نجی تعلیمی اداروں کے بارے میں ترمیمی بل
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے، چونکہ
عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی کا فریضہ ریاست کے سر ہوتا ہے، اس لئے یہ
ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کی جس طرح جان ،مال، صحت وغیرہ کی
ذمہ دار ہے، اسی طرح تعلیم بھی اسی کے ذمے ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں
ایسے نہیں۔ تیس چالیس برس قبل تک پاکستان میں تعلیم جو کچھ بھی تھی، وہ
حکومت کے ہاتھ میں تھی، سرکاری سکول ہی ہوتے تھے ، وہاں خواہ ضروری سہولتیں
ہوں یا ان کا فقدان ہو، سکول چلتے تھے ، کسی سکول میں چار دیواری نہیں تو
کسی میں فرنیچر کا تصور نہیں، حتیٰ کہ کسی میں کمرے تک نہیں، درختوں کے
نیچے گھر سے لایا ہوا تھیلا بچھا کر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ طلبہ و
طالبات کی تعداد بھی معقول ہوتی تھی۔ (موجودہ سرکاری ملازمت کے آخری عشرے
کے زیادہ تر لوگ ٹاٹ سکولوں کے تعلیم یافتہ ہیں) استاد بھی محنت کرتے تھے،
کسی حد تک علم بھی ہوتا تھا اور نتائج بھی اب سے بہتر تھے۔ سرکاری سکولوں
کی مانیٹرنگ بھی بہت بہتر تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ معاملہ کمزور ہوتا
گیا، لوگوں میں آگاہی پیدا ہوتی گئی، آبادی بھی بڑھتی گئی، سکولوں کا معیار
کم ہوتا گیا، یوں سرکاری سکول کم پڑتے گئے۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے نجی
سکولوں کا رجحان فروغ پذیر ہوا۔ اگرچہ نجی سکول اس سے قبل بھی موجود تھے،
مگر بھٹو سرکار نے نجی سکولوں کو قومیا لیا تھا، جس کی بنا پر نئے سکول
بنانے والے خوفزدہ بھی تھے اور سابق سکول مالکان مایوس بھی۔ مگر حکومتوں کی
مسلسل عدم توجہی کی وجہ سے سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد اٹھتا چلا گیا
، آبادی اور کمزوری کے اس خلا کو پر کرنے کے لئے نجی سکول سامنے آتے گئے۔
نجی سکولوں کا پھیلاؤ؛
نجی سکولوں کی ابتدا سے ہی کئی قسمیں ہیں، گلی محلے میں چند روپے فیس سے
سکول کھولے گئے، دوسری طرف سرمایہ دار بھی اس میدان میں کود پڑے اور بڑے
سکول معرض وجود میں آگئے، جنہوں نے بعد ازاں اپنی بے شمار برانچیں قائم
کرلیں اور اس وقت پاکستان میں سیکڑوں کی تعداد میں ان کی شاخیں موجود ہیں۔
اب بڑے پیمانے پر انفرادی نجی سکول قائم کرنا نہایت مشکل کام ہے، کیونکہ ہر
طرف فرنچائزز نے دھوم مچا رکھی ہے اور مارکیٹ پر قبضہ کررکھا ہے۔گزشتہ چند
سالوں میں بے شمار نئی فرنچائزز قائم ہوئی ہیں، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس
قسم کا سکول کھلتے ہی عوام دوسرے (انفرادی یا نسبتاً کمزور) سکولوں سے اپنے
بچے نکلواتے ہیں اور فرنچائز کے سکول میں جا داخل کرواتے ہیں۔عوام کی
دلچسپی کے پیشِ نظر اِن سکولوں نے عوام سے من مانی فیسیں وصول کرنے کا
بندوبست کیا، مختلف مدات میں فیس اکٹھی کرنے کی مہم شروع کی۔ حتیٰ کہ اب
بات لاکھوں روپے تک پہنچ چکی ہے، جس میں بہت بڑے سکولوں کی ڈونیشن فیس ہی
دسیوں ہزار ہے، ٹیوشن فیس کے علاوہ بھی بہت سے سلسلے ہیں جہاں سے رقم حاصل
