پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو توہین
مذہب کے متنازع قانون میں اصلاح کی بات کرنے پر قتل کردینے والے پولیس
کانسٹیبل ممتاز قادری کو منگل کی سہ پہر اسلام آباد میں بارہ کہو کے قریبی
گاؤں اٹھال کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ممتاز قادری کو اتوار اور
پیر کی درمیانی شب اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ ممتاز قادری کی نمازِ
جنازہ منگل کی دوپہر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ادا کی گئی نماز جنازہ پیر
حسین الدین شاہ نے ادا کروائی۔جماعت اسلامی، اہلسنت و الجماعت، سنی تحریک
اور دعوت اسلامی کے کارکنوں سمیت ہزاروں افراد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
جنازے کے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے قبل ہی لوگوں کی بڑی تعداد اس علاقے میں
جمع ہوگئی تھی جو حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتی رہی۔ نماز جنازہ کے بعد
مقامی اور دیگر شہروں سے شرکت کرنے والے پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔پیر کو
ممتاز قادری کی پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد بھی راولپنڈی اور اسلام آباد
کو ملانے والی مرکزی شاہراہ سمیت کئی مقامات پر مظاہرین نے احتجاج کیا تھا
اور ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا۔راولپنڈی کے علاوہ کراچی، لاہور
اور دیگر شہروں میں بھی محدود پیمانے پر احتجاجی جلوس نکالے گئے تھے۔ممتاز
قادری کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا تعلق سنی تحریک اور جماعتِ
اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں سے ہے اور جماعتِ اسلامی نے قادری کی
پھانسی کے دن کو یومِ سیاہ قرار دیتے ہوئے جمعے تک روزانہ احتجاج کا اعلان
کیا ہے۔
پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے سابق اہلکار مجرم ممتاز قادری گورنر پنجاب
سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر تعینات تھے اور انھوں نے چار جنوری 2011 کو
اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں سلمان تاثیر کو سرکاری اسلحے سے اچانک
فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ان کا دعوی تھا کہ انھوں نے یہ قتل اس لیے
کیا کہ ان کی نظر میں سلمان تاثیر پاکستان میں رائج توہینِ رسالت کے قوانین
پر تنقید کرنے کی وجہ سے توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے۔راولپنڈی کی
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر انھیں 2011میں دو مرتبہ موت
کی سزا سنائی تھی۔سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015
میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت
برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔اسی فیصلے کو دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے
برقرار رکھا تھا اور پھر صدر مملکت نے بھی ان کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر
دی تھی۔
اسلام آباد کے معروف صحافی مہتاب عزیز نے’ فیس بک‘ پہ سلمان تاثیر کو
فائرنگ کر کے قتل کرنے والے ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز قادری کی نماز
جنازہ کی روئیداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’گوالمنڈی چوک پار کرتے ہوئے ایک منظر یہ دیکھا کہ ڈیوٹی پر موجود ایلیٹ
فورس اور پولیس کے اہلکار ممتاز قادری کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔
کالی وردی میں ملبوس ایک تنومند جوان با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ ممتاز
میرا بیج میٹ تھا، لیکن کیا خبر تھی کہ وہ اتنے نصیبوں والا ہے ‘‘ ۔
سلمان تاثیر کے قتل کے واقعہ کے بعد پولیس وغیرہ میں جنونی انداز رکھنے
والے افراد سے متعلق چھان بین کی گئی تھی،روئیداد کے درج بالا جملے سے واضح
ہوتا ہے کہ مسلح فورسز میں اب بھی جنونی روئیہ رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
مہتاب عزیز مزید بتاتے ہیں کہ
’’مجمے میں نون لیگ کا ایک نو منتخب ناظم فٹ پاتھ پر چڑھ کر نواز شریف اور
شہباز شریف کے خلاف نعرے لگوا رہا تھا۔’’گستاخِ رسولﷺ کی ایک سزا ۔ سر تن
سے جدا، سر تن سے جدا‘‘ کی صدا ہر سمت سے بلند ہو ہی تھی‘‘۔
ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جنگ شروع کرنے کے لئے آئینی و قانونی
تقاضے بھر پور طور پرپہلے ہی پورے کر لئے گئے ہیں،دہشت گردی کے خاتمے کے
لئے اس ’’ مائینڈ سیٹ‘‘ کی اصلاح ناگزیر ہے جو دہشت گردی وغیرہ کے لئے آسان
آلہ کار بن جاتے ہیں یا بن سکتے ہیں۔اسلام جہالت اورجنونیت کے خلاف ہے لیکن
کئی لوگوں نے جہالت اور جنونیت کو ہی اسلام سمجھ رکھا ہے۔ کیا نبی پاک ﷺ کی
بتائی ہوئی اسلامی تعلیمات کے برعکس جہالت اور جنونیت کا مظاہرہ توہین کے
مترادف نہیں ؟کیا یہ طالبان ’’ مائینڈ سیٹ‘‘ نہیں ہے؟گزشتہ دنوں پنجاب میں
ایک نابالغ لڑکے کی طرف سے اپنا ہاتھ کاٹنے اور اس واقعہ سے بھی اس بات کی
ناگزیر ضرورت سامنے آتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی،جنونیت و جاہلیت کے خاتمہ
کرنے کے لئے دیرپا بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔مذہب ،فرقے کی بنیاد
پائی جانے والی جنونیت ملک میں دہشت گردی،انتشار اور تباہی کی آگ کے لئے
پیٹرول کا کام کرسکتی ہے اور اسلامی تعلیمات و احکامات کے برعکس جنونیت و
جہالت پر مبنی طرز عمل میں تبدیلی اس مخصوص ’’ مائینڈ سیٹ‘‘ کی تبدیلی کے
بغیر ممکن نہیں۔معصوم ذہنوں کو اسلام کے نام پر جنونیت ،لاقانونیت کی راہ
پہ ڈالنے والے کسی طور بھی اسلام کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔اسلام ،علم،شعور،امن
،محبت اور اعلی انسانی اقدار کا مذہب ہے ،جہالت ،تخریب،نفرت اور انسانی
تذلیل کا ہر گز نہیں۔طالبان اور مختلف دہشت گرد گروپوں کے علاوہ اب پاکستان
کو جنونی تنظیم ’داعش‘ کے خطرات کا بھی سامنا ہے ،لہذا ملک میں اسلام کے
نام پر جنونیت و وحشت پر مبنی غیر قانونی اقدامات کو جائز سمجھنے والوں کو
اس بات سے روکنا ناگزیر ہے کہ وہ معصوم ذہنوں کو غلط سمت میں چلائیں۔یہ بھی
اسلامی تعلیمات میں شامل ہے کہ ’’ اچھے مقصد کے لئے بھی غلط راستہ اختیار
کرنا سراسر غلط ہے‘‘۔
حکومت ،فوج کوملک سے دہشت گردی،جنونیت اور جہالت کے خاتمے کے لئے اپنی ذمہ
داریاں پوری کرنا چاہئیں۔ |