالات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ میری وولسٹن کرافٹ کے بعد جس خاتون نے شادی کے ادارے پر حملہ کیا وہ
جارج سینڈ (۱۸۷۶ء۔۱۹۰۴ء) تھی۔ یہ خاتون انتہائی درجہ میں اعصابی اختلاج کا
شکار تھی۔ اس کی زندگی کا اسٹائل مردوں سے مشابہت رکھتا تھا۔ شادی کے ادارے
کے متعلق اس کا کہنا ہے:’’ میرے اس یقین میں کبھی کمی نہیں آئے گی کہ شادی
کا دارہ سب سے زیادہ قابل نفرت ادارہ ہے، مجھے ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ جب
نوع انسانی عقل کی طرف سفر کرے گی تو شادی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔‘‘
۲۔ انیسویں صدی کے وسط میں مسز ایبی۔ ایچ پرائس کا اس تحریک کے حوالے سے
خاصا چرچا رہا۔ یہی موصوفہ تھی جو ۱۸۴۸ء کے عورتوں کے کنونشن کی روح رواں
تھی۔ اس نے مذکورہ کنونشن میں مطالبہ کیا کہ ’’عورتوں کو ملازمتیں دی جائیں
تا کہ وہ شادی کی جھنجھٹ اورمعاشی انحصار سے اپنے آپ کو آزاد کر سکیں۔‘‘
۳۔ ۱۸۹۳ء میں الیزا برٹ گیمبل نے ’’عورت کا ارتقاء‘‘ کے عنوان سے کتاب
تحریر کی۔ موصوفہ نے اپنی تخلیق کا نچوڑ بیان کیا کہ ’’شادی نے عورت کو
جنسی غلام بنا دیا ہے۔‘‘
۴۔ جان اسٹورٹ مل نے ’’عورتوں کی محکومیت‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ وہ حقوق
نسواں کا جذباتی پر چارک تھا۔ اس کا یہ قول زبان زد عام رہا: ’’شادی غلام
کی واحد صورت ہے جو اب تک ہمارے قانون کے تحت جائز ہے، نکاح کا بندھن
قانونی فحاشی کے مترادف ہے۔
۵۔ چارلٹ میگمن کا قول ہے: ’’عورت اور مرد کے درمیان شادی کے بغیر جنسی
تعلقات کو ہم بدکرداری نہیں سمجھتے۔‘‘
۶۔ ڈبلیو آئی جارج نے ۱۹۱۳ء میں ایک مضمون میں اعلان کیا: تحریک نسواں ک
اصل مقصد شادی کو ختم کرنا اور آزاد جنسی تعلقات کا قیام ہے۔
۷۔ میں غیر شادی شدہ اکیلی عورت کو قابل عزت سمجھتی ہوں۔ میری یہ پیش گوئی
ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب شادی کے بغیر زندگی گزارنے والی اکیلی عورت شادی
شدہ خواتین سے زیادہ قابل عزت سمجھی جائے گی۔(مسز سلیسا برلے)
تحریک نسواں کی فکری دیگ کے تو یہ محض چند چاول ہیں مگر ان سے یہ نتیجہ اخذ
کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ تحریک بنیادی طور پر جنسی آوارگی اورشادی کے نتیجہ
میں وجود میں آنے والے خاندانی نظام کو تباہی پر مبنی ہے۔
اہم مطالبات
۱۔ عورتوں کو ہر لحاظ سے مردوں کے مساوی حقوق دیے جائیں۔
۲۔ عورتوں کو گھروں میں قید کر کے نہ رکھا جائے۔
۳۔ اسلامی ممالک میں عورت کو پردے کی بے جا پابندی سے آزاد کیا جائے۔
۴۔ عورتوں اور مردوں کے لیے یکساں اخلاقی ضابطے مقرر کیے جائیں۔
۵۔ عورت کو گھر میں خاوند کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال سے آزاد کر دیا
جائے یا پھر اس کو اس کا معاوضہ دیا جائے۔
۶۔ شادی نے عورت کو جنسی غلام بنا دیا ہے لہٰذا عورت پر اس کی پابندی نہیں
ہونی چاہیے۔
۷۔ عورت کو طلاق کا حق تفویض کیا جائے۔
۸۔ اگر شوہر بیوی سے حقوق زوجین پورا کرنے کے لیے اصرار کرے تو اس پر زنا
بالجبر کا مقدمہ درج کیا جس کی کم سے کم سزا عمر قید ہو۔
۹۔ خاندان کے موجودہ ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے کیونکہ یہ عورتوں کے استحصال
کا ذریعہ ہے۔
۱۰۔ شادی کا خاتمہ اور آزاد جنسی تعلقات کا فروغ
۱۱۔ پاکستان سے حدود آرڈیننس کا خاتمہ
اہم مقاصد
خواتین کے عالمی دن کو جس انداز سے منایا جاتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس
تحریک سے مندرجہ ذیل مقاصد حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔
۱۔ اسلامی اقدار کی پامالی
۲۔نکاح کی حوصلہ شکنی اور جنسی آزادی کا فروغ
۳۔ خاندانی نظام کی تباہی
۴۔ پردہ کا خاتمہ
