کعبہ بہارِ رحمت روضہ قرار وراحت .......19قسط

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!

حجر اسود کے روبرو اتنا بڑاجم غفیر جمع تھا کہ اس کا بوسہ لینا جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر تھا۔اس کا ایک بوسہ لینے کے لئے ہزاروں دل بیک وقت بے قرار تھے ، سب اسی ایک آرزو میںمچل رہے تھے، بہت دھکم پیل ہورہی تھی، ہر قوم اور ہر ملک کے عشاق رکنِ اسود پر جیسے ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے اندر بھی یہ چاہت انگڑائیاں لینے لگی کاش د رِکعبہ کی ہمسائیگی میں نصب اس کالے پتھرکو چوم لوں، اس جگہ کی دھول چاٹ لوں ، اسے اپنی پیاسی آنکھوں کا سرمہ بنالوں مگر کیا مجال تھی کہ بوسہ لوں یا اس کے نزدیک بھی پھٹک سکوں۔ شریعت نے ہمارے لئے یہ آسانی رکھی ہے کہ ہم دور سے بھی کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ اوپر کر کے حجر اسود کو آنکھوں آنکھوںمیں چوم لیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حجرِ اسود جنت سے آیاہوا پتھر ہے ، یہ دودھ سے زیادہ چٹاسفید تھا مگر بنی آدم کے گناہوں نے اسے کالا کردیا۔ بعض روایات میں وراد ہوا ہے کہ سنگ ِ اسود کا پشت والا حصہ جو دیوار کے ساتھ پیوست ہے ،وہ سفید ہی ہے ۔ اس بارے میں حضرت مجاہد کا قول ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کعبہ شریف کی تعمیر نو کر تے ہوئے اس کی دیواروں کو جب منہدم کیا تو میں نے دیکھا کہ حجر اسود کا وہ حصہ جو دیوار کے اندرتھا وہ سفید ہے۔ ثابت ہوا کہ سنگِ اسود کا بیرونی حصہ ہی ہمارے گناہوں کے سبب سیاہ پڑا ہے۔ مفہوماایک فرمانِ رسول ہے کہ کسی گناہ گار بندے کے گناہوں پر مداومت واصرارسے اس کے دل پر کالا داغ پڑ جاتاہے جو توبہ نہ کرنے کے سبب بڑتے بڑتے بالآخر سارے قلب کو سیاہ چاہ بناکے چھوڑتاہے۔ کسی نے خوب کہاہے کہ مقام عبرت ہے جب گناہوں کے اثر سے سفید پتھرکا رنگ سیاہ ہوگیا تو دل پر گناہوں اور نافرمانیوں کا اثر کتنابڑاہوتاہوگا۔ حجر اسود جنت سے آیا اور موسسِ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیش کیا گیا ، آپ نے اسے کعبہ شریفہ کے جنوبی حصہ میں اس کے موجودہ مقام پر نصب کیا ۔ مطاف سے اس کی اونچائی ایک میٹر عشاریہ دس ہے،لمبائی سنٹی میٹر، عرض تقریبا سنٹی میٹر ہے۔ موجودہ حالت میں اس کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں۔ پہلے یہ ایک ہی ٹکڑا تھا مگریمن کے قرامطہ ( غالی اسمعیلی باطنی فرقے کی ایک شاخ ) ھ میں حجر اسود کو اپنی متعینہ جگہ سے اکھاڑکر احسایمن لے گئے۔ بیس سال تک یہ ان کی تحویل میں رہا۔ تاریخ کہتی ہے کہ ا س دوران انہیں قحط سالی اور نحوستوں سمیت بہت سارے مصائب وابتلاؤں کا سامنارہا، حتی کہ ان کے تن بدن پر جووں کی بھرمار ہوئی۔ا نہوں نے اندازہ کرلیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ان پر سخت ناراضگی کی مارہے،اس لئے خود ہی حجراسود کو واپس اپنی جگہ لاکر نصب کر لیا۔ اس کے بعد بھی جنت کایہ پتھر مختلف حادثات کا تختہ مشق بنا اور ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ یہ ہر حاجی پر قسمت کی یاوری بلکہ اللہ کی مہربانی اور اعزاز ہے کہ ان کے سامنے وہ عظیم المرتبت یادگارہوتی ہے جس کا بوسہ خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لیاتھا۔ حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ حجراسود اور رکنِ یمانی کا بوسہ لیتے تھے( جامع ترمذی ...... کتاب الحج)۔ ایک زمانے میں جب لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس معقول خدشے سے کہ کہیں نادانی میں نومسلم یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اسلام میں پتھروں کو کوئی تعظیمی یا تعبدی درجہ حاصل ہے، انہوں نے حجراسود کا بوسہ لیا اور فرمایا میں جانتاہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے ، تو نہ کسی کو نفع پہنچا سکتاہے اور نہ نقصان ۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تیرا بوسہ نہ لیتا(صحیح البخاری.... کتاب الحج )۔ آپ رضی اللہ تعالی کی موحدانہ غیرت کو کہاں گوارا ہو تا کہ کوئی اور چیزحبل الورید یعنی شہ رگ سے زیادہ قریب اللہ اور اس کے بیچ حائل ہو جائے ۔ کئی غیر مسلموں کو مغالطہ لگاہوا ہے کہ مسلمان حجر اسود کی عبادت کر تے ہیں ۔ قطعا نہیں،ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ مسلمان کے لئے کعبہ قبلہ ہے اوراللہ وحدہ لاشریک معبودِبرحق ہے جب کہ سنگِ اسود کااستلام صرف اتباع رسول ہے،خواہ آپ کے کسی عمل کے پس پشت کارفرماحکمتیں اورعلیتیں ہم پرواضح ہوں یانہ ہوں،ہمیں صرف آپ کے آگے سراطاعت خم کر نی ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسودکابوسہ بھی لیااوروہاں اژدھام ہونے کی صورت میں اپنی عصائے مبارک یااشارے سے اس کا استلام بھی کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حجراسودپرازدحام نہ کرو،نہ کسی کو تکلیف پہنچاؤں نہ خودکسی کی تکلیف کانشانہ بنو۔ بہرکیف یہ اس سنگ اسودکا شرف نہیں تواورکیا ہے کہ ہمارے جن ہاتھوں پر گناہوں کا میل کچیل جماہواہو ، جن سے نافرمانیوں کے کام انجام دئے ہوں ، جن سے ظلم اور بدی کی تحریریں نکلیں ہوں، جن کو نفسِ امارہ کی غلامی مستعد پایا ہو، جن سے رشوتیں، ڈالیاں، نذرانے، چوریاں ، سر قے کمالِ فن سے سرانجام پائے ہوں، اللہ ا للہ حجراسود کے اشاراتی استلام سے دفعتا وہ اس قدر مقبولِ بارگاہ ہوجاتے ہیں کہ اپنے انہی ہاتھوں کو چومنا ہمارے لئے شرعا لازم ہوجاتاہے۔
حجر اسود کے اس ایمان افروز نظارے نے مجھے سیرتِ طیبہ ۖکے اس ورق میں گم کرکے رکھ د یا جس نے محمد عربی کی پیغمبرانہ بصیرت وتدبرکی دھاک اہل ِمکہ کے قلب وجگر میں بٹھا دی۔ آپ کی صداقت شعاری اور امانت داری پہلے ہی عوام وخواص میں زبان زدہ عام تھی مگر اب لامثال حسنِ تدبر اور بے مثل قائدانہ صلاحیت نے بھی انہیں آپ پر اللہ کی خاص الخاص کرم فرمائی کا قائل کرکے چھوڑدیا۔ یہ منظر ملاحظہ کیجئے۔ کعبہ شریف کی بنیادیں بارش کے سیلابوں وغیرہ کے سبب کمزور پڑگئی ہیں ، قریش بیت اللہ کی تعمیر نو کا والہانہ آغاز کر رہے ہیں ۔ ہر قبیلہ کے ذمہ اپنا اپنا کام تفویض کیا گیاہے ، کوئی بھی قبیلہ اس شرفِ اولی سے محروم نہیںمگر یہ کیا اچانک ایک لاینحل معمہ پیداہوا، اختلاف کی دراڑیں نمودار ہوئیں ، رقابتوں کی تلواریں میان سے نکلیں، جذبات کی بٹھی میں تمازت کی آنچ بڑھ گئی۔ وجہِ نزاع یہ ہے کہ حجراسود کو اپنے مقام عزت کو گوشے پر کون نصب کرے ۔ ہرایک کی چاہ ہے یہ قدرو منزلت والا کام اس کے حصہ میں آئے۔ حفیظ جالندھری کے بقول
