زندگی آج بھی اسی ڈگر پر چل رھی ھے جس پر
چودہ سو سال پہلے چل رہی تھی۔وہ زمانہ جاہلیت جس کو دفن کر کے ہم بہت آگے
آگئے ہیں اور بقول ہمارے،ہماری تہذیب و ثقافت نے بہت ترقی کر لی ہے۔وہ
زمانہ،وہ معاشرت،وہ طور طریقے تو در حقیقت ہم نے کبھی ترک کیے ہی نہیں تھے
ان کو دفن کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہم ان برائیوں کو
ذیادہ جدید انداذ میں کرتے ہیں اور اسے ہم جدت کا نام دیتے ہیں۔ روشن
خیالی،جدید تہذیب و تمدن وہ ناسور ہیں جو اندر ہی اندر سے ہمیں کھوکھلا کر
رہے ہیں۔ بنئ نوع آدم کی راہ نمائی کے لیے جو نبی آئے وہ ٥رف خدا کے آگے
جھکنے کا درس نھیں دے کے گئے تھے بلکہ وہ خوب٥ورت جذبے بھی دے کے گئے جن کے
بغیر انسان کبھی بھی انسانیت کے درجے پرنہیں پہنچ سکتا۔وہ کبھی بھی مسجود
ملائک کہلانے کا حقدارنہیں ہو سکتا ۔ الله کے آخری نبی حضرت محمد صلی الله
علیہ وسلم نے جب جہالت میں ڈوبے عرب کو اسلام کی دعوت دی تو ساتھ ہی انہیں
محبت، دوستی، وفاداری، ایثار اور قربانی کا بھی درس دیا۔ ان جذبوں کی
فراوانی تھی کہ مواخات مدینہ عمل میں آئی ۔ ان جزبوں کی بدولت ہی حضرت بلال
رضی ٰلله عنہ کو سیدنا بلال کہا جاتا تھا۔ یہ وہ جزبے تھے جنہوں نے اس
معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنایا۔ اس دور کا موازنہ موجودہ دور سے کیا
جائے تو بڑا واضح فرق نظر آتا ہے۔ ایسا اندھیرا نظر آتا ہے جہاں علم کی
روشنی کسی کنویں میں پڑی ہو اور ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہو۔ اس جہالت کو
الله کے نبی نے ختم تو کیا مگر ہم پھر اسی راہ پر بھاگے چلے جارہے ہیں جس
کا انجام ٥رف اندھیری کھائی ہے۔ وہ تمام جذبے جو انسانیت کی معراج ہیں آج
لاپتہ ہیں۔ اگر موجود ہے تو ٥رف نفرت،حسد،دشمنی،بے وفائی اور خود غرضی۔
انسانیت بسترمرگ پر ہے اور چیخ چیخ کر التجا کر رہی ہے کہ اس کی زندگی اور
رونقیں اسے لوٹا دی جائیں۔ یہ جذبے نجانے کہاں کھو گئے ہیں ۔
انہیں ڈھونڈا جائے اس سے پہلے کہ انسانیت بھی ختم ہو جائے۔۔۔۔۔
اب ڈھونڈ انہٰیں چراغ رخ زیبا لے کر۔۔۔۔ |