ایک وہ جنازہ تھا ، ایک یہ جنازہ ہے

ممتاز قادر ی ؒ سرخ رو ہوکر اپنے رب کے حضور جا چکے ہیں۔ان کی نمازِ جنازہ میں اگر محض دس لوگ بھی ہوتے تو بھی ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا جنازے میں شرکت کرنے والے، جنازے میں شرکت نہ کرنے کا دکھ رکھنے والے اور ممتاز قادری کی حمایت کرنے والے شاید کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لاسکیں لیکن کل روزِ محشر وہ اللہ کے سامنے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یا اللہ جب تیرے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کی جارہی تھی، جب گستاخانِ رسول کو سراہا اور عاشقان رسول ؐ کو طنز و تنقیدکا نشانہ بنایا جارہا تھا، جب عاشقان رسول ؐ کو پھانسی پر چڑھایا جارہا تھا،تو اے اللہ ہم اس وقت گستاخان رسول کے بجائے عاشقان رسول ؐ کے ساتھ تھے۔
جی ہاں بات جنازوں کی ہورہی ہے۔ ایک جنازہ 2011 میں ہوا تھا، پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کاجنازہ ۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد حکومت نے بھر پور کوشش کی کہ کسی جید اور نامور عالم دین سے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ پڑھوائی جائے۔ اس مقصد کے لیے پہلے بادشاہی مسجد کے خطیب عبدالخبیر آزاد کا نام لیا گیا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور راتوں رات لاہور سے باہرچلے گئے اور نمازِجنازہ پڑھانے سے انکار کردیا، اس کے بعد داتا دربار کی جامع مسجد کے خطیب رمضان سیالوی کو کہا گیالیکن انہوںنے بھی معذرت کردی۔پھر جامع حنیفیہ کے خطیب قاری عارف سیالوی نے معذرت کی حتّٰی کہ گورنر ہائوس کی مسجد کے امام و خطیب قاری اسمٰعیل صاحب نے بھی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا ۔اس کے بعد مجبوراًپی پی پنجاب کے علما ونگ کے علامہ افضل چشتی نے گورنر کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

نمازِ جنازہ پڑھانے سے جید علما کا گریز ہی دراصل یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ مقتول گورنر کا فعل مکروہ ، ناپسندیدہ اور عام مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ تھا، جس کا اظہار انہوںنے نمازِ جنازہ نہ پڑھا کر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ گورنر پنجاب کے جنازے میں شرکا کی تعداد سینکڑوں میں تھی جن میں اکثریت سرکاری عہدے داران اور پی پی پی کے رہنمائوں کی تھی، عام لوگوں کی شرکت میں بہت کم رہی ہے۔

دوسری جانب غازی ممتاز قادری شہید کا جنازہ تھا۔ ان کا جسدِ خاکی انتیس فروری کی شام سے ہی دیدار کے لیے رکھ دیا گیا تھااور اخباری اطلاعات کے مطابق یکم مارچ تک کم و بیش80ہزار لوگوںنے ان کے جسد خاکی کا آخری دیدار کیا تھا، جب کہ تدفین تک یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔نماز جنازہ کی جو تصاویر اوپر آپ دیکھ رہے ہیں اس میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے ہیں اور بلا مبالغہ لاکھوں لوگ عاشقِ رسول ممتاز قادری ؒ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے موجود تھے۔

یہ جنازے بھی تو ایک ریفرنڈم ، ایک فیصلہ ہوتے ہیں۔ لاکھوں لوگوںنے شہید کے جنازے میں شرکت کرکے یہ فیصلہ دیدیا ہے کہ پاکستان کے غیور عوام لبرل ازم یا روشن خیالی کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں آج بھی عشقِ مصطفیٰ کی شمع جل رہی ہے۔ اس روشن شمع کو بجھانے کے لیے بزدل حکمران، بے غیرت میڈیا اور نام نہاد روشن خیال و لبرل طبقہ ہر دور میں اپنی پوری کوشش کرتا ہے لیکن وہ عوام کے دلوں سے عشق مصطفٰی کی شمع بجھا نہیں سکتے ، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ وقتی طور پر اس کی لو مدہم ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی ناموسِ رسالتؐ کا معاملہ آتا ہے تو یہ لو ، یہ چنگاری ایک بھڑکتے شعلے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ نے کہا تھا کہ ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام ابو حنیفہ ؒ کو جرمِ بے گناہی کی پاداش میں جیل میں ڈالا اور وہیں ان کا انتقال ہوا، ان کے انتقال کے بعد جب ان کا جنازہ لے جایارہا تھا، تو خلیفہ نے اپنے محل کی کھڑکی سے ان کا جنازہ دیکھا اور اس جنازے میں جب اس نے لاکھوں کا مجمع دیکھا تو بے اختیار کہہ اٹھا کہ ’’ اصل حکمران تو ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘

لبرل سیکولر طبقے نے حسبِ معمول اس موقع پر بھی اپنی خباثت کا ثبوت دیا اور ممتاز قادری شہید کی پھانسی کے فیصلے کو قانون کی بالادستی کہتے رہے۔ ان بے غیرتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اگر پھانسی ہونا عدالتی فیصلہ اور قانون کی بالادستی ہے تو سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کہنا چھوڑ دیں، پچھلے چالیس برسوں سے بھٹو کی نام نہاد شہادت پر لوگوں کو بیوقوف بنانے والے اپنے الفاظ کی لاج رکھیں اور ممتاز قادری شہید ؒ کے بارے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے وہی موقف ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بھی اپنائیں۔شہید ممتاز قادری کے جنازے میں لاکھوں کے مجمع کی شرکت کے بعد اسی لبرل سیکولر طبقے نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق سوشل میڈیا پر جنازے کے شرکا کی تعداد کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنازے کے شرکا کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے حضرت عثمان غنیؓ اور کچھ دیگر لوگوں کے جنازے کی مثال پیش کی۔ جب کہ وہ یہ بات بھول گئے کہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے وقت مدینہ منورہ پر باغیوں کا قبضہ تھا، ان کا جسدِ خاکی بے گور وکفن ان کے گھر میں پڑ رہا تا وقتیکہ کچھ صحابہ کرام ؓ نے اپنی جان پر کھیل کر ان کی نمازِ جنازہ اد اکی اور کفن کے بجائے انہی خون آلود کپڑوں میں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔مصر میں امام حسن البنا شہید کی شہادت کے بعد سرکاری طور پر ان کے جنازے پر پابندی لگائی گئی حتیٰ کہ ان کے جنازے کو گھر کی خواتین نے کاندھا دیا۔ ایسی مثالیں پیش کرکے یہ طبقہ بھونڈے طریقے سے یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ جنازے کے شرکا کی تعداد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

مغرب نواز میڈیا نے شہید ممتاز قادری ؒ کی شہادت اور ان کی نمازِ جنازہ کے موقع پر روایتی بزدلی اور بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے حوالے سے بلیک آئوٹ کیا۔ جس وقت پوری قوم عاشق رسولؐ کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی اس وقت بے غیرت میڈیا آسکر ایوارڈ کی تقریب کی خبریں جاری کررہا تھا، اس وقت میڈیا پر شرمین عبید چنائے کا چرچا ہورہا تھا، جب وہ ختم ہوا تو اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی یو اے ای جیسی کمزور ترین ٹیم سے فتح کا نام نہاد جشن منایا جاتا رہا ۔ لیکن جب سوشل میڈیا پر انہوںنے عوام کا رد عمل اور عوامی سوچ کا رخ دیکھا تو پھرکچھ لوگوںنے گزشتہ روز مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان سے بڑی بھول ہوئی اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ شرمندگی کا اظہار نہیں بلکہ دراصل اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔

بہر حال ممتاز قادر ی ؒ سرخ رو ہوکر اپنے رب کے حضور جا چکے ہیں۔ان کی نمازِ جنازہ میں اگر محض دس لوگ بھی ہوتے تو بھی ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اصل میںتو یہ فرق ہے عاشقان رسول اور گستاخانِ رسول کے حامیوں کا، یہ فرق ہے کہ جو لوگ برائی کو ہاتھ سے نہ روک سکے انہوں نے اپنے عمل سے یہ گواہی دی کہ وہ بھی رسول اللہؐ اور ان کے عاشقوں سے عقیدت رکھتے ہیں، دوسری جانب وہ طبقہ ہے جس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کا امت کے اجتماعی شعور سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو ہر ہر معاملے پر اللہ اور رسول اللہ ؐ کے قانون اور ان کے عقیدت مندوں کے بجائے گستاخان رسول کے ساتھ ہیں۔ جنازے میں شرکت کرنے والے، جنازے میں شرکت نہ کرنے کا دکھ رکھنے والے اور ممتاز قادری کی حمایت کرنے والے شاید کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لاسکیں لیکن کل روزِ محشر وہ اللہ کے سامنے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یا اللہ جب تیرے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کی جارہی تھی، جب گستاخانِ رسول کو سراہا اور عاشقان رسول ؐ کو طنز و تنقیدکا نشانہ بنایا جارہا تھا، جب عاشقان رسول ؐ کو پھانسی پر چڑھایا جارہا تھا،تو اے اللہ ہم اس وقت گستاخان رسول کے بجائے عاشقان رسول ؐ کے ساتھ تھے۔
کی محمد سے وفا تونے سے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521001 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More