قبائل کا بہم تعمیر کعبہ کے لئے آنا
وہ سب کا سنگِ اسود کے اٹھانے پر بگڑجانا
لہومیں ہاتھ بھرجانا، لڑنے مر نے کی قسم کھانا
گھٹاؤں کی طرح غصے کے طوفاں کا ٹکرانا
وہ ہٹ ، وہ ضد،وہ ا پنوں کا سراسر غیر ہوجانا
مگرخیرالا میں کا آکے و جہِ خیرہو جانا

چار دن تک ہنگامہ چلتاہے، کوئی حل نہیں،کوئی افہام وتفہیم نہیں ، کوئی صلح سمجھوتہ نہیں، لوگ حضرت خلیل اللہ کے دین سے بیگانے مگرقبائلی عصبیتوں کا بازار گرم ،ا ناوں کا ٹکراؤعروج پر، پدرم سلطان بود کے دعوے اور جوابی دعوے۔ آخرمکہ کا بزرگ ابوامیہ بن مغیرہ رائے دیتاہے کل صبح سب سے پہلے جو شخص حرم میں داخل ہو، اسی کی ثالثی قبول۔ اللہ کی مشیت دیکھئے صبح دم سب سے اول حرم پاک میں امین وصادق کہلانے والے محمد تشریف لاتے ہیں۔آپ کا جلوہ پاتے ہی سب چلا اٹھتے ہیں امین آگیا ،امین آگیا۔ سب لوگ آپ کی ثالثی پر بخوشی متفق۔ آپ بیچ کا راستہ نکالتے ہیں۔ فرماتے ہیں سارے دعویدار قبائل اپنا ایک ایک سردار کا انتخاب کریں۔ حسبِ ارشادامینِ مکہ اس ہدایت پر عمل کیا جاتاہے ، آپ اپنی مبارک چادر بچھا کر اس میں اپنے دستِ حق پرست سے سنگ ِ اسود رکھ دیتے ہیں۔ اب سب سرداروں سے فرماتے ہیں چادر مبارک کے کنارے پکڑکر مقام مقررہ پر اسے لے آؤ۔ حکم کی باوقار تعمیل ہوتی ہے۔ چادر مبارک اپنی منزل پر پہنچتی ہے اور آپ حجراسود کو اٹھاتے ہیں ، اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب کرتے ہیں۔ سب مطمئن ومسروراور سارا فتنہ کافور۔حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام میں یوں اس صورت کی تصویر کھینچتے ہیں
وہ چادر کا بچھانا، اس پہ رکھنا سنگِ اسود کا
یہ زندہ معجزہ قبلِ نبوت تھا محمد کا
وہ پتھر نصب کرنا ، آپ خود جھگڑے کا چک جانا
وہ ہراک جنگجو کا آشتی کی سمت جھک جانا

سارا قضیہ چٹکیوں میں بحسن وخوبی اختتام کو پہنچا، خون ریزی کا جنون ختم ہو ا، کعبے کاتقدس برقرار رہا اور تاریخ فخر و انبساط سے جاہلی معاشرے میں اس امن فارمولے کی معنویت پر آج بھی عش عش کرتی ہے اور دنیائے انسانیت سے کہتی ہے کہ اسی ایک مثال کی تقلید میں تمہارے تمام لڑائی جھگڑوں سے نجات کاراز مضمر ہے۔ حجر اسود کے اس منظر کو یاد کرکے میں خود سے پوچھتاہوں آج مسلم امہ کیوںاس ایک چادرِ اخوت کو اپنے بیچ بچھانے سے کتراتی ہے ؟ دنیا کے اربوں مسلمان کیوں اپنے پیغمبر کریم کے بتلائے ہوئے اصو لوں کو چھوڑ کر غیروں سے منصفانہ ثالثی کی تو قع کرتے ہیں ؟ کیوں وحدت و محبت کی نغمہ ساز قیادت کا سایہ تک دیکھنے سے صدیوں سے ہم ترس رہے ہیں؟ کیوں عصبیتوں اور اناوں کے تراشیدہ بت اس نوع کے فہم و تدبر سے توڑنے پر ہم تیار نہیں؟ کیوںہمارے اندر قیادت و سیادت کے یہ اجالے طلوع نہیں ہوتے ؟