کی جاتی ہے اور آخرمیں بھاری بھرکم بل والدین کے ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا
ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ والدین کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کس سکول
کی کتنی فیس ہے، وہ سوچ سمجھ کر ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں، اور اپنی مرضی سے
ہی بچے کو وہاں داخل کرواتے ہیں، مگر انہیں صدمہ اس وقت پہنچتا ہے جب آئے
روز ان کی فیسوں میں بغیر کسی پیشگی اطلاع یا بغیر ضرورت کے اضافہ ہوجاتا
ہے، یا فیس میں کوئی نئی مد شامل ہوجاتی ہے۔فرنچائزوں اور بہت بڑے سکولوں
کا عالم یہ ہے کہ وہ عالیشان عمارتوں میں قائم ہیں اور ان کی آمدنی کروڑوں
روپے ماہانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہی لوگوں اور اداروں کی دیکھا دیکھی اب
بہت سے پیسے والے لوگ اسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کے ترجیح دیتے ہیں،
وہ تعلیم کو عبادت جان کر نہیں، کاروبار سمجھ کر سکول بناتے اور بھاری
فیسیں وصول کرتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کا نیا ترمیمی بل؛
گزشتہ برس گرمیوں کی چھٹیوں کے موقع پر والدین نے نجی سکولوں کے خلاف اس
بات پر احتجاج کیا تھا کہ ان سکولوں کی فیسوں کو بے قابو ہونے سے روکا
جائے۔ جس پر عدالتِ عالیہ نے چھٹیوں کی فیس یکمشت لینے سے منع کردیا تھا،
اس موضوع پر بات ذیل کی سطور میں کریں گے، تاہم اس سال فروری میں نیا
تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل ہی پنجا ب اسمبلی نے نجی سکولوں کی فیسوں کے
حوالے سے متفقہ طور پر بل منظور کیا ہے، جس کے مطابق نجی سکول اپنی مرضی سے
فیس میں اضافہ نہیں کرسکیں گے، اس کے لئے انہیں رجسٹریشن اتھارٹی سے تین
ماہ قبل اجازت لینا ہوگی، اجازت کی صورت میں بھی وہ کل فیس میں پانچ فیصد
اضافہ کرسکیں گے، خلاف ورزی کرنے والے سکول کو 20ہزار یومیہ سے لے کر بیس
لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔ جس سکول نے گزشتہ برس سے زیادہ فیس وصول
کی اسے فیس ایڈجسٹ کرنا پڑے گی یا پھر واپس۔ داخلہ، سکیورٹی یا لیبارٹری
وغیرہ کی مد میں کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ سکول والدین کو کسی مخصوص
مقام سے یونیفارم، نصابی کتب یا دیگر مواد کے خریدنے کے لئے پابند نہیں
کرسکیں گے۔ سکول رجسٹر نہ کروانے کی صورت میں تین سے چالیس لاکھ روپے
جرمانہ اداکرنا پڑے گا۔
معاملہ رویے کا؛
نجی تعلیمی اداروں کی مخالفت میں پوری قوم متحد ہے، وزیراعظم سے لے کر ایک
ریڑھی والے تک نجی تعلیمی اداروں پر منفی تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں، ان کے
خلاف اظہارِ نفرت کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا جاتا۔ غم وغصے کی نوبت
یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ کبھی ٹھنڈے دل سے ان کے بارے میں سوچنے کا تصور
بھی پیدا نہیں ہوتا۔ لوٹ مار کا الزام ہر کسی کی زبان پر ہے۔ مگر یہ تصویر
کا ایک رخ ہے، کیونکہ ہم لوگ اونٹ اور بھیڑ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے
عادی ہوچکے ہیں۔ جن سکولوں کی فیسیں ڈالروں میں ہیں، یا جو لاکھوں روپے
