میں پاکستان ہوں،

جب کسی قوم میں بگاڑ پیدا ہوتاہے، تو اسککے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں، اس قوم کا اخلاقی معیار تباہ ہوجاتا ہے، لوگوں کا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ معاشرہ بے راہ روی اور مبے حیائی میں مبتلا ہوجاتا ہے، معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ چونکہ ہر قوم کی اپنی پہچان دوسری قوم سے منفرد ہوتی ہے، انکی شکل و صورت، وضع قطع، معاشرہ، اخلاقیات، تہذیب تمدن، طرز رہائش ،زبان مختلف ہوتے ہیں، اسلئے وہ اپنے لئے ایک علاقے کا انتخاب کرتی ہیں، تاکہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ آزادی سے رہ سکیں۔اور اپنے قومی وجود کو برقرار رکھ سکیں۔اسکے لئے وہ اپنے ملک کا ایک نام ، ایک پرچم بناتی ہیں۔ قوانین بناتی ہیں، اپنے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنے دفاع کو مظبوط کرتی ہیں۔ اور اپنے اندر ایسے اداروں کو وجود دیتی ہیں۔ جو اس قوم و ملک کے نظام کو بہتر طور پر چلا سکیں۔ جن ملکوں اور قوموں میں یہ انتظامی ادارے مظبوط ہوتے ہیں، وہ ملک اور قوم ترقی کرتی ہے۔ اور جن میں یہ ادارے کمزور ہوتے ہیں، وہ بہت جلد تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ہر قوم میں کچھ ادارے حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، جن میں پولیس، انصاف ، معیشت ، کے ادارے بطور خاص بہت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ قوموں کی ترقی میں سب سے زیادہ اہم کردار، تعلیم ، صنعت، اور زرعی شعبے بھی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور جن قوموں اور ملکون میں یہ ادارے درست انداز میں کام نہ کرتے ہوں، تو تباہی بربادی ان ملکوں اور قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔۔

الحمدو للہ ہم ایک قوم ہیں ، ہمارا ایک ملک ہے، ایک معاشرت،تہذیب، اخلاق، مذہب، کردار، ہے۔ ہمارے پاس ایک خوبصورت وسیع خطہِ زمیں ہے، جس میں ہم آباد ہیں، اسکا نام پاکستان ہے۔ اسلئے ہم پاکستانی قوم کہلاتی ہیں۔ ہمارا یہ ملک نظریاتی ملک ہے، اسمیں بحیثیت قوم وہ لوگ آباد ہیں، جو مذہب اسلام کے پیرؤکار ہیں۔ جو اللہ پاک کی وحدانیت ، اسکی آفاقی قوانین، (یعنی قران) اور ایک نبی حضرت محمد ﷺ کی آفاقی تعلیمات، جوکہ اللہ پاک کی حکمیت، پر مبنی ہیں ، کومانتی ہیں۔ اور ان پر ایمان رکھتی ہیں۔ جو انکی ، مذہبی، اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی، اور معاشی معاملات کا ادراک رکھتی ہے ، اور جوشحالی کی ضمانت دیتی ہیں۔ اور احاطہ کرتی ہیں۔۔ یہ بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کہ کائینات کا خالق، مالک اور رازق صرف اور صرف ایک واحد اللہ پاک کی ذات ہے، اسکے علاوہ کوئی نہیں ، اس پاک ذات نے اس کائینات کو خلق کیا اور اسمیں موجود ہر چیز، اسکے حکم کی تابع ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسنے ہم سے پہلے آنے والی تمام اقوام کی ہدایت اور تعلیم تربیت کا انتظام فرمایا، اور ہر قوم میں سے سب سے بہتریں انسان کو چنا، اسے عام انسانوں کے لئے ذریعہ تعلیم بنایا، اور اسکے ذریعہ اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچایا، جنہیں ہم نبی، (تیابت کرنے والا) پیغمبر( اللہ کا پیغام لانے والا) رسول ( اللہ کی شریعت اور احکامات ) لانے والاکے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔

