فیس بک پر پابندی اور کامران خان کی گستاخی

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر حکومت پاکستان نے فیس بک پر پاکستان میں پابندی عائد کردی جو کہ ایک انتہائی مستحسن قدم ہے اور موجودہ حکومت کا ایک اچھا قدم کہا جاسکتا ہے۔ اس پابندی سے نام نہاد روشن خیالوں کے بھی منہ بند ہوجانے چایئیں جن کا یہ موقف تھا کہ احتجاج سڑکوں پر نکل کر نہیں بلکہ ان کی مصنوعات کا بائکاٹ کرکے کرنا چایئے۔ اور اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کے بجائے اس حرکت کے مرتکب گروہوں کو نقصان پہنچایا جائے۔

اس پابندی کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ فیس بک پر یہ مقابلہ منعقد کروانے والی ملعون گستاخ کارٹونسٹ نے مسلمانوں سے معافی مانگ لی ہے۔لیکن یہ ایک لولا لنگڑا معافی نامہ ہے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ پہلے تو آپ اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کریں اور اس کے بعد سکون سے معافی مانگ لیں،جبکہ معافی مانگتے ہوئے انہوں نے جو بات کی وہ کسی بھی طرح قابل یقین نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے َ َ انکا کا ایسا کوئی مقابلہ منعقد کروانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بلکہ اس کی بات کو غلط انداز میں لیا گیا اور وہ کبھی ایسی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتی۔َ َ قارئین یہ بات اس لئے ناقابل یقین ہے کہ فیس بک پر دس مئی سے ہی اس مقابلے کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا تھا،اس مقابلے کے خلاف ای میلز،اور بلاگز لکھے جارہے تھے۔اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج شروع ہوچکا تھا۔ اس وقت انہوں نے اس کی وضاحت کیوں نہیں کی اس کا اس کا ایسا مقابلہ منعقد کروانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب فیس بک اور یو ٹیوب پر پاکستان میں پابندی لگی اور ان کی آمدنی متاثر ہوئی تو ان کو خیال آیا کہ اب معافی مانگئی جائے اس سے یہ بات صریح طور پر عیاں ہوتی ہے معافی ایک ڈھکوسلا اور ڈھونگ ہے اور صرف پاکستان میں فیس بک پر لگی پابندی کو ختم کروانے کی ایک کوشش ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی ہے کہ معروف اینکر َ َ کامران خان َ َ لشکر کفار کے دلال بن کر سامنے آئے ہیں۔ یہاں ہم ایک بار پھر قارئین کو یہ بات بتاتے چلیں کہ ہمارا میڈیا دراصل آزاد نہیں بلکہ یہ بھی مغربی آقائوں کے ایجنڈے پر چلتا ہے ( اس حوالے سے ہم نے ہماری ویب کے مائی رپورٹ کے فورم پر ایک ویڈیو بھی پیش کی تھی جس میں معروف اینکرز اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں بلیک واٹر اور امریکی سی آئی ائے کے اہلکاروں کے ساتھ عیاشییوں میں مصروف ہیں ) اور ان کی گائیڈ لائن کے مطابق پروگرامات ترتیب دیتا ہے اور جناب کامران خان کی تازہ ترین کوشش اس کی ایک مثال ہے۔

کامران خان نے اپنے پروگرام َ َ آج کامران کان کے ساتھ َ َ میں اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں فیس بک اور یوٹیوب پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اس کارٹونسٹ نے تو معافی مانگ لی ہے اس لئے اب معاملہ ختم کردینا چایئے ان کے مطابق یہ احتجاج کا طریقہ درست نہیں ہے بلکہ لوگوں کو چاہئے تھا کہ وہ فیس بک پر جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے،اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیس بک اور یوٹیوب جیسی مفید ویب سائٹس پر پابندی سے طلبہ کا نقصان ہورہا ہے اور اس سے لاکھوں طلبہ متاثر ہورہے ہیں ۔جبکہ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ فیس بک اور یوٹیوب پر صرف پاکستان میں پابندی لگائی لگئی یے جبکہ تمام اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب کسی بھی ملک نے ان ویب سائٹس کو بند نہیں کیا ہےَ َ قارئین کرام ان کے زریں خیالات کا خلاصہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔

اب ہم ان کی باتوں کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ انکے تمام ہی دلائل انتہائی بودے اور ناقص ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ اس کے باوجود پوری قوم کے جذبات و احساست کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے ان گستاخانہ ویب سائٹس کی حمایت کررہے ہیں۔سب سے پہلے تو معافی کا معاملہ ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک صرف محبت ہی محبت اور رحمت ہی رحمت ہے۔اور یہ بھی درست ہے کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا لیکن اب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بطور امتی اب ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جہاد کریں۔ اور ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم ایسے گستاخوں کو معاف کردیں نبی مہربان صبی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے خلافت سنبھالتے ہیں پہلا کام مسیلمہ کذاب جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرکے شان رسالت میں گستاخی کی تھی کے خلاف لشکر کو روانہ کیا گیا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

دوسری بات جو انہوں نے کہی کہ احتجاج کا یہ طریقہ درست نہیں بلکہ مسلمانوں کو چایئے کہ وہ فیس بک پر جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے۔ ان کی یہ بات بھی بالکل غلط ہے کیونکہ انہی لوگوں کے بقول سڑکوں پر احتجاج نہیں کرنا چاہیے اپنی ہی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے تو جب حکومت نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان ویب سائٹس کو بند کیا تو کیا غلط کیا؟ پھر یہ بات کہ پاکستان میں فیس بک پر پابندی انیس مئی کی شام کو لگائی گئی ہے اور انیس مئی کی شام تک لوگ اس مقابلے کے خلاف فیس بک پر جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے لیکن فیس بک انتطامیہ پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا اور نہ ہی ان لوگوں نے کسی قسم کی معذرت،معافی یا مقابلے کو منسوخ کرنے کی بات کی، اس لئے کامران خان کا یہ کہنا کہ پابندی عائر کرنے کے بجائے مسلمان احتجاج کراتے بالکل غلط ہے۔

تیسری بات جو انہوں نے فرمائی کہ فیس بک اور یوٹیوب جیسی مفید ویب سائٹس پر پابندی سے طلبہ کا تعلیمی حرج ہورہا ہے اور اس سے لاکھوں طلبہ اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ اب اس بات پر ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔ جناب کامران خان آپ کس کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں، فیس بک کو میں نے بہت کم استعمال کیا لیکن جو لوگ فیس بک مستقل استعمال کرتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں پاکستان میں فیس بک عمومی طور پر ایک تفریحی اور ڈیٹنگ سائٹس کے طور پر استعمال ہوتی ہے یقیناَ َ سوفیصد لوگ اس سائٹ کو اس مقصد کے لئے نہیں استعمال کرتے لیکن اسی سے نوے فیصد لوگ اس کو صرف ڈیٹنگ سائٹ اور ایک تفریحی سائٹ کے طور پر ہی استعامل کرتے ہیں کم ازکم میں نے اس سائٹ پر کوئی علمی یا ادبی مواد نہیں دیکھا۔ اسی طرح یوٹیوب کا معاملہ ہے یقیناَ َ یوٹیوب پر اچھی اور تعلیمی ویڈیوز بھی ہوتی ہیں لیکن آپ لوگ خود بتائیں کہ کیا یوٹیوب کو ایک تعیلمی یا علمی سائٹ قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا یوٹیوب کو ایک ایسی سائٹ کہا جسکتا ہے جس کو آپ لوگ اپنی فیملی کے سامنے متعارف کرائیں؟ دیکھیں میں اپنی بات کی وضاحت اس طرح کرونگا کہ جو لوگ واقعتاَ َ انٹر نیٹ کو تعلیم کے لئے استعمال کرتے ہیں تو ان کے لئے یو ٹیوب پہلی چوائیس تو ہو سکتی ہے آخری چوائیس نہیں اور انٹر نیٹ پر بے شمار علمی اور تعلیمی سائٹس موجود ہیں جہاں سے کوئی بھی فرد اپنی علمی پیاس بجھا سکتا ہے اس لئے تعلیم کا بہانہ بنا کر ان گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرنا انتہائی مکروہ اور قابل نفرت فعل ہے۔