سالانہ فیسیں لیتے ہیں، ہماری حکومتیں اور اسمبلیاں ان کا کچھ بھی نہیں
بگاڑتیں، کیونکہ اول تو وہ خود بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، یا پھر ممبران
اسمبلی پر بہت زیادہ اثرانداز ہیں،یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام بڑوں کے بچے بھی
بڑے سکولوں میں ہی پڑھتے ہیں۔ کونسا وزیر یا سیکریٹری یا کوئی ممبر اسمبلی
ہے جس کا بچہ کسی بڑے سکول میں نہیں پڑھتا۔ دراصل بڑے نام والے سکولوں میں
لوگ صرف نام کمانے کے لئے پڑھتے ہیں، کسی کی قسمت اچھی ہوئی تو وہ بازی لگا
لے گا اور پار اترنے میں کامیاب ہوجائے گا، ورنہ بہت سے ایسے ہوتے ہیں
جنہوں نے ملازمت تو کرنا نہیں، سٹیٹس کو کے چکر میں اعلیٰ سے اعلیٰ سکول
میں داخلہ لے کر سوسائٹی میں کالر اونچے کرکے دکھاتے پھرتے ہیں، کہ ہمارے
بچے فلاں سکول میں زیرتعلیم ہیں۔
بہت سے لوگ اس موازنے پر ناراض ہوجاتے ہیں کہ اگر کوئی امیر شخص کسی بہت
اچھے ہوٹل میں کھانا کھاتا ہے، کسی بہت اچھی مارکیٹ سے کپڑے خریدتا ہے،
جوتے ہمیشہ برانڈڈ پہنتا ہے، دیگر گارمنٹس اور خوشبوؤں کا انتخاب بھی غیر
ملکی اشیا میں سے کرتا ہے، سواری پچاس لاکھ سے زیادہ قیمت کی رکھتا ہے، گھر
پانچ کروڑ سے زیادہ مالیت کا پسند کرتا ہے، سال میں ایک دو مرتبہ بیرونی
ممالک کے دورے کرتا ہے، تو اسے کسی بھی موقع پر کسی بھی چیز کے مہنگے ہونے
کا گلہ نہیں ہوتا، نہ وہ دکاندار سے بحث کرتا ہے، نہ فائیو سٹار ہوٹل کی
انتظامیہ سے الجھتا ہے، نہ لاکھوں کی شاپنگ پر مہنگائی کو کوستا اور احتجاج
کرتا ہے۔ وہ یہ تمام کام سکول پہنچ کر ضرور کرتا ہے، وہ فیسوں پر احتجاج
کرتا ہے، کتابوں اور دیگر فنڈز پر اعتراض کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اوپر
بیان ہوچکی ہے کہ سکولوں والے بھی فیسیں اچانک اور اکثر بڑھا دیتے ہیں، جس
سے والدین کو فطری طور پر دھچکا لگتا ہے۔ دوسرا یہ کہ بہت سی فیسیں غیر
ضروری بھی ہوتی ہیں۔ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ اپنے ہاں ڈاکٹر بھی بہت
مہنگے ہیں، ہسپتال بھی حد سے زیادہ مہنگے ہیں، وہاں احتجاج نہیں ہوتا، بلکہ
لوگ شوق سے وہاں جاتے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر پر اعتماد ہوتا ہے۔ اس سارے تضاد
کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں سمجھتے۔
سکولوں کی کیٹیگری؛
اس قانون سازی میں ایک بڑا مسئلہ سکولوں کی کیٹیگری کا ہے، حکومت کا فرض ہے
کہ وہ تمام سکولوں کی کیٹیگری مقرر کرے۔ ایک ایسے سکول مالک سے میری بہت
پرانی شناسائی ہے جس کے سکول کی فیس ہزار بارہ سو ہے، ان کے لاکھوں روپے
والدین کی طرف بقایا جات ہیں، جب فیس کا تقاضا کیا جاتا ہے تو وہ اپنے بچے
کو کسی اور سکول میں داخل کروا لیتے ہیں، یوں اس فیس کے ساتھ بھی ان کا
گزارہ مشکل سے چل رہا ہے۔ دوسری طرف فیسوں کی ریکوری کا معاملہ بھی بہت
تکلیف دہ ہے کہ گزشتہ برس عدالت کے حکم پر گرمی کی چھٹیوں کی فیس یکمشت
لینے سے منع کردیا گیا، مگر والدین چھٹیوں میں ہر مہینے کی فیس کسی صورت
جمع نہیں کرواتے، زیادہ تر سکول کرائے کی عمارات میں قائم ہیں، سو انہیں
تین ماہ آمدنی نہیں ہوئی ، چھٹیوں میں والدین نے فیس جمع نہیں کروائی اور