یہ رشدوہ ہدایت، کا سلسلہ کوئی ایک دو دن کا نہیں صدیوں پر محیط ہے۔ اور سب سے زیادہ پیغمبر ، نبی اور رسول اللہ پاک نے ہدایت کے لئے بنی اسرائیل پر بھیجے۔ روایات کے مطابق تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار (کم و پیش) پیغمبر دنیا میں تشریف لائے، اور اللہ پاک کے قوانیں اور ہدایات قوموں کو پہنچاتے رہے۔ ان تمام اقوام کا ذکر اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب قرآن پاک میں فرمایا ہے، بلا آخر جب بنی اسرائیل قوم جنہیں ہم یہودی کہتے ہیں، جو آج بھی اپنی بدترین شکل میں موجود ہیں، اور جن کی تعداد چند لاکھوں میں رہ گئی ہے۔ اسکے بعد نصرانی ( عیسائی ) جو حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو اپنا رسول مانتے ہیں۔ نے اللہ پاک کے احکامات میں اپنی من پسند تبدیلیاں کیں، اور انکی تعلیمات کی اصل شکل کا بگاڑ جو ہدایات اللہ پاک کی طر ف سے نازل کردہ تھیں، جو آج بھی اپنی بدتریں شکل میں موجود ہیں،تو انہیں اللہ پاک نے اپنی نظر سے گرا دیا۔ اسکے علاوہ ، چند قومیں کو نافرمانی ، ظلم اور جہالت میں حد سے گزر گئیں، انہیں اللہ پاک نے نیست و نابود کردیا، جن میں قابل ذکر قوم نوح، قوم لوط، قوم عاد، قوم ثمود،ہیں۔

بلا آخر اللہ پاک نے اپنے آخری پیغمبر اور رسول حضرت محمد ﷺ کو عرب کے ریگستانوں میں بسنے والی ایک ایسی قوم پر نازل فرمایا، جو دنیاکی بدترین قوموں میں شمار کی جاتی تھی، جبکہ حطِ عرب کے چاروں طرف اسوقت کی تہذیب یافتہ قومیں ، اپنی بڑی بڑی سلطنتوں ، اور حکومتیں موجود تھیں، لیکن وہ عرب کے وحشی اور جاہل قبائل کی طرف توجہ نہین دیتے تھے،

لیکن اللہ پاک کو عرب قوم کی دو باتیں پسند تھیں،نمبر ایک مہمان نواز تھے، اور اپنی زبان کے پکے اور خالص تھے، اور اللہ پاک کے گھر کعبہ کے محافظ تھے۔ اور حضرت اسماعیل علہہ سلام کی اولادوں میں سے تھے۔

اللہ پاک کے آخری رسول اور نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے بہترین ، اخلاق، کردار، اور اللہ کے نازل کردہ قوانین جب اس قوم کے سامنے رکھے، اور دعوت دی، جسکے جواب میں اپنی ہی قوم کے ظلم برداشت کئے، اور بلا آخر، ان خانہ بدوش قبائل کو دنیا کی بہترین قوم بنادیا، جو ایمان میں یکتا، اور کامل ہوگئے جنکے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا، " ائے محمد میں ان سے راضی ہوگیا، کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہیں، نبی کریم ﷺ کے ان پیروکاروں کو ہم صحابی کے نام سے جانتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت وہ آیا، کہ یہ اللہ کے شیدائی، دنیا کے ہر خطے میں اللہ کا پیغام لیکر پہنچے، اور دنیا کو ایسا نظام حیات دیا، جسکے بارے میں کسی معاشرہ میں سوچا بھی نہیں تھا، حالانکہ ، ارسطو، سقراط، او ر ان جیسے کئی فلاسفر پیدا ہوچکے تھے، اور جب عرب کے جاہل بدو ایک نئی معاشرت، نظام حیات، معاشی نظام اورنظام تعلیم ، اور ایک فلاحی ریاست کے نئے میعار پر عمل پیرا ہوئے، ۔ کہ دوسری اقوام حیران رہ گئیں، اور جوق درجوق اسلام کی مذہبی اور معاشرتی زندگی کو اپنایا،اور ایک وقت آیا کہ خلافت راشدہ کے دور کو آج بھی اقوام عالم دنیا کا بہتریں ، نظام حکومت کے طور پر یاد کرتی ہیں،۔

