وال آف کائنڈنیس (دیوار مہربانی)

کہتے ہیں جب انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی تحریک جنم لیتی ہے تو اس کو کامیاب کرنے کیلئے کافی ساری محنت اور ڈھیر سارا وقت درکار ہوتا ہے لیکن گزشتہ سال ایران کے شہرس مشہد میں غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک ایسی تحریک کا وجود منظر عام پر آیا جس نے بہت ہی کم وقت میں اپنی مہربانیوں کو سرحد پار پہنچا دیا اس تحریک کو وال آف کا ئنڈنیس (دیوار مہربانی) کا نام دیا گیا اس تحریک کا مقصدغریبوں کی ضروریات زندگی پوری کرنا تھا جبکہ اس تحریک کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کیونکہ غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کئی این جی اوز،ویلفیر و دیگر کئی فلاحی تنظیمیں روز بروز جنم لے رہی ہے لیکن ان ویلفیرز میں اکثر تنظیمیں مستحق اور اصل حقدار تک ان کا حق نہیں پہنچاتی اور سارا مال خود ہڑپ کر کے چپ سادھ لیتی ہے اور یوں ہی مستحق افراد دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں -

انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے دیوار مہربانی کے بانی نے مقامی ایرانی اخبار کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں گمنامی کو پسند کرتا ہوں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے نام کی تشہیر ہوں ایرانی اخبار کے مطابق گزشتہ سال کی ایک صبح مشہد شہر کی ایک دیوار پر ’’نیاز ندارد بدار‘‘نیاز دارد برادر ‘‘ (یعنی ضرورت نہیں ہے تو چھوڑ جائیے،ہے تو لے جائیے)درج تھی اور ان کے ساتھ ہی چند عدد کھونٹیاں لگی،ٹانگی گئی تھی جن پر چند کوٹ ،پتلون اور گرم کپڑے لٹکے ہوئے تھے جبکہ جلد ہی ان میں اضافہ ہوتا رہا اور غریب عوام ان اشیاء سے مستفید ہوتی رہی ــــــسوشل میڈیا پر ان تصاویر کے آنے سے کھلبلی سی مچ گئی اور عوام کی طرف سے دیوار مہربانی کو کافی پذیرائی ملی، ایرانی نوجوان کے اس عمل نے ہر شخص کے اندر سوئے ہوئے جذبے کو جگا دیا اور یوں ہی دیوار مہربانی کی مہربانیوں کے تذکرے شہر شہر،ملک ملک ہونے لگے اور یوں ہی ایران سے دیوار مہربانی کا سلسلہ چلتے ہوئے سرحد پار پاکستان کے مختلف شہروں تک جا پہنچا ہے ایران اور پاکستان کے مختلف شہروں میں واقع دیوار مہربانی سے متاثر ہو کر ڈیرہ اسماعیل خان کے چندبا ہمت نوجوانوں نے ڈیرہ اسماعیل خان شہر گومل میڈیکل کالج کے قریب ایک دیوار کو وال آف کائنڈنیس (دیوار مہربانی)میں تبدیل کر دیا ان نوجوانوں کی طرف سے کیا جانے والا یہ اقدام جہاں پورے شہر کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث بناوہاں غرباء کیلئے بھی امید کا نیا پیغام لایا ڈیرہ اسماعیل خان کے ان عظیم نوجوانوں اپنی مدد آپ کے تحت غریبوں کی مدد کا اظہار کیا ڈیرہ اسماعیل خان کی (دیوار مہربانی)سے کئی غرباء خریداری کی سکت نہ رکھنے والے لوگ مستفید ہو رہے ہیں حالیہ دنوں ایران سے لیا گیا غریبوں کی مدد کا یہ تصور اس قدر مقبقل ہوا کہ دیوار مہربانی کی تعریف کرتے نہیں تھکتا ،دیوار مہربانی جس میں صاحب استطاعت لوگ اپنے فالتو کپڑے ،جوتے،کوٹ ،کتابیں ودیگر ضروریات زندگی کی اشیاء دیوار مہربانی پر چھوڑ جاتے اور جو لوگ کپڑے ،جوتے اور دیگر ضروریات زندگی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ دیوار مہربانی پر جا کر اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے،جوتے،کتابیں و دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء لے سکتے ہیں -