چھٹیوں کے بعد یکمشت ان کے پاس تھی نہیں۔ اس سب کچھ کے ساتھ ستم یہ بھی
ہوتا ہے کہ والدین فیس کو ترجیح نہیں بناتے۔ پانچ سات سو روپے والے سکول
میں بھی فیسوں کی ادائیگی کا یہی عالم ہے، جب کہ والدین کے پاس اچھا موٹر
سائیکل اور ہاتھ میں ٹچ موبائل بھی ہوتا ہے، مگر چند سوروپے فیس دینے میں
وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں۔ نئے بل میں سکولوں کو لاکھوں روپے
جرمانہ کی باتیں بھی اس بات کی چغلی کھاتی ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے معزز
ارکان کی نگاہ صرف انہی سکولوں پر ہے جہاں خود اُن کے یا بیوروکریسی کے بچے
زیرتعلیم ہیں۔ وہ چونکہ بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، اس لئے جرمانے بھی
لاکھوں میں ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہی قانون گلی محلے کے سکول پر بھی لاگو
کیا جائے تو وہ اپنے اثاثے فروخت کرکے ہی یہ جرمانہ ادا کر سکے گا۔
سرکاری سکولوں کی نجکاری؛
پنجاب حکومت نے اپنے ایک ہزار پرائمری نجی شعبہ کو دے دیئے ہیں، یہ سکول
بنیادی طور پر تو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کئے گئے ہیں، جس نے آگے
سکول چینز، این جی اوز، فاؤنڈیشن پارٹنر سکولز اور بعض کو انفرادی طور پر
سکول الاٹ کردیئے ہیں، اب یہی لوگ سرکاری سکول چلائیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر
پرائمری اور ہائرسیکنڈری سکول نجی شعبہ کو دینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ وجہ
اس تبدیلی کی
یہ ہے کہ یہ سرکاری سکول اپنی فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے
تھے۔ دوسری طرف نجی شعبہ کے سکولوں کے لئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ قانون
تو اُن سکولوں کے لئے بن رہے ہیں، جن سے اشرافیہ پریشان ہیں، ستم یہ ہے کہ
وہ بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں اپنا نام پیدا کرنے کے لئے داخل کرواتے
ہیں، مگر اس طرح پھنس وہ سکول بھی جاتے ہیں، جو نہ تو ’’لوٹ مار‘‘ کے زمرے
میں آتے ہیں، اور نہ ہی ان کی فیسیں اتنی ہیں کہ وہ ’’مافیا‘‘ کہلا سکیں۔
دیگر قانونی پابندیاں؛
پنجاب اسمبلی کے نئے ترمیمی بل میں نجی سکولوں کو اس بات کا بھی پابند کیا
گیا ہے کہ وہ یونیفارم، نصابی کتب یا دیگر اشیاء کے لئے کسی خاص دکان کا
بندوبست نہ کریں۔ اس حقیقت سے بھی انکا ر ممکن نہیں کہ سکول مالکان مذکورہ
بالا دکانوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، بہت ہی کم ہونگے جو ایسا نہیں
کرتے۔ مگر یہ حقیقت بھی غور کے قابل ہے کہ اگر ان چیزوں کے لئے کوئی دکان
مخصوص نہیں کی جائے گی تو ہر بچے کی یونیفارم دوسرے سے مختلف ہوگی، اسی طرح
نجی سکولوں میں کتابیں مختلف پبلشرز کی شائع کردہ ہوتی ہیں، ہر دکان پر ہر
پبلشر کی کتب نہیں ہوتیں، اس طرح والدین کو عظیم خواری کا سامنا کرنا پڑے
گا۔ اسی طرح رجسٹریشن اتھارٹی سے تین ماہ قبل اجازت لے کر پانچ فیصد فیس
بڑھانے کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اگر کسی سکول کی فیس محض پندرہ سو ہے تو وہ
سال میں 75روپے اضافہ کرسکے گا، وہ بھی اجازت ملنے کی صورت میں۔ حالانکہ
مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات کی مد میں کم از کم دس فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
یہ سکول چونکہ حکومت کا بوجھ بانٹ رہے ہیں، اس لئے انہیں سہولتیں دینے کی
ضرورت ہے۔ نجی سکولوں کو دبانے کے لئے والدین کے تبصرے، دانشوروں کی رائے
اور حکومتی رویے اجتماعی طور پر ایک ماحول بنا رہے ہیں، نتیجہ یہ نکلے گا
کہ آنے والی نسل اساتذہ کی عزت اور احترام کے قصے صرف کتابوں میں ہی پڑھا
کریں گے، کیونکہ ابھی تک بچے عزت صرف سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی کرتے ہیں،
نجی سکول اس نعمت سے سراسر محروم ہیں، یہ زوال پوری قوت سے جاری وساری ہے۔
مسائل کے حل اور تجاویز؛
حکومت چونکہ خود تعلیمی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اس لئے اس
کا فرض ہے کہ وہ نجی شعبہ کی سرپرستی کرے۔ تاہم سکولوں کو بار بار فیسیں
بڑھانے سے روکنا بہت ضروری تھا۔ اسی طرح یہ اضافہ کسی حساب میں رہنا چاہیے،
تاہم پانچ فیصد بہت کم ہے۔ یہ کیا جاسکتا ہے کہ پانچ ہزار سے زائد فیس لینے
والے سکول کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے خرچے پر ایک نجی سکول قائم کرے، جس
میں غریب بچوں کو مفت تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے، کتابیں حکومت فراہم
کردے، جبکہ اساتذہ اور عمارت کے کرائے کی مد میں ہونے والا خرچہ نجی سکول
پر ڈال دیا جائے۔ دوم؛ فارم ہاؤسز، بڑی گاڑیوں کے مالکان، صنعتکاروں، بڑے
تاجروں ، وزراء اور اسی قسم کے دیگر لوگوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ
اپنی حیثیت کے مطابق نجی سکول قائم کریں اور ان کے اخراجات خود برداشت
کریں۔ اس طرح غریب بچوں کو معیاری تعلیم میسر آجائے گی۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن؛
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے حکومت اس وقت لاکھوں بچوں کو مفت اور
معیاری تعلیم مہیا کررہی ہے، اس میں غریب سے لے کر عام متوسط طبقے تک کے
بچے زیر تعلیم ہیں، مگر گزشتہ برس سے فاؤنڈیشن نے یہ اعلان کردیا ہے کہ
پرائمری حصہ میں صرف مستحق (یعنی غریب) بچے ہی داخل ہونگے، مہنگائی کے عالم
میں عام سرکاری ملازم بھی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے، مگر نئے حکم کے
مطابق ان لوگوں کو اپنے بچے مجبوراً نجی سکولوں میں ہی داخل کروانے پڑیں
گے، جو کہ ان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب چونکہ حکومت نے اپنے تمام
پرائمری اور ہائرسیکنڈری سکول فاؤنڈیشن کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، تو اسی
طرح حکومت اپنے تعلیمی معیار پر واپس آجائے تو حکومت کو نجی سکولوں سے
پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ مگر ایک بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ
اگر فاؤنڈیشن نے بھی سرکاری رویے اپنا لئے اور اپنے من پسند لوگوں کو آگے
لانا شروع کردیا تو اسے بھی ایک سرکاری ادارے کے طور پر ہی جانا جانے لگے
گا، جبکہ اس وقت فاؤنڈیشن کی نیک نامی قائم ہے، مگر پھیلاؤ کے بعد اسے
سنبھالا دینا بہت ضروری ہوگا۔ |
|