سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس

بهگوان جی کو اٹھا کر باہر رکھا, کوئی دور سے دیکهتا تو یہی سمجھتا کہ بهگوان جی کی پوجا ابهی جاری ہے. لاریاں پہلے سے زیادہ آتی جاتی ہیں لیکن افوس ان سواریوں کا ہوتا ہے جو جا کر واپس نہیں آتیں.
سیری نالا بان
سے لیا گیا اقتباس
تحریر:- گل زیب انجم

بهگوان جی کو اٹھا کر سڑک کنارے رکھ دیا.

آج اگر کوئی گزرے تو یہی سمجهے بهگوان جی کی پوجا شروع ہے.

لے آئی پهر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے.

سیف الملوک رواں ہوتا تو پهر دن دنا تهین پر ہی جا روکتا .

کوئی مشتاق سرشام ایک دیا جلائے دیتا ہے.

یہ سچ ہے کہ آج لاریاں زیادہ اور سڑک تنگ ہو گئی ہے.

دکھ ان سواریوں کا ہوتا ہے جو جا کر واپس نہیں آتیں.

صوفی فقیر محمد جی کے کهنہار سے آگے حبیب بینک کی عمارت ہے اور اس عمارت کے آگے لاری اڈہ ہے. بلکہ یہ اڈہ اب دائیں جانب چلا گیا ہے جہاں کبهی دو تین درختوں پر مشتمل ایک باغ ہوتا تھا. اور جہاں پہلے لاری اڈہ تھا وہاں کوئی دوسری گاڑی ہو یا نہ ہو ماسٹر اقبال ہوراں ناں ٹرک 2487 لازمی کهڑا رہتا تها جس کی بدلی کبهی کبهی 5937 کر دیا کرتا تھا ان دو ٹرکوں سے وہ اڈہ سجتا تها اس اڈے کے ساتھ ہی دانے پیسنے والی مشین ہوتی تھی (عام فہم زبان میں آٹا پیسنے والی جبکہ آٹا بیچارہ پیسا نہیں گوندها جاتا ہے)یہ مشین چودھریوں کی مشین کہلاتی تھی پہلے پہل اس کی دیکھ بھال چوہدری نیامت خود کرتے تهے ایک دن پوہڑ کی تراشائی کے دوران ایک کنکر آنکھ میں لگی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک آنکھ کی بنیائی جاتی رہی اور وہ کچھ دن کے لئے بستر علالت پر پڑ گئے لیکن جلد ہی ان کے بیٹے پرویز نے مشین (چکی) کی ذمہ داری سنبھال لی. پرویز خوش طبع انسان تها اس لیے جلد ہی پہائی مندو (بهائی شریف) اور لالے(بهائی) اسحاق کا ساتھ مل گیا یہ دونوں بهی اکثر اپنا وقت اسی مشین پر گزارتے تھے پہائی مندو ویسے تو اپنے پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتے پورا دن مشین کی باہر والی پلی ( لوہے کا چکا) کے ساتھ ایک پٹہ سا لگائے روئی دهنتے رہتے سردی گرمی میں ایک بڑی سی سوئیٹر جو لمبائی میں قمیض کے ہی برابر ہوتی پہنے رہتے اور کام لگے رہتے پرویز ان سے مشین کا بھی چهوٹا موٹا کام لیتے رہتے لیکن کام لینے کا طریقہ بڑا منفرد سا ہوتا وہ یوں کہ پرویز ماسوائے دیکھ بهال یا کتابچہ میں لکھ پڑھائی کے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی ایسی بوری آ جاتی جس میں پینتیس سیر سے زیادہ دانے ہوتے تو وہ مشین کے ٹاپے تک نہیں اٹھائے جا سکتے تهے یہاں پرویز گفتار شیریں کو بروئے کار لاتے ہوئے پہائی مندو کو تهوڑی سی پهونک بهرتے اور بجائے پہائی مندو کہنے کے مکینک جی کہتے یوں مکینک جی آلہ دین کے جن کی طرح فوراََ نمودار ہوتے اور بوری اٹھا کر دانے ٹاپے میں پهنیک دیتے . اسی طرح تیل ڈالنے کے لیے بھی مکینک جی ہی آگے ہوتے کیوں کی چلتی مشین میں تیل ڈالنا نہ صرف مشکل ہوتا بلکہ کپڑے بهی خراب ہو جاتے .