میں حجراسود کا بوسہ لینے کا اشتیاق دل میں سنبھالے ہوئے تھا مگر اس بھیڑ بھاڑ میں ایسی کوشش کرنے کا حاشیہ خیال میں بھی وہم وگمان نہ تھا، بس دور سے لوگوں کی اس بے خودی اور وارفتگی کا نظارہ کرتارہا۔ دوایک روز میرا یہی معمول رہا لیکن اس سے قبل میں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ رکن یمانی کو چھوا، اسے گلے لگایا، دویار ِ کعبہ سے لپٹ گئے مگر سنگِ اسود کو چومنے کا شوق برابر دل میں موجزن رہا ۔ ایک دن بے خیالی کے عالم میں نماز فجر کے بعد حجراسود کے پاس پہنچا تویکاک شوق کے پنچھی نے یہ کہہ کر بوسہ لینے کی ترغیب دلائی کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ میں نے بھی اپنی ہمت کو یکجا کرنے کی ٹھان لی جب کہ اللہ کی غیبی طاقت نے مجھے جوں توں حجر اسود کے اتنے قریب کردیا کہ ہاتھ سے اس کے فریم کوایک دوبار مس کرسکا۔ اس سے شوقِ استلام بڑھتا گیا، وارفتگی میں اضافہ ہوتارہا لیکن عقل کا مفتی ٹوکتارہا کہ اس دھکم دھکا کی شریعت میں ممانعت ہے کہ دوسروں کے لئے اذیت رساں بن جاؤ۔ اوپرسے یہ دیکھ کر بھی ذہنی کوفت ہورہی تھی کہ حجراسود کو پیار اور دلار دینے میں ملیشیا اور انڈونیشیائی خواتین بھی مردوں کے ہمراہ محو جدوجہد تھیں۔ اپنی طرف سے کافی دیرکوشش کے باوجود بھی حجراسود تک پہنچ نہ سکا تو ہمت ہار بیٹھا اور تہیہ کیا کہ اب دوبارہ کوشش نہ کروں گا۔ شام کو ہوٹل میں اپنے دیگر ساتھیوں سے اپنے ا س تجربے کا ذکر کیا تو حاجی بشیر احمد راتھر نے سمجھایا کہ کس طرح یہ آرزو پوری کی جاسکتی ہے ۔ اپنے طور میں نے ارادہ کیاتھا کہ ودبارہ ایسی کو شش نہ کروں گامگر ایک دن فجر کے بعد طواف مکمل کیا کہ آخری چکر کے بعد قدم خود بخود حجر اسود کے سامنے رک گئے ۔ میں تواسے اللہ کی مشیت ہی کہہ سکتا ہوںکہ میں نے حاجی صاحب کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنا کر تھوڑی بہت کوشش کی ۔ میں کعبہ شریف کی دیوار کے ساتھ قطارمیں کھڑاہوگیا، آگے پیچھے انڈونیشائی حاجی صاحبان تھے، میں نے تسبیحات ، تحمیدات ، تکبیرات کا بلند آواز میں ورد جاری رکھا ۔ ایک موقع پر لگا کہ بس اب آخری گھڑی آگئی اتنی سختی محسو س کی ، سانس پھول رہی تھی اور دم گھٹ رہاتھا ۔ میں نے یہ جانے بغیر کہ ٹھیک کر رہا ہوں یاغلط اپنا جنازہ بھی پڑھ لیا۔ اسی دوران ہمارے کندھوں کے اوپرایک تنومند ایرانی حاجی اسی کشمکش میں تھاکہ تقریبا حجراسود کے پا س پہنچ کر وہ اپنی چھاتی کی طرف اشارہ کرنے لگاجیسے بتارہاتھا کہ اسے درد ہو رہاہے ، وہ واپس مڑا اور شوق کی تکمیل سے رہ گیا۔ میں نے یہ دیکھا تو اپنی امید چھوڑدی لیکن ابھی کچھ ہی ثانیے گزر گئے تھے کہ میں نے اپنے آپ کو حجر اسود کے روبرو ایستادہ پایا۔ بہت دھکے اور مکے کھائے مگر اب اللہ کے کرم سے میرا سر اس سوراخ کے اندر گھس گیا جو حجراسود کی نشست گاہ ہے ۔ میں نے پوری طرح سے اس کا دیدار کیا اور پھر جی بھر کر اس کو بوسے دئے ۔ واپسی کی راہ لینا چاہی مگر کوئی راستہ دینے پر تیار ہی نہ تھا ۔ میں نے عربی میں طریق طریق(راستہ راستہ)چلایا مگر ہجوم میں ان سنی ہوئی۔ انگریزی اور اردو میں گزارش کی مگر یہ بھی صدا بصحرا ثابت ہو ا ۔ میں نے دفعتاً پیچھے مڑکر پھرسے حجراسود کو پھرسے جی بھرکر بوسہ دئے اور اس کے بعد بڑی مشکل سے صحیح سلامت عاشقوں کے اس ہجوم سے کس طرح نکل باہرآیا، سمجھنے اور بتانے سے قاصر ہوں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.