الحمدو للہ اگر دنیا کے نقشہ پر ایک نظر ڈالی جائے، اور غور کیا جائے، تو اسبات کا اندازہ ہوجاتا ہے، کہ تمام اسلامی ممالک دنیا کے ان خطوں پر محیط ہیں ، جو تمام قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ انکا جگرافیائی محل وقوع ، دفاعی ، اقتصادی، معاشی ، لحاظ سے دوسرے نمام ممالک سے بہتر ہے، اور انکے بحری ، بری ، اور ہوائ راستے جو دنیا کے تمام دیگر ممالک سے بہتر اور محفوظ ہیں۔ خود ہمارا ملک پاکستان تجارتی لحاظ سے بہترین بندگاہیں، آبی گزرگاہیں، رکھتا ہے۔ قدرتی وسائل کے لحاظ سے تمام اسلامی ممالک دیگر تمام ممالک سے بہت بہتر ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے، دنیا کے تمام اسلامی ممالک اور ان میں موجود مسلمان ، غیر مسلموں سے بہت پیچھے ہیں اور جوتے کھا رہے ہیں، اور کمزور ہیں۔

میرے خیال میں اسکی اصل وجہ یہ ہے، کہ ہم نے اپنی پہچان ، کھودی ہے، اپنے دین کو اپنے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے، ہم نے اپنے رب کی رسی ، کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے اللہ پاک کی حاکمیت ، اسکی رضاء اسکے احکامات کو بھلا دیا ہے۔ اور اسکی نافرمانی کی حدوں کو چھو لیا ہے۔ تاریخ اسبات کی گواہ ہے، کہ جب تک مسلمان اللہ پاک کے بتائے ہوراستے پر مستحکم رہے، دنیا پر حکومت کرتے رہے، کیونکہ طاقت کے اصل سرچشمہ سے ہم الگ ہوگئے، اور کمزور ہوتے چلے گئے اور جارہے ہیں، اگر بھی آج ہم اپنی اصل روح جسکی بنیاد ایمان کامل ، اور یقیں محکم ہے۔ جس سے آج ہم خالی ہیں۔

تاریخ اسبات کی گواہ ہے، کہ آجتک مسلمانوں نے جو بھی جنگ جیتی ہے،افرادی قوت، یا اسباب جنگ کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اللہ پاک کی مدد اور نصرت سے جیتی۔

جسکی ایک مثال ، روس افغان وار ہے۔ چند مجاہدین اسلام نے اللہ پاک کی رسی کو مظبوطی سے پکڑا ، اور ایک دنیا کی سپر ُ پاور کو ٹکڑون میں بانٹ دیا، اس موقعہ کے لئے حضرت علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں فرشتے قطار اندر قطار اب بھی۔

