مروجہ جہیز ایک سماجی خرابی

اسلام مسلمانوں کے لئے ضابطہ حیات ہے اور اس کی تعلیمات ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کی رہنمائی کرتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جو بھی معاشرہ اسلامی تعلیمات کا پابند رہا ہے جب تک اس نے اس سے رہنمائی لی، اسکی زندگی خوشگوار رہی اور اسے زندگی کے کسی موڑ پر تنگی اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن اسلامی تعلیمات سے روگردانی نے انسانوں کو مسائل کے دلدل میں اس قدر پھنسایا کہ نوبت خودکشیوں تک آ پہنچی ہمارا آج کا معاشرہ بھی یورپی اور ہندوانہ تہذیب و تمدن سے حد درجہ متاثر اور اسلامی تعلیمات سے نابلد ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مختلف مسائل کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ عورت کے جہیز کا ہے۔ اسلام ہمیں اعتدال کا درس دیتا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے، خیر الامور اوسطھا (کاموں کی اچھائی انکا اعتدال ہے) اسلام افراد و تفریط سے بچنے کی بھی تلقین کرتا ہے یہودونصاریٰ کی ہلاکت کا سبب بھی ان کا راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط میں مبتلا ہونا تھا۔ عورت ہمارے معاشرے کی وہ فرد ہے جس کے ساتھ اسلام سے قبل افراط و تفریط کا معاملہ کیا جاتا تھا، چنانچہ اسے وراثت سے محروم رکھنا اور زندہ درگور کرنا وغیرہ اسی افراط کا نتیجہ تھا۔ مگر اسلام نے عورت کو اس کے حقوق دلائے ہیں اور معاشرے میں اسکا ایک مقام پیدا کیا ۔ پھر مسلمانوں نے جب تک اسلامی تعلیمات کو اپنا مشعل راہ بنایا، عورت کو اس کے جائز حقوق ملتے رہے، صنف نازک خوشگوار زندگی گزارتی رہی، مگر جب مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اور اسے صرف مخصوص افراد کے عمل کرنے کیلئے رکھ چھوڑا تو حسب سابق اسے اپنی زندگی سے بیزاری ہونے لگی، اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود اسے تنگ نظر آنے لگی، اب ہر مسئلہ کو مسلمان نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ صنف نازک کے ساتھ ایک بار پھر ظلم و جور کا سلسلہ چل نکلا ہے، چنانچہ اب بیٹیاں جوان ہیں مگر اپنے ماں باپ کا منہ تک رہی ہیں جو اس غرض سے انکی شادی کے انتظامات نہیں طے کر پاتے کہ رخصتی کے وقت وہ اتنا سامان مہیا کر سکیں جس سے برادری میں ان کی ناک نہ کٹے اور وہ سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو جائیں یا کسی کے استفسار پر اس کو فخر سے بتایا جا سکے کہ ہم نے ان کو اس قدر مال و دولت سے نوازا ہے۔

جہیز کے سلسلے میں جتنی خرابیاں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں انکی بنیادی وجہ ایک بڑے عرصے تک مسلمانوں کا ہندوؤں کے ساتھ اختلاط ہے، ہندو تاریخ بتاتی ہے کہ:
(۱) ۔ قدیم ہندو قانون کی رو سے باپ، شوہر اور بیٹے وغیرہ کی وراثت میں عورت کا کوئی حصہ نہیں تھا، لہٰذا شادی کے موقع پر عورت کو خوب زر و زیور سے آراستہ کر کے داماد کے حوالے کیا جاتا تھا۔
(۲)دوسری بات یہ ہے کہ مرد و عورت کا بندھن جنم جنم کا ہوتا تھا، یعنی میاں بیوی کے درمیان طلاق وخلع کا کوئی تصور نہیں تھا لہٰذا والد جو کچھ دیتا نکاح کے موقع پر دے دیتا اور اپنی بیٹی سے مکمل دست بردار ہو کر اسے داماد کو بطور ہبہ دے دیتا اسے رسم ’’کنیا دان‘‘ بھی کہتے تھے۔