چوتھی بات جو انہوں نے کہی کہ دیگر اسلامی ممالک میں یوٹیوب یا فیس بک پر پابندی عائد نہیں کی گئی اور سعودی عرب میں بھی یہ دونوں ویب سائٹس اوپن ہیں اور لوگ ان سے استفادہ کررہے ہیں۔اس حوالے سے ہم انکی خدمت میں عرض کردیں کہ پہلی بات تو یہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ایک واضح فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ دنیا میں پاکستان اور اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں جو مذہب کے نام پر وجود میں آئیں ہیں۔ پاکلستان اسلام کے نام پر قائنم ہوا ہے اور یہاں کی عوام کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہے اگرچہ گزشتہ دس سالوں سے اس حوالے سے عوام کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن عوام کا اپنے دین کےساتھ رشتہ مضبوط ہے اور وہ ایسی کسی بھی حرکت کو پسند نہیں کرتے ہیں جو کہ دین اسلام کے منافی ہو کجا یہ کہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی عرض کردیں کہ سعودی عرب یا دیگر ممالک ہمارے لئے حجت نہیں ہیں اور یہ لازمی نہیں ہے کہ اگر وہ اس معاملے ہر ہماری طرح احتجاج نہیں کررہے ہیں تو ہم بھی چپ بیٹھ جائیں۔ اور اگر ہم کامران خان صاحب کی بات مان لیں تو پھر صرف اس معاملے میں سعودی عرب کی تقلید کیوں کی جائے پھر ہر معاملے میں آپ سعودی عرب کی مثال دیں۔ سعودی عرب میں شریعت نافذ ہے جبکہ ہمارے یہاں شریعت نافذ نہیں ہے۔سعودی عرب میں بادشاہت ہے جبکہ ہمارے یہاں جمہوریت (نام نہاد ) ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کے علم میں ہوگا وہاں میڈیا پر بھی بڑی سخت پابندی ہے اور آپ حکومت پر تنقید نہیں کرسکتے۔(کامران خآن صاحب آپ یہ بات بھی تو لوگوں کو بتائیں ) پھراگر آپ سعودی عرب کی مثال پیش کررہے ہیں تو یہ بھی عوام کو بتائیں کہ سعودی عرب میں سینما ہال کتنے ہیں؟ اگر آپ سعودی عرب کی مثال دیتے ہیں تو پھر مکمل مثال دیں عوام کو گمراہ کرنے کے لئے صرف فیس بک کی بات نہ کریں۔ اور یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کا سعودی عرب میں میڈٰیا کے ساتھ ساتھ سائبر سنسر بھی بہت سخت ہے اور جس طرح پاکستان میں فحش ویب سائٹس تک بچے بچے کی رسائی ہے تو سعودی عرب میں ایسی تمام ویب سائٹس کو سرکاری طور پر بند کیا گیا ہے۔کیا ایمانداری کا تقاضہ یہ نہ تھا کہ اگر آپ فیس بک اور یوٹیوب پر پابندی کے معاملے میں سعودی عرب کی مثال پیش کرتے ہیں تو پھر سعودی عرب کی طرح یہاں بھی ایسی ویب سائٹس پر پابندی کی بھی بات کرتے۔

قارئین کرام ہم اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے یہی کہیں کہ وہ اس ویب سائٹ اور اس مقابلے کے ذمہ داران کے خلاف اپنا احتجاج و بائیکاٹ جاری رکھے اور نام نہاد معافی کے جال میں نہ آئے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم حکومت سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ ان گستاخانہ ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ تمام ہی قسم کی فحش ویب سائٹس کو بھی بلاک کیا جائے۔ کامران خان صاحب سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پوری قوم کی دل آزاری کرنے اور گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت پر اللہ رب العزت سے توبہ و استغفار کریں اور پوری قوم سے معافی مانگیں

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520202 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More