اب کچھ کام ایسے بهی ہوتے جو مکینک جی سے بهی نہ ہو پاتے مثلاً پوہڑوں ( وہ دو بڑے بڑے پتهر جن کے درمیان دانے آ کر پیس جاتے ہیں) کی رگڑائی اور بڑے چکوں پر سے پٹے کا کسنا تو یہاں پرویز اور پہائی مندو لالے اسحاق کی خدمات حاصل کرنے کے لئے مسکا لگاتے ہوئے ہم آواز ہو کر لالے اسحاق کو سائنٹسٹ کا خطاب دیتے ہوئے کہتے سائنس جی یہاں تو آپ کی سائنس کے بغیر کچھ ہو جانا ممکن نہیں تب لالہ اسحاق ایک نسوار کا چٹکا پہائی مندو کو اور ایک تین انگلیوں سے بنایا ہوا بڑا سا چٹکا خود رکهتے ہوئے پوہڑوں کے درمیان بنے ہول میں آہنی بار جسے لالہ سائنسی زبان میں چبل یا چبلی کہتے تهے دے کر پرے پهنیکتے اور ساتھ ہی کہتے آں او پیجیا (پرویز کا نک نیم ) یہ لے پرویز. پرویز اور پہائی مندو ستائیشی نعرہ لگاتے ہوئے کہتے سائنس زندہ باد.
لالہ اسحاق شروع سے ہی چنگے تغڑے تهے بلکہ اپنے پانچوں بهائیوں سے تگڑے تهے اور اس کے ساتھ ہی ہنس مکھ اور بذلہ سنج بهی. شام گئے جو مشین پر گے تو پهر ایک دو بجے ہی لوٹتے ویسے بهی مشین اور گهر کے درمیان ایک ترپے کا ہی فاصلہ تها بو جی (والدہ صاحبہ) کو جو ضرورت پڑتی تو وہ ترپے ( تین چار اسٹپ کی اونچائی)سے ہی آواز دے کر بلا لیتیں.

مشین کے ساتھ ایک کنواں تها جس کا پانی صرف مشین کے لیے ہی استعمال کرتے تھے. اس کے کنارے پر دو فٹ اونچا اور ایک فٹ چوڑا پتهر بھی تها جسے بت کہتے تھے . یہ بت اسی کنویں کے دائیں ہاتھ سڑک کے اس پار بنے مندر میں تها.( مقامی لوگ اس مندر کو ٹهک دوارہ کہتے ہیں یعنی درست تلفظ میں گرو دوارہ جب کے گرو دوارہ سکھوں کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی بت وغیرہ نہیں ہوتا بت ہندو دھرم کا ہے اور مندر میں ہوتا ہے ). یہ مندر نہ جانے کس طرح چودھری لطیف عرف طیفا بائییں والا کے قبضے میں آ گیا انہوں نے قبضہ کرتے ہی بھگوان جی کو اندر سے اٹھا کر کنویں کے کنارے رکھ دیا کنویں اور مندر کے درمیان سڑک گزرتی ہے لیکن بهگوان باہر آ کر بھی طیفا جی کی آنکھوں کے سامنے ہی رہتے . سردیوں کی یخ بختہ صبح میں دکاندار پرالی اور ردی کے کاغذوں کو اسی بهگوان کے پاس اگهٹا کر کے آگ لگاتے اور دائرے میں کهڑے ہو کر یا بیٹھ کر تاپتے ایک دن لالہ اسماعیل (دکاندار) کہنے لگے اگر کسی ہندو کا یہاں سے گزر ہو تو وہ یہی سمجهے گا ہمارے بھگوان کی پوجا آج بھی جاری ہے. اس کے بعد طیفا سردیوں کے باقی دن بهگوان کے اوپر چڑھ کر بیٹهتے رہے اور ماسٹر مہندی ان کے ٹین ( کنستر) پر . گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی نہ جانے پرویز کے دل میں کیا سوجی کے اس نے بھگوان کو دهکا دے کر کنویں میں گرا دیا .بهگوان تو کنویں کی تہ میں چلے گے لیکن طیفا جی نے بهگوان کی جگہ ٹافیاں ریوڑیاں اور سگریٹ رکھ لیے اور مندر پر مالکانہ حقوق کے باعث طیفا ٹهکدوارے (مندر)والے ہو گئے .

