حقوق نسواں ۔۔۔۔۔۔۔
(Usman Ahsan, Gujranwala)
حکومت وقت نے حال ہی میں خوتین کے حقوق کا
بل پاس کرکے میڈیا کو روٹیاں سینکنے کا ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے ۔ ہمارے
میڈیا کو روزانہ ایک نیا ایشو درکار ہوتا ہے آذادی اظہار و صحافت کا چورن
بیچنے کے لئیے اور یہ ایشو پاکستان میں انھیں ہر روز کہیں نا کہیں سے میسر
آہی جاتا ہے ۔ پھر سرخی پاؤڈر لگا کر اینکر کیمروں کے سامنے بیٹھ کر شعلہ
بیانی سے فلسفہ بکھیرتے ہیں اور ریٹنگ وصول کرکے گہری نیند سو جاتے ہیں ملک
کے عوام کے حالات کو نہ بدلنا ہے اور نہ ہی بدلتے ہیں ، مجھے کامل یقین ہے
کہ نہ حکمرآن اور نہ انکی زرخرید لونڈی میڈیا یہ چاہتے ہیں کہ عوام کو انکے
جائز حقوق دیے جائیں اور عوام کا معیار زندگی بلند کیا جائے ۔ انکو غرض ہے
تو صرف اپنے مفادات اور اپنی روٹی روزی سے ۔ ہم ایک تماش بین اور تفریح
پسند قوم ہیں جسکا فائدہ میڈیا خوب اٹھا رہا ہے اور انکا چورن سو فیصد
منافع پر بک رہا ہے ۔ ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں نمائندگی کا ایک بہت بڑا
مسئلہ ہے ۔ ایک غریب کی نمائندگی جاگیردار کرتا ہے پڑھے لکھوں کی نمائندگی
ایک جاہل مطلق کرتا ہے اہل دانش کی نمائندگی نیم دانشور کرتا ہے قصہ مختصر
ہر شعبہ ہائے زندگی نااہل نمائندگان سے اٹا پڑا ہے ۔ ایسا ہی حال میڈیا پر
شب روز آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ دیندار طبقے کی نمائندگی حضرت علامہ طاہر
اشرفی صاحب فرماتے ہیں اور پاکستان کی تقریبا نصف آبادی خواتین کی نمائندگی
محترمہ ماروی سرمد ، محترمہ فرزانہ باری اور دیگر این جی اوز زدہ خواتین
فرماتی ہیں ۔ ان خواتین نما مردوں کو تو یہ تک نہیں پتہ ہوگا کہ پاکستانی
خواتین کے مسائل کیا ہیں اور انکا حل کیا ہے ۔ لیکن نمک حلال کرنا ہوتا ہے
آجاتی ہیں بن سنور کے اور فنڈگ کا حق ادا کرکے چلی جاتی ہیں اگر پاکستانی
خواتین سمجھتی ہیں کہ انکے حقوق کا تحفظ یہ بکاؤ میڈیا اور این جی اوز زدہ
خواتین کریں گی تو یہ انکی خام خیالی ہے ۔ یہ تو صرف اپنا الو سیدھا کرنے
کا فن جانتے ہیں اور تو کچھ آتا نہیں ۔ پاکستان کی تاریخ اسمبلیوں کے بل
پاس کرنے سے بھری پڑی ہے اور آئین پاکستان کی سبز کتاب بھی عوامی حقوق سے
بھری پڑی ہے ۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جو آپکے حقوق سبز کتاب میں درج ہیں
وہ آپکو مل چکے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو خوش آئند ہے ورنہ یہ بل بھی
فائلوں کے قبرستان میں دفن ہوجائے گا ۔ آئین کی سبز کتاب میں کچھ حقوق
حکمرآن طبقے کے بھی درج ہیں اور ان پر عملدرآمد سو فیصد ہے اور کچھ
حکمرآنوں کے فرآئض بھی لکھے ہیں جنکی طرف دیکھنا بھی حکمرآن طبقہ گوارا
نہیں کرتا ۔ ایسا ہی حال ہم عوام کا ہے ہر طبقہ اپنے حقوق کی بات کرتا ہے
اور فرآئض سے بھاگتا ہے ۔ اگر ہر طبقہ اپنے فرآئض جان کر ان کو پورا کرے تو
اسے حقوق مانگنے نہیں پڑیں گے حقوق اسے خود بخود ہی دوسرے فریق کے فرآئض پر
عمل کرنے کے عوض مل جائیں گے ۔ حکمرآن خواتین کو انکے حقوق مردوں کو گھر سے
نکال کر ٹریکر پہنا کر اور جیل بھجوا کر کبھی بھی نہیں دلا سکتی ۔ اس سے
صرف میڈیا کو روز اک نیا مصالحہ بیچنے کو ملے گا اور شرح طلاق میں اضافہ
ہوگا ۔ پاکستان میں چالیس لاکھ خواتین کے بالوں میں سفیدی آگئی اور جہیز نہ
ہونے کی وجہ سے وہ شادی نہ کرسکیں اگر کچھ کرنا ہے تو نکاح کو آسان بنانے
کے لئیے کچھ کرو ۔ شرق سے غرب شمال سے جنوب تک حقوق ہی کی جنگ ہوتی دکھائی
دیتی ہے ہر فرد کہتا ہے کہ اسے اسکا حق نہیں مل رہا اور فرض سے چشم پوشی
کیے ہے ۔ فرآئض سے روگردانی کرکے کوئی بھی طبقہ حقوق حاصل نہیں کرسکتا ، سب
سے پہلے وقت کے حکمرآنوں کو اپنے فرآئض پہچان کر انکو پورا کرنا چاہئیے اور
پھر ہر طبقے کو اپنے فرآئض پورے کرنے چاہئیں حقوق خود ہی پکے پھل کی طرح
جھولی میں گر پڑیں گے ۔ لیکن عوام کو حقوق دینا انکی عزت نفس بحال کرنا
حکومت کا ارادہ ہی نہیں کچھ مقاصد کا حصول انکے پیش نظر ہے ۔ جب کسی پرانے
مسئلے سے عوام کی توجہ ہٹانا انھیں مقصود ہوتا ہے تو نیا شوشہ چھوڑ دیتے
ہیں اور رہی بات میڈیا کی تو وہ انکی زرخرید لونڈی ہے ۔ خواتین اگر حقوق
واقع چاہتی ہیں تو میڈیا سے مطالبہ کریں کہ مغربی این جی اوز زدہ خواتین کو
انکی نمائندگی کرنے سے روکا جائے جن سے اپنا دوپٹہ نہیں سنبھلتا وہ ہمارے
حقوق کی جنگ کیا لڑیں گی ۔ اس کے بعد فرآئض پورے کرو حقوق خود مل جائیں گے
۔ |
|