یاد رکھیں آج کا یہودی، اور نصرانی کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں ، اسے اگر خطرہ ہے تو ہمارے دین اسلام سے ہے، اسی لئے وہ ہم پر بنیاد پرستی کا لیبل لگا کر ہمیں ہمارے دین ، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، اور اسلامی حرمت (روح) کو ہم سے دور کردینا چاہتا ہے۔ اور اسکے لئے وہ آج سے نہیں صدیوں سے کام کررہا ہے۔ وہ اسلام اور مسلمان کی دینی روح سے ڈرتا ہے۔ اور اسپر حملے کرتا رہتا ہے۔ وہ متواتر مسلمانوں کی غیرت، حمیت، اور اخلاقیات، اور صبر و برداشت پر، کبھی فلسطین کے معصوم بچون کو نشانہ بنا کر، کبھی بے گناہ عورتوں کی حرمت اور عزت لوٹ کر، اور کبھی دہشت گردی پھیلا کر، کہیں اسلامی ممالک پر زہریلی گیس، اور کیمیائی بم برسا کر۔ اور دوسری طرف وہ ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی طور پر تباہ برباد کر رہا ہے، اور اس کام میں وہ اکیلا نہیں ، اسمیں ایسے ضمیر فروش ، بے غیرت حکمران بھی انکے ساتھ شامل ہیں۔ اور ہمارا میڈیا بھی انہی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اور ایسے پروگرامز دیکھائےجاتے ہیں، جو ہمارے کلچر، ثقافت، اور معاشرت کے منافی ہیں،جو ہماری نوجوان نسل کو دین سے نفرت، اسلامی معاشرت سے نفرت، اپنے وطن سے نفرت کا درس دیتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے تعلیمی ماحول کو بھی تباہ کیا جارہا ہے، اور ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے، جو ہماری تہذیب کے تقدس کو پامال کرتا ہے۔ ہماری درسگاہیں ا ب درسگاہیں نہیں بے حیائی کا اڈہ بنتی جارہی ہیں، مخلوظ تعلیمی ماحول میں آزادی نسوان، اور مغربی تہذیب کا پرچار کیا جارہا ہے، ہماری جامعات، اور یونیورسٹیز میں کلچرل ، ثقافتی شور کے نام پر ناچ گانے کو عام کیا جارہا ہے، کبھی ویلنٹائیں ڈے، کبھی مدر ڈے، کبھی ہیپی نیو ائر ، کھلے عام پرچار کیا جارہا ہے،۔

ہمارے علماء اور مشائخ نے دین کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، فرقہ، مسلک، کے معاملات کو ہوا دیکر اسلام کی اصل روح سے لوگوں کو دور کیا جارہا ہے، ایک دوسرے کو کافر کہہ کے آپس میں لڑایا جارہا ہے، اور یہ سب حضرات اسلام دشمن عناصر کے آلہ کار ہیں۔ جو نہیں چاہتے کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں، اور امت بنکر دشمنوں کا مقابلہ کریں۔

ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈروں نے آج تک پاکستانی قوم کو ایک نہیں ہونے دیا، اپنے مفادات کے لئے کبھی لسانی، کبھی علاقائی، اور کبھی صوبون کی بات کرکےقوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ کہیں سندھی، کہیں پنجابی، کہیں بلوچی، کہیں پٹھان، اور کہیں مہاجر ، بنکر قوم کی یکجہتی کو توڑا جارہا ہے، اور اسی بنیاد پر ووٹ حاسل کرکے قومی مفادات کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اور ذاتی مفادات کے لئے لوٹا جارہا ہے۔ اور قومی دولت کو بیرونی ممالک میں منتقل کیا جارہا ہے، کیونکہ ہمارے سارے سیاسی لیڈران ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور انہی کی اولادین ہیں ، جنہیں انگریزون نے جاگیریں بخشی تھیں، جنہیں ، جاگیردار، ملک، چودھری، اور وڈیرا بنایا تھا، یہ وہ ضمیر فروش طبقہ ہے، جو آج بھی ہمارے سروں پر مسلط ہے۔