مندر کی بائیں طرف مشتاق بٹ کا ہوٹل ہے جس کا درجہ حرارت سردی گرمی میں ایک سا ہی رہتا ہے نہ کبھی سردیوں میں بلب جلتے دیکھا نہ گرمیوں میں پنکھا چلتے دیکھا. گاہکوں کا بھی کوئی خاص رش نہیں ہوتا صبح جو گنتی کی پندرہ پیالیاں کهیر بنا کر رکهتے ہیں تو شام تک رکهی ہی رہتی ہیں اللہ جانے کون آ کر کها جاتا ہے. البتہ مشتاق ہوٹل سے اور ہوٹل مشتاق سے خوش ہے. ایک زمانہ تھا کہ یہاں ایک درویش منش انسان بیٹها کرتے تھے نہایت ہی صوفی شخص تھے زندگی بهر کبهی سکول نہیں گے لیکن سیف الملوک جو پنجابی زبان میں لکھی ہوئی ایک کتاب ہے تقریباً پوری کی پوری ازبر تهی پھر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی سیری چهوڑ کر کہیں گے نہیں لیکن بات جب بھی کرتے پنجابی میں کرتے تهے . یہ درویشوں کو نہ جانے کیا سوجتی ہے یا یہ کیا رمز ہے کہ برہنہ ہو نے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے سبز چولا اور لحاف پوری گرمیوں میں رکهتے جب جهاڑا شروع ہو جاتا تو اتار کر بلکل برہنہ ہو جاتے. مشتاق رضائی اٹها اٹها کر لیپٹتا رہتا. ان کو چائے اور سگریٹ بہت اچھے لگتے تهے اور سگریٹ نوشی اتنی تهی کہ مونچھیں بهی دخان سے پیلی ہو چکی تهی چائے بڑے سے پیالے میں پیتے لیکن ایک بات یہ بهی تهی کہ دن میں سلیم کا ہوٹل پسندیدہ بیهٹک تهی اور بعد عصر مشتاق کا ہوٹل. شام ہوتے ہی سیف الملوک رواں ہو جاتا تو جا کر دن دنا دهن اور تن تنا تهین کے الفاظ پر روکتا.ان الفاظ کو مشتاق یا سلیم ہی سمجھتے ہوں گے کہ ان میں کیا رمز تهی. ان الفاظ کو کہنے کے لئے درویش بابا تین انگلیاں ہونٹوں پر رکهتے کلمے والی انگلی اور انگوٹھے سے ناک کو سرنگی کی طرح بجاتے اس عمل کے دوران گردان جهکا کر نگاہ نوے ڈگری پر رکهتے ہوئے کرتے ویسے یہ عمل جلالی سے ہوتا تھا .

مشتاق کو ان سے بڑی عقیدت تھی اور شاید اس نے یہ سن رکھا تھا " تمنا درد دل کی ہو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں. یہ منکسرالمزاج سائیں عبدالکریم بنڈیاں کے مقام پر مدفن ہیں جہاں آج بھی کوئی مشتاق سرشام ایک دیا جلائے دیتا ہے .

یہ ساری باتیں اڈے سے ہی منسوب ہیں مگر اب یہ اڈہ وہ اڈا بن گیا ہے جو پہلوان کشتی کبڈی کے دوران ٹانگوں میں ٹانگیں پهنسا کر مارتے ہیں اس کی یہ شکل برساتی پانی نے بنا ڈالی ہے سوزوکی والے مشکل سے مشکل جگہ جانے کے لئے رضامند ہو جاتے ہیں لیکن اڈہ میں نہیں جاتے انہیں خدشہ رہتا ہے کہ دس روپے کی سواری کے لیے دو سو کا نسخہ بآسانی بن جائے گا. کبھی اس اڈے پر جی ٹی ایس بسیں قیام کرتی تهیں کچا لیکن صاف ستھرا بشمول بازار اڈہ تها لیکن ترقی کیا ہوئی کہ سب کچھ جاتا رہا جس کچی سڑک پر بچے ننگے پاؤں چلتے چلتے کهوتهی بنا کر بلور کهیلنا شروع کر دیتے تھے اب وہاں جوتے تو درکنار موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بھی گزرنا دشوار ہو گیا ہے.

