ھم کب مہذب ہوں گے

معا شرتی بیماری جو ہم دوسروں کا خیال نہں رکھتے
ہمیں یس آزاد ریاست میں رہتے ہوئے کم و بیش ٦٩ برس بیت گئے ہیں لیکن ہم بحیثیت قوم ابھی تک تہذ یب کے بنادی اصولوں سے بھی روشناس نہں ہو پائے جو ہر حال بہت بد قسمتی کی بات ہے۔ اسلام جو اخلاقیت کا سب سے بڑا داعی ہے ہمیں معاشرتی قدروں اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں ک حقوق کی بات کرتا ہے۔

ہما را پا کستانی معاشرہ بہت سے گروہوں میں منقسم ہے۔جن میں سے ایک گروہ اسلامی قدروں کی باسداری کا دم بھرتا ہے اور ایک گروہ مغربی قدروں کی لیکن دونوں گروہ اپنے اس دعوے میں قما حقا ھو پورے اترتے نظر نہں آتے۔کیونکہ نہ تو اسلامی اخلاقیات میں اور نہ مغربی معا شروں ہمیں اس طرح کی معاشرتی بیماریاں نظر آتی ہیں۔آج جو معاشرتی برائی(بیماری) میرا موصوع ہے وہ ہمسا ئیوں کے حقوق ھے۔لاہور جیسے بڑھے شہر میں شادی اور اموات پر گلی بند کر دینا ایک معمول ہے۔کس قدر تکلیف دہ ہو جا تا ہے یہ بعض صورتوں میں یہ اس کا شکار ہونے والے ہی بہتر جانتے ہیں۔میں جس گلے میں مقیم ہوںدو روز سے وہاں شادی کی تقریب ہو رہی ہے۔جب میں آفس سے گھر پہنچا تو مجھے شادی والے گھر میں سے ایک صاحب نے موٹر سایئکل گلی کے نکڑ پر لگانے کی تجویز دی۔میں اس تجویز سے کچھ مطمئن نہ ہوا اور اپنی بایئک اپنے گھر کے پااس لے گیا۔دو راتیں نہ سونے والے شور سے بے حال جب صبح میں آفس ک لیے نکلنے لگا تو ایک پریشانی میرے انظار مے تھی کیو ہ شادی والے صاحب خانہ نے قناتیں لگا راکھے تھی۔میں نے ان سے درخواست کی ک قنات ساے مجھے آفس جانے کا راستہ دیا جائے تو وہ صاحب خاصے خفا ہوے اور کمال احانت کے لہجے میں بولے کہ آپ سب کو پتا تو ہے ک شادی والا گھر ھے پھر بھی اس طرح کی باتوں سے ہمیں تنگ کت رہے ہیں۔خیر بادلنکخواستہ انکی منت سماجت سے اپنی بائیک نکالی اور دیر سے آفس پہنچا۔
Sajjad Naqvi
About the Author: Sajjad Naqvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.