یہ حکمران ٹولہ جو 68 سالوں سے پاکستان کی رگوں سے منہ لگائے اسکا خون چوس رہا ہے، انکا کوئی مذہب نہیں ، اور نہ ہی کردار ہے، ابھی کل مورخہ 28 فروری 2016 کے اخبار میں ایک دل ہلا دینے والی خبر دیکھی کہ ملتان میں ایک باپ نے پہلے اپنے بچون اور اپنی قبر کھودی ، اسکے بعد پہلے اپنی بیٹی کو زہر اور پھر سارے گھر والوں کو زہر پلایا اور پھر خود بھی پی کر جان دے دی۔ اور میرا دل دہل کر رہ گیا، یہ پاکستان ہے، کیا ہورہا ہے، اور اسی کے اوپر ایک خبر یہ بھی تھی کہ ملتان میں گرین شیٹل بسیں چلانے کے منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے، جسپر سات ارب روپئے خرچ ہونگے، اور ہمارے وزیر اعظم صاحب اسکا افتتاح کرنیگے۔۔ کیا ہوگا کچھ بھی نہیں سوائے رونے پیٹنے کے، اور مذمتی بیان کے، کیا ہمارے حکمران اسکا نوٹس لینگے، ککچھ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف ہماری فوج اپنی جانوں کے نذرانے دیکر ملک کی سرحدوں ، شہروں،کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے پاک کررہی ہے، اور دوسری طرف ہمارے حکمران خود مجرم ہیں، وہ اس سارے کوشش اور محنت کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں،

میر ا پاکستان ، آج جرائم کا اور مجرموں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جس طرف نطر اٹھائیں گندگی ہی گندگی نظر آتی ہے، صدرِ پاکستان سے لیکر ایک موچی تک بد دیانت، اور کرپٹ ہے، جسکی کی جتنی طاقت ہے، لوٹ مار میں ملوث نظر آتا ہے، اور سونے پر سہاگہ ہمارا دین دار طبقہ بھی اپنا حصہ بٹورنے میں پیچھے نہیں، کہیں مدرسوں کے نام پر، اور انمیں پڑہنے والے بچون کے نام پر لوگوں کو الو بناکر پیشے کمائے جارہے ہیں، گلی گلی مدرسہ، کھلا ہوا ہے، جنکا کوئی پوچھنے والا نہیں، پاکستان کے لوگون میں نفرت کا جو زہر ان علاء سہو نے بویا ہے، اسکا کوئی تدارک نہیں ، وہ منبر جس پر میرے آخری بنی کریم ﷺ ، امن ، آشتی، محبت ، رواداری ، درگزر کا سبق دیتے تھے، اسی منبر پر بیٹھ کر یہ علماء آگ لگا رہے ہیں، اور دین کی دھجیان بکھیر رہے ہیں ، امت کو امت نہیں بننے دے رہے، دوسری طرف سیاسی بازیگر ون نے جمہویت کے سنہرے جال پھیلا کر ان پڑھ اور جاہل قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کاروباری لوگ ، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کی حدیں پار کرچکے ہیں۔ مردہ جانوروں کی ہڈیون اور چربی سے کھانے کا تیل اور گھی بنایا جا رہا ہے، مرچوں میں ایٹوں کو پیس کر ملایا جارہا ہے، دوا ساز کمپنیاں اپنی جعلی دوائیں بیچنے کے لئے ہزاروں روپئے کی رشوت ڈاکٹروں کو دے رہے ہیں، ہسپتالوں میں نومولود بچون کو بیچ دیا جاتا ہے صرف اپنی فیس پوری کرنے کے لئے۔ بے روزگار اور بھوکے لوگوں کی قطارین کھڑی نظرآتی ہیں ، اپنا خون بیچنے کے لئے ، کہ اپنے دوزخ کی آگ بجھا سکیں، بے روزگاری اور بھوک سے تنگ اور ماری اولاد کا پیٹ بھرنے کے لئے جگہ جگہ عورتین اور لڑکیان بس اسٹاپوں ہر کھڑی نظر آتی ہیں۔ ہمارا نوجوان ، بے روزگاری سے تنگ آکر لوٹ مار، اغواء، ڈاکے ، کرنے پر مجبور ہوگیا ہے، ہمارا مزدور سارا دن محنت کرکے مزدوری کے پیسے جیب میں ڈالکر جب گھر جارہا ہوتا ہے، تو راستے میں کھڑے ہمارے سرکاری وردی میں ملبوس شکاری کتے ، شک کی بنیاد پر اسکی جیبوں سے سب کچھ نکال لیتے ہیں، ۔ کسی بھی سرکاری محکمہ میں چلے جاؤ، اسکے کارندے آپ کی جیب کے وزن کو تول رہے ہونگے، بھکاریوں کی طرح ہوس بھری نگاہوں سے گھور رہے ہونگے، عدالتوں میں وکیل شکاری کتوں کی طرح آٌکی بوٹیان نوچنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ خوف آتا ہے، ان سب سے ، یہ سب سوچ کر اور دیکھ کر۔