یہ وہی اڈہ ہے جہاں کبهی بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں صبح سویرے نانگا فرم ہوٹل کے باہر کرسیاں اور میز لگ جاتیں مستری عبدل نہ جانے کب گهر سے چلتے تهے جو سب سے پہلے اخبار پڑھنے کا شرف حاصل کر لیتے تهے. حنا سے رنگے بال جو ہر وقت سے کے سنتولوں کی طرح کهڑے رہتے آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک جو کالی ڈوری سے باندهی ہوئی سفید لباس میں ملبوس سیری پہنچ آتے حالانکہ چوہدری شیر محمد اور گرداور عبداللہ چپے بهر کی مسافت پر رہتے ہوئے یہ بازی مات نہ دے سکتے تھے. بٹ کرامت جنهیں اپنی سحر مرغ نواہی پر ناز تها وہ بھی تب پہنچتے جب مستری عبدل جی بقیہ جات میں سے یحییٰ بختار کا بیان ڈھونڈ رہے ہوتے. چوہدری صدا حسین ترچهی ٹوپی پہنے ساتھ اتنی ہی گردن ٹیرهی کیے اخبار پڑهتے پڑهتے کہیں مشکل لفظ پر اٹک جاتے تو ٹوپی اتار کر آنکھیں ملتے تو بابی برجستہ کہہ دیتے ٹوپی سر کجانے کے لیے اتاری جاتی ہے آنکھیں ملنے کے لیے نہیں جئے کج نئیں پڑهیا جاندا تے مینوں دس .

علاقائی خبریں کا صفحہ پڑهتے ہوئے اس خبر کو زیادہ اہمیت دی جاتی جو غازی عبدالرحمن جی نے لگوائی ہوتی . اخبار بینوں کو ایک چسکا سا لگا ہوا تها گهر کے لاکھوں کام چهوڑ کر بھی لاری اڈہ آ جاتے تھے. دهوپ نکل آتی تو صحافت کے شیدائی دو تین ٹولیوں میں بٹ کر ایک ٹولی زلف تراش کی دکان میں ایک حسین نسواری والے کے برآمدے میں اور ایک ہوٹل کے اندر چلی جاتی . اب چونکہ اخبار زلف تراشوں کا تها اس لیے اخبار کے زیادہ صفحات انہی کے پاس رہتے اور ایک نسواری والوں کے اور ایک ہوٹل والوں کے پاس چلا جاتا . اخبار میں سے زیر زبر کی غلطیاں نکال لینے کے بعد کچھ گهر کا رخ کرتے اور جو رہ جاتے وہ زلف تراش کی دکان کے اندر لکهے ایک گانے کے اس شعر پر " لے آئی پهر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے. ......یہ تو وہی جگہ ...... ! بحث چهیڑ لیتے اور جو زلف تراش سے زرا فرینک ہوتے وہ بلاواسطہ پوچھ لیتے آپ یہاں سے کہاں گے تهے یا کس نے منت کی تهی واپس آنے کی.

نانگا فرم جو پیالیاں اور چینک لینے آتے تو دیکهتے زلف تراش صوفی رزاق جی سے بلیڈوں کی ڈبی اٹهائے آ رہے ہیں تو شعر کا اگلا بند اپنی سریلی آواز میں گا کر یوں مخاطب کرتے" تیری ہی ہٹی پر ہے پہاپا شیرا انتظار تیرا ..... بلیڈ خرید لیے ہیں نہیں لوٹایا ادهار میرا ......یہ کون سی دوستی ہے پوچهیں یہ کہاں سے......" نانگا فرم کی اس ادا پر چوہدری صدا حسین اور مستری عبدل سمیت سارے ہنس پڑتے. سیری اڈہ ویسا رہا نہ بزرگوں کی وہ محفلیں رہی لیکن ایک زمانہ گزر گیا پهر کسی نے مستری عبدل کی طرح اخبار نہیں پڑها اور نہ ہی حسین نسواری والے کی طرح کسی نے سنا کہ جو ہر فقرے کے آخر پر ایں شاوا اس وقت کہتے جب پڑهنے والا کسی جگہ تحمل فرماتا.

یہ درست ہے کہ سڑکیں تنگ ہو گئی ہیں لاریاں پہلے سے زیادہ آتی جاتی ہیں لیکن افوس ان سواریوں کا ہوتا ہے جو جا کر واپس نہیں آتیں.
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56151 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.