ہندو تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو معاشرے میں شادی کے تین طریقے رائج تھے۔
(۱) برھما(Brehma) لڑکی کو وید جاننے اور اچھے اخلاق والے شخص کو بطور ہبہ دیا جاتا تھا۔ اس طریقہ زواج میں والد اپنی بیٹی کو بیش بہا دولت، قیمتی سازوسامان ، تمام گھریلو ضروریات اور قیمتی زیورات پہنا کر رخصت کرتا، کیونکہ یہ ہمیشہ کا بندھن ہوتا تھا۔
(۲) گندھروا(Ghandharva) یہ لڑکی اور اس کے عاشق کا اپنی رضا سے شادی کرنیکا نام ہے جسے آجکل ہمارے معاشرے میں ’’لومیرج‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
(۳)اسورا (Asura) لڑکے کو لڑکی کے حصول کیلئے اس کے خونی رشتہ داروں کو بھاری رقم دینا پڑتی تھی اسے ہندو اسورا کہتے تھے۔ گویا باپ حقیقتاً بیٹی کو فروخت کرتا۔ یہ طریقہ بھی وطن عزیز کے بہت سے قبائل میں رائج ہے اور لوگ اپنی بیٹیوں کو بھاری معاوضہ کے عوض بیچ دیتے ہیں۔

ان میں پہلا طریقہ یعنی برھما ہندوؤں کے ہاں افضل شمار ہوتا تھا۔ جہاں آخری دو طریقوں (گندھروا، اسورا) کا اثر ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے عمومی شادیوں پر پہلے طریقے (برھما) کا بھی خاصا نمایاں اثرہے اور دیگر کئی غلط اور قابل ترک رسموں کے ساتھ ساتھ جہیز کی گرانی اسکی واضح مثال ہے۔

بہرحال شادیوں میں مروجہ جہیز کا عروج تیرہویں اور چودھویں صدی عیسوی میں راجپوتانہ میں ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں اس نے اہانت آمیز شکل اختیار کر لی اور ایک نفع بخش کاروبار بن گیا بس پھر جتنی ڈگری بڑی۔۔۔ اتنا ہی دام میں اضافہ۔۔۔

ان رسومات سے ہمارے معاشرے نے جو منفی اثر لیا ہے وہ کئی دیگر خرابیوں کا بھی باعث ہے۔
(۱) جہیز کو لڑکی کی شادی کیلئے ایک لازمی شرط سمجھا جاتا ہے جس کے حصول کیلئے انسان مال مال کی رٹ لگاتا ہوا مال حاصل کرنے کے جائز و ناجائز حربے استعمال کر ڈالتا ہے۔ اور دھوکا، خیانت اور رشوت جیسے بڑے امور کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اگر کوئی زیادہ ہی باضمیر ہو تو قرض جیسے جال میں تو ضرور کہیں پھنس جاتا ہے۔
(۲) جہیز کی مقدار اس کی لازمی اشیاء کی فہرست میں بھی اب روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب باپ کیلئے اپنی بیٹی کو ضروری و غیر ضروری سامان دینے کے ساتھ ساتھ اسکے شوہر کی ڈینٹنگ پینٹنگ کا لحاظ بھی رکھنا ہوتا ہے، ہاں! جہیز اب باپ کیلئے ایک تحفہ نہیں جو وہ اپنی بیٹی کو خوش دلی سے حسب استطاعت دے دے بلکہ معاشرے کا ایک ناسور بن چکا ہے جسے مجبوراً ادا کرنا پڑتا ہے۔
(۳) اب جہیز صرف وہ نہیں جو لڑکی شوہر اور اس کے سسرال کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور گھر کی زیب و زینت بنے اور ان کے لئے کافی ہو۔ بلکہ اب وہ جہیز ہے جو ہر دیکھنے والے کی نظر کو اچھا لگے اور جس پر ہر امیر و غریب مطمئن ہو۔
(