پاکستان ایک نظریہ کا نام تھا، ایک خواب کی تعبیر تھا، میرے نبی کریم کی بشارت کی تعبیر تھا، جسے اللہ پاک کے پاک کلمہ کے ساتھ جوڑا گیا تھا، اور پھر اللہ پاک نے صدیون کی غلامی کے بعد ہمیں عطاء کیا تھا، یہ انعام تھا ، طفیل تھا، اس کلمے کا جو ہمارے بزرگوں نے لگایا تھا۔ " لا الہٰ الاللہ " اور جسکے لئے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وجود میں آئی۔ اس ہجرت کے دوران چھ لاکھ فرزندان توحید نے اپنی جانیں قربان کییں۔ لاکھوں بچے یتیم اور بے سہارا ہوئے، ہزاروں بیٹیوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے کنوؤں میں کود کر جانیں دیں، اور ہزاروں کو اغواء کرکے ہمارے بدترین دشمنوں ، نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، اور کچھ تو آج بھی ان ہندؤن کے گھروں میں ذلت اور اذیت کی زندگی کزارتے کزارتے مر رہی ہونگی۔

آج ان چھ لاکھ شہدون کی روحیں ہم سے سوال کرتی ہیں، کہ کہاں ہے وہ نظریہ، کہاں ہے وہ خواب، کہاں گئی کو نبی کریم ﷺ کی بشارت، کہاں گیا وہ کلمہ " لا الہٰ الاللہ" کا نعرہ جس کی قیمت ہم نے خون اور آگ کا دریا پار کرکے دی تھی، وہ پوچھتی ہیں ہم سے سوال کرتی ہے، یہ پاکستان کا خواب اور اسکی تعبیر تو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں ہونا چائیے تھا، یہ خواب تو ہم نے تمہارے لئے دیکھا تھا، تمہاری آنے والی نسلوں کے لئے دیکھا تھا، ہم نے تو غلامی کی اذیت سہی تھی ، اسی لئے تو تمہارے لئے ایک آزاد وطن بنایا تھا، کہ تم کو کوئی غلامی کا طعنہ نہ دے، لیکن تم نے ہمارئ قربانیوں کو برباد کردیا، تم نے اس نظریہ کو فراموش کردیا، تم نے اس کلمہ کے تقدس کو پامال کردیا،۔

آج پاکستان کا وزیر اعظم ، ہندوستان جاکر یہ کہتا ہے، کہ " ہم ایک ہیں، ہمارا خدا ایک ہے، ہماری تہذیب ایک ہے، بس ایک لکیر بیچ میں آگئی ہے، وہ بد کردار کہتاہے تم جسے بھگوان کہتے ہو، ہم اسے خدا کہتے ہیں،،،، لعنت ہے لعنت ہے ، تم سب پر تم ہماری اولادین نہیں ہو، تم سب غدار ہو تم سب باغی ہو ، تم نے ہمارے خون کی قیمت ، ہماری ہجرت، ہماری قربانیوں کو ملیامیٹ کردیا، تم اللہ کے پاک کلمے کے باغی ہو، تم ائے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں غدار ہو، آج تمہارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، یہ تمہارا اپنا بویا ہوا ہے، تم نے اللہ کے عذاب کو آواز دی ہے ، تم نے غداری کی ہے اپنے دین سے اپنے نبی کریمﷺ سے، انکی تعلیمات سے، قران سے اور اپنے اللہ سے۔۔۔ اور ہماری چھ لاکھ قربانیوں سے،،