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کچھ حیران کن مہربانی سے مزین مہربانیاں پڑھنے کو ملی کہ دیوار مہربانی کی طرح سعودی عرب میں ایک دکاندار نے اپنی دکان کے باہرایک ایسا فریج رکھا ہوا تھا جس میں لوگ اپنا بچا ہوا کھانا چھوڑ جاتے اور وہ لوگ جو کھانا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اس فریج سے کھانا لے لیتے تھے یہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر مد د کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے جس میں لینے والے ہاتھ کو دینے والے ہاتھ تک کا پتہ نہ چلتا اسطرح لاہور میں ایک ایسا سبزی فروش بھی ہے جو پوری رات دکان کھلی رکھتا ہے اور ہر کسی کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دکان سے ضرورت کے مطابق سبزی لے سکتے ہیں بس بدلے میں وہ دکان کے کیش بکس میں اپنی مرضی سے رقم ڈال دے تاکہ اگلے دن کیلئے سبزی خریدی جا سکے اس سبزی فروش کے اس عمل میں خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ خیرات کا جذبہ بھی کار فرما ہے ان سب مثالوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت سارے اچھے لوگ موجود ہے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے بغیر کسی معاوضے کے کام کر رہے ہیں اور انسانیت کی خدمت کیلئے آپ کا دولت مند ہعنا ضروری نہیں بلکہ دل کو وسیع کرناضروری ہے -

ایک فیس بک یوزر کے بقول اگر یہ تنظیمیں موئثر اور شفاف نہیں اسلئے تو لوگوں نے یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے یہ سب خیراتی و فلاحی کام ہمیں خود کرنے کی ضرورت ہے جتنی مہربانی کر سکتے ہیں کر لے اور دیوار مہربانی کا یہ عظیم قدم تمام ممالک میں پھیلے گا اور اپنی تمام مہربانیاں غرباء پر نچھاور کرے گا ۔۔ اگر ہم اپنے آس پاس کے معاشرہ پر نظر ڈالے تو ہمیں غربت کی چکی میں پستے کئی لوگ نظر آئے گے کسی کے پاس پہننے کو لباس نہیں ہے، تو کسی کے پاس کھانے کو سوکھی روٹی نہیں، لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اگر کوئی غریب اپنے بیٹے کو تعلیم دلوانے کی خواہش رکھتا ہے لیکن وہ اپنہ خواہش اسلیئے پوری نہیں کر سکتا کہ اس میں اپنے بیٹے کی تعلیم و کتابوں کے اخراجات پوری کرنے کی سکت نہیں ،اور آج ایک بوڑھا اسلئے پریشان ہے کہ اس کی جوان بیٹی گھر بیٹھے اپنے بال سفید کر رہی ہے اور اس سے کوئی شادی اسلئے نہیں کرتا کہ بوڑھے باپ کے کندھوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنی جوان بیٹی کا جہیز خریدنے کیلئے مزدوری کر سکے ایسے ڈھیر سارے واقعات ہمیں اپنے معاشرے میں سننے کو ملتے ہیں لیکن ہم بھی بے حسی پر تلے ہوئے ہے کبھی بھی نہیں سوچا اپنے پڑوسیوں کے بارے میں ،اہل محلہ و علاقہ کے بارے میں ۔۔۔اگر آپ پیٹ بھر کر کھانا کھا سوتے ہیں اور آپکا پڑوسی بھوکا سو گیا تو اس کی بھی پوچھ گچھ آپ ہی سے ہو گی اگر جہاں ہم اپنے آپ کے لئے اچھا سوچتے ہیں تو وہاں ان غرباء کے لئے بھی اچھا سوچے تو پھر زندگی جینے کا مزہ ہی کچھ نرالا ہے آخر میں ،میں ان عظیم نوجوانوں کی اس عظیم کاوش کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنا دن رات ایک کر کے غریب کی فلاح و بہبود کیلئے صرف کیا -

آخر میں آپ سب قارئین سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اگر آپ کے شہر میں دیوار مہربانی موجود ہو یا نہ ہو آپ غریبوں پر اپنا کرم کرتے رہے آپ کے پاس فالتو کپڑے،جوتے،کتابیں و دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء ہے تو اس کو کسی غریب ،ضرورت مند تک ضرور پہنچائے اور انشاء اﷲ، اﷲ تعالی آپ کو اس کا نعم البدل ضرور عطا فرمائے گے کیونکہ دوسروں کے ساتھ بھلائی درحقیقت اپنے ساتھ بھلائی ہے۔
Muhammad Muaaz
About the Author: Muhammad Muaaz Read More Articles by Muhammad Muaaz: 19 Articles with 17202 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.