مُجھے ماں کی یاد ستاتی ہے
(Mohammed Masood, Nottingham)
میں اس بار بھی جب میرپور آزاد کشمیر
پاکستان گیا تو اپنے آبائی گاؤں رٹھوعہ محمد علی اپنے گھر میں اپنے ماں باپ
کے ساتھ کُچھ زیادہ دن نہیں گُزار سکا ہر بار جب بھی میرپور آزاد کشمیر
جانے کا ارادہ ہوتا ہے یا پروگرام بنایا تو سوچ کُچھ اور ہوتی ہے اور ہو
کُچھ اور جاتا ہے اور میری ساری کی ساری خواہشیں اُدھری کی اُدھری رہ جاتی
ہیں
مجھ سے میرے اپنے اور ارد گرد کے لوگ اکثر حیرت سے پوچھتے ہیں مسعود کیوں ؟
اور کچھ لوگ مجھے سخت دل جان ہو کر کچھ جلی کٹی بھی سنا جاتے ہیں ۔ میں
سوچتا ہوں جن سے انسان شدید محبت کرتا ہے انہی سے بہت ڈرتا ہے ۔ ہاں مجھے
ڈر لگتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے میری یاد کا جو پل جس چوکھٹ سے لپٹا ہوا ہے وہ
وہاں نہ ملا تو میں کیا کروں گا اگر میری یادوں نے اپنی ہیت اپنا روپ کھو
دیا تو کیا ہوگا میری وہ یادیں جو خاص چیزوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔۔ جو خاص
شکلوں میں بستی ہیں وہ اگر مجھے نہ ملیں تو میں شاید سانس نہ لے سکوں گا
سوچتا ہوں جس صحن میں میری بہنیں اور میری ماں مل کر سبزیاں کاٹتی تھیں وہ
صحن وہاں نہیں ہوا تو میں رو پڑوں گا جس چارپائی پر بیٹھ کر میری ماں جو
کھانا مجھے دیا کرتی تھیں وہ چارپائی وہ ، اخبار، وہ عینک نہ ملی تو کیا
کروں گا ۔جس باورچی خانے میں جا کر اپنی بہنوں کو تنگ کرتا تھا وہ بھی بدلا
ملا تو میں کیا کروں گا
جس چھت پر لیٹے ، تارے گنتے ۔۔ بحث کرتے کرتے ہم سب بہن بھائی سو جایا کرتے
تھے اس تک جانے والا ہر رستہ بند ملا تو باہر کیسے آ پاؤں گا گھر اندر والے
پہلے کمرے کے ٹی وی لاّنج میں کوئی نہ ملا تو ؟
میری یادوں میں میرا گھر ایسا ہے جہاں ہر پل زندہ آوازیں تھیں پیار بکھرا
رہتا تھا ۔۔ خوشیاں کیکلی ڈالا کرتی تھیں ہر کمرے میں میری کتابیں اور کاغذ
میری خواہشوں کی طرح بکھرے رہتے تھے جنہیں کبھی میں نے سمیٹا ہی نہیں ۔
وہ گھر جو میرا تھا وہ نہ ہوا تو پرانی یادوں سے نئی یادیں کیسے بنا پاؤں
گا بھلا کیسے سب کو پھر جمع کر سکوں گا
زندگی تو جیسے مسلسل تبدیلیوں کا ہی نام ہے ، وقت بدلتا ہے ، حالات بدلتے
ہیں ، طور طریقے بدل جاتے ہیں ، حتی کے اکثر انسان بدل جاتے ہیں ، البتہ
کچھ لوگوں کے لیے یادیں ، اور یادوں میں ماضی کے گزرے کچھ لمحے صدیاں بن
جاتے ہیں ، اور وہ صدیاں ماضی کے ان ہی دریچوں میں روشن دانوں کی طرح ہمیشہ
جلتی ہی رہتی ہیں ، یہ زندگی کی مسلسل تبدیلیوں کا خوف ہی ہے کہ انسان ان
دیوں کو جلائے رکھتا ہے ۔
ایک چھوٹا سا لمحہ ہے جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں یہ بھسم نہیں ہوتا
قدموں میں لا کے ڈال دیں سب نعمتیں مگر
سو تیلی ماں کو بچے سے نفرت وہی رہی
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے |
|