کتنی بڑی لعنت ہے۔تم پر کہ تم آج بھی ایک نہیں ہو، ایک پاکستان میں رہنے والو، کتنی بڑی لعنت ہے، اللہ پاک کی اور سزا ہے کلمہ کی ایک اللہ ، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن کے ماننے والے اٹھارہ کروڑ مسلمان ، کہیں مہاجر ، کہیں پنجابی، کہیں پٹھان، کہیں سندھی، اور کہیں بلوچی، کہلاتے ہو، ایک امت نہیں کہلاسکتے ، اور نہ ہی بن سکتے ہو، کیونکہ تم پر سب پر اپنے بزرگوں کے خون، قربانی، جدوجہد کو برباد کرنے کا الزام ہے۔۔۔ اور یہی سزاء ہے ، کہ جب مرو گے کو مسلمان نہیں ۔ بلکہ مہاجر، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی بنکر مرو گے، کیونکہ نہ تو تم پاکستانی ہو اور نہی مسلمان ہو۔۔۔ اور یہی تم پر اللہ کا عذاب ہے۔۔

کل کا تاریخ دان جب تاریخ لکھے گا ، تو تمہارا نام کہیں نہیں ہوگا، کیونکہ تاریخ قوموں کی لکھی جاتی ہے، اور تاریخ اسلام میں تو ہمارا کوئی کردار ہی نہیں ہے، دوستو اب بھی وقت ہے، اب بھی وقت ہے، ہمیں آزاد ہوئے اڑسیٹھ سال ہوگئے، ہم آج بھی حالت جنگ میں ہیں، قربانیان دینے والے چلے گئے، ہم ان کے امیں ہیں ، لیکن ہماری نسلوں نے نہ وہ کہانیان سنی ہے، نہ وہ واقعات دیکھے ہیں۔ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا، اپنی اولادوں کے لئے آنے والی نسلوں کے لئے، نظریہ پاکستان کے سبق کو دہرانا ہوگا، یاد کرنا ہوگا، اپنی ٹوٹی ہوئی کمانوں کو سیدھا کرنا ہوگا۔ اپنے جسموں پر پڑے جمود کو اتارنا ہوگا۔ اور ہر محاذ پر لڑنے کی تیاری کرنی ہوگی۔ سچ بالنا ہوگا اپنے بچون کو سچ بتانا ہوگا، پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہٰ الاللہ کو بار بار دھرانا ہوگا۔ پاکستان کو ایک فلاھی اسلامی ریاست بنانے کے لئے اٹھ کر کھڑا ہونا ہوگا۔

ہماری پاک افواج جن خطرات سے دوچار ہیں، انکے ساتھ ملکر اپنی اپنی حیثیت میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا،،،، ایک امت ، ایک پاکستانی بنکر لڑنا ہوگا۔ یہ فوجوں کی جنگ نہیں یہ تہذیبوں ، کی جنگ ہے، اخلاقیات کی جنگ ہے، ثقافت کی جنگ ہے، یہ قلم کی جنگ ہے، یہ میڈیا کی جنگ ہے، یہ حلال اور حرام کی جنگ ہے، یہ سود اور دولت کی جنگ ہے، یہ برائی اور اچھائی کی جنگ ہے، یہ اقتدار پر قابض ، امریکی اور یہودی ایجنٹون کے خلاف جنگ ہے، یہ مکروہ چہرے والی جمہوریت کے خلاف جنگ ہے۔۔۔۔ اس جنگ کی تیاری کرو،،،،، ورنہ نہ اپنے بزرگون کو صورت دیکھانے کے قابل رہو گے،،،، نہ اولادوں اور آنے والی نسلوں کو۔۔۔؟
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 21610 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More