۵۔ عورتوں کی بے راہ روی
یہ ہے ۸ مارچ خواتین کا عالمی دن
کیا اسلام نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا؟
اسلام آفاقی دین اور فطرت کے عین مطابق آسمانی شریعت ہے۔ جس میں کسی قسم کی
خامی کا تصور بھی نہیں ہے اس کے قوانین پروردگار عالم کی طرف سے نازل کردہ
ہیں جو ہر لحاظ سے مرد اور عورت کے لیے یکساں مفید اور ان کی فلاح وبہبود
کے لیے یکساں فائدہ مند ہیں اور ان میں ترمیم کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں
ہے۔اسلام نے جہاں مردوں کو کچھ حقوق ادا کیے ہیں وہاں عورتوں کو بھی بے
مثال اور قابل رشک حقوق سے نوازا ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
۱۔ وہ حقوق جو مرد اور عورت کے لیے مساوی ہیں۔
۲۔ وہ حقوق جن میں عورت کو مرد پر برتری حاصل ہے۔
۳۔ وہ حقوق جن میں مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے۔
مردوزن کے مساوی حقوق
اسلام نے مرد اور عورت کے لیے جن حقوق میں مساوات کا اعلان کیا ان کی تفصیل
کچھ یوں ہے۔
۱۔نیک اعمال اور ان کے اجر وثواب کا حق:
اﷲ تعالیٰ نے بلا تخصیص ہر مرد وعورت کو یہ خوشخبری سنائی کہ جو نیک اعمال
کا اہتمام کرے گا وہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث ٹھہرے گا۔ فرمایا:
’’جس نے کوئی نیک عمل کیا (وہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے
ضرور پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور جو اعمال وہ کرتے تھے ان کا اجر اس سے
بہتر بہتر دیں گے۔‘‘(النحل:۹۷)
۲۔ خانگی زندگی کے حقوق:
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کا اعلان فرمایا کہ خانگی زندگی میں
عورتوں کو بھی ایسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسا کہ مرد کو ہیں ارشاد ہے:
’’ان عورتوں کو بھی ایسے ہی حقوق ہیں جیسے کہ ان پر مردوں کے حقوق ہیں۔‘‘
(البقرۃ:۲۲۸)
۳۔ ملکیت اور میراث کا حق:
یہودی مذہب عورت وارث نہیں بن سکتی چاہے وہ میت کی ماں، بیٹی ، بہن یا بیوی
ہی کیوں نہ ہو۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭ اگر باپ فوت ہو جائے تو اس کے وارث صرف بیٹے ہی ہوں گے۔(الاحکام الشریعہ
۱۸۷/۲)
٭ اگربیٹی شرعی وارثوں میں موجود ہوتو وہ صرف نان ونفقہ کی مستحق ہو گی وہ
بھی بلوغت تک اور شادی کرنے کی صورت میں وہ باپ کی جائیداد میں سے شادی کے
اخراجات کی ہی مستحق ہو گی۔ (الاحکام الترغیب ۱۴۵/۳)
٭ اگر کسی عورت کا بیٹا یا بیٹی فوت ہو جائے تو ان کی ماں اپنی اولاد کی
جائیداد کی وارث نہیں ہوگی۔ (المقارنات المقابلات :۲۳۶)
٭ اگرخاوند پہلے فوت ہوجائے تو بیوی اپنے متوفی خاوند کی جائیداد میں وارث
نہیں بن سکتی۔
مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب ان میں کوئی فوت ہوتا تو چھوٹی اولاد اور
عورتوں کو وراثت سے محروم کر دیتے تھے صرف اس لیے کہ وہ جنگ میں حصہ نہیں
لیتے تھے ان کا معروف قول یہ تھا:
لا یرث إلا من قاتل علی ظہور الخیل ۔
کوئی بھی ورثہ حاصل نہیں کر سکتا مگر وہ جو گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر جنگ
لڑتا ہے۔‘‘
اسی طرح ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں یہ اعلان واضح طور پر لکھا گیا تھا:
’’لڑکی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں‘‘ (کتاب منو:۱۹۹/۱)
جبکہ اسلام نے عورتوں کو ملکیت اور وراثت کا حق عطا کیا۔ اﷲ تعالیٰ کا
ارشاد ہے:
’’جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ کر مریں، تھوڑا ہو یا بہت، اس میں
مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی،‘‘(النساء:۷)
۴۔ سماجی حقوق:
اسلام نے عورتوں کو مردوں کی طرح معاشرہ کا باعزت اور قابل احترام شہری
قرار دیا۔
اسلام نے قبل عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتا تھا انھیں تیسرے درجے کی
مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور دیگر مذاہب میں عورت کو
انسان نہیں سمجھا جا تا تھا۔
یہودیوں کے ہاں یہ نظریہ تھا:
’’حوا نے آدم کو اﷲ تعالیٰ کی حکم عدولی پر اکسایا لہٰذا وہ مکار بدنیت اور
نسل انسانی کی دشمن ہے۔‘‘(پیدائش)
عیسائیوں کے ہاں عورت کا معاشرتی مقام یہ تھا کہ ’عورت شیطان کے آنے کا
راستہ ہے…… وہ آدم کو شجرہ ممنوعہ کی طرف لے جانے والی، اﷲ کا قانون توڑنے
والی اور مرد کی غارت گری کرنے والی ہے حالانکہ مرد اﷲ کی تصویر تھا۔
(Terlulionشارح انجیل)
ہندوؤں کا معروف عقیدہ ہے کہ عورت کی کوئی جداگانہ حیثیت نہیں وہ صرف پاؤں
کی جوتی ہے جب تک گھس گھس کر ختم نہ ہوجائے اسے پاؤں میں ہی رکھو۔ خاوند
مرجائے تو اسے بھی ساتھ ہی جلا ڈالو، اس کی اخروی نجات کا دار ومدار صرف
اور صرف خاوند ہے۔
کیا عورت بھول چکی ہے کہ امریکہ میں عورت کو ذبح کیا جاتا تھا او راس کے
سینہ کو کاٹ پھینکا جاتا تھا۔ ازبک باشندے ہر سال ایک خاص موسم میں نوجوان
لڑکی کا سر کاٹا کرتے تھے تا کہ فصل اچھی ہو اور دوسرے موسم میں بڑھا کو
قربان کیا جاتا تھا تاکہ اس کی چمڑی سے قبیلہ کا کاہن اپنے جادو کی تکمیل
کر سکے۔ یونانی کہا کرتے تھے عورت کے خوبصورت چہرے کے پیچھے نحوست چھپی ہے
اور اس کی جبلت ہی برائی پر ہوتی ہے۔ ہالینڈ میں یہ قانون معروف تھا کہ
شوہر بیوی کو جس طرح چاہے مار پیٹ سکتا ہے اور وہ اسے مار مار کر اسے کے
قدم خون سے بھر دے تو بھی کوئی جرم والی بات نہیں۔
ان کے برعکس اسلام نے عورت کو معاشرے کا معزز ترین فرد قرار دیا ہے بلکہ اس
کو دنیا میں مرد کے لیے بہترین ساتھی زندگی کی پہلی عمدہ شے اور مرد پر اﷲ
تعالیٰ کی بڑی نعمت قرار دیا ہے۔
فرمایا: ’’ دنیا سامان زینت ہے اوراس کا بہترین سامان صالح عورت ہے۔‘‘
(مسلم :۱۴۶۹)
اورسماجی حقوق دیتے ہوئے فرمایا:’’لوگوں سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے
پیش آؤ…… تمھیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حق نہیں سوائے اس صصورت
کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے۔‘‘ (ترمذی :۱۱۶۳)
رسول اﷲؐ نے عورت کے بارے میں بہت سی ہدایت دی ہیں جن میں ایک یہ ہے :
’’کامل مومن وہ ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے
وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں۔‘‘
(ترمذی :۱۱۶۲)
۵۔ حصول انصاف کا حق:
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی یہ حق دیا ہے کہ وہ نا انصافی ، ظلم
اور عدم تحفظ کی صورت میں حصول انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں
اور یہ کہ اسلامی عدالت پر لازمی ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو
بھی تحفظ فراہم کریں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے، اﷲ کے لیے گواہی دینے والے
ہوجاؤ، اگرچہ خود تمھارے خلاف یا ماں باپ ، قرابت داروں کے خلاف ہو، چاہے
کوئی مالدار ہو یا فقیر (بہر حال) اﷲ تعالیٰ دونوں کا خیرخواہ
ہے۔‘‘(النساء: ۱۳۵)
۶۔ حصول تعلیم کا حق:
دین اسلام نے مرداور عورت دونوں کویکساں حق دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تعلیم
کے زیور سے آراستہ کریں بشرطیکہ وہ تعلیم وتربیت عورتوں کی اخلاقی تعمیر
میں معاون ہو اور دینی رجحان کو پختہ کرنے اور مثبت وتعمیری فکر اجاگر کرنے
میں مددگار ہو۔
ام المؤمنین عائشہ ؓ نے فرمایا:’’ انصار کی عورتیں بہت اچھی ہیں کہ دین کی
سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے ان کو حیا منع نہیں کرتی ۔‘‘(بخاری، کتاب العلم
تعلیقاً)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا ہے مگر
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس تعلیم کا؟ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو ان الفاظ
میں ذکر کیا :
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے اس سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
۷۔یکساں توجہ کا حق:
اولاد مذکر ہو یا مؤنث ان کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک کریں نبی کریمؐنے
فرمایا:
’’ وہ شخص جس نے اپنی بیٹی کو نہ تو زندہ درگور کیا اور نہ اس کو حقیر جانا
اور نہ ہی بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی اﷲ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے
گا۔‘‘
(ابوداود: ۵۱۴۶سندہ صحیح)
ایک اور روایت میں فرمایا:’اﷲ سے ڈرو اور اپنے بچوں میں عدل ومساوات کا
معاملہ کرو۔‘‘ (بخاری:۲۵۸۷)
وہ حقوق جن میں عورتوں کو مرد پر برتری حاصل ہے:
شاید اس بات سے بعض لوگ متفق نہ ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عورت
کو بعض ایسے حقوق عطا فرمائے ہیں جن میں اسے مرد پر برتری حاصل ہے۔ جن میں
سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔قدموں تلے جنت کا حق:
پروردگار عالم نے سرورکونینؐ کی زبان اطہر سے یہ مہکتا ہوا اعلان جاری
کروایا کہ:’’جنت اس( ماں) کے قدموں تلے ہے۔‘‘
ترمذی، (۲۷۸۱) وابن ماجہ (۲۷۸۱)
میرے خالق نے ماں کو ایسا مقام دیا
جنت کو ماں کے قدموں میں رکھ دیا
۲۔ ماں اور حق خدمت
حق خدمت کے سلسلہ میں ماں کو باپ پر برتری عطا کی؟صحابی رسول معاویہ بن
حیدہt کہتے ہیں میں حاضر ہوااور عرض کیا :
اﷲ کے رسول! نیکی کا زیادہ حقدار کون ہے؟
آپ ؐنے فرمایا: َ ’’تمھاری ماں‘‘
صحابی نے پھر عرض کیا:
’’پھر کون‘‘
آپ ؐنے پھر فرمایا:
’’تمھاری ماں‘‘
صحابی نے پھر عرض کیا:
’’پھر کون‘‘
آپ ؓنے فرمایا: ’’تمھاری والدمہ محترمہ ‘
صحابی رسول نے پھر ہمت کر کے پوچھ لیا اس کے بعد تو آپ نے فرمایا:
تمھارا باپ ۔ الترمذی، البر والصلۃ: ۱۸۹۷وأبوداود: ۵۳۳۹۔
۳۔ خالہ بمنزلہ ماں سمجھنے کا حق:
اگر کوئی انسان والدہ کی نعمت سے محروم ہوجائے اور ماں کی پر بہار عاطفت کا
سایہ اس کے سر سے ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے تو نبی کریم ؐنے خالہ کے ساتھ حسن
سلوک اوراس کی خدمت کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ ماں کے قائم مقام ہے۔
حضرت ابن عمرؓسے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲؐکے پاس ایک آدمی آیا
اور عرض کیا اے اﷲ کے رسول! بلاشبہ میں ایک بہت بڑاگناہ کر بیٹھا ہوں تو
کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ ؐنے فرمایا:
’’کیا تیری ماں زندہ ہے؟ (ایک روایت میں والدین کا ذکر ہے)
اس نے عرض کیا نہیں ، آپؐ نے دریافت کیا:
’’کیا تیری خالہ زندہ ہے اس نے کہا ہاں ،آپؐ نے فرمایا:
’’توپھر اس کے ساتھ نیکی کر( تیرہ گناہ معاف ہو جائے گا)۔‘‘
الترمذی ، الصلۃ(۱۹۰۴) صحیح ابن حبان (۴۳۶)
۴۔بیٹیوں اور بہنوں کی بہترین پرورش اور اسلامی تربیت
اسلام نے والدین اوربھائیوں کو اولاد اور بہنوں کی پرورش ، تعلیم وتربیت
اور ان کو دینی رجحانات کا حامل بنانے کا حکم دیا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓسے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایا:
’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دوبیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ
انکے ساتھ اچھا سلوک کر ے اور ان کے حقوق ادا کرنے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا
ہے تو اس کے لیے جنت ہے۔
الترمذی، البر والصلۃ (۱۹۱۶) وصحیح الترغیب (۱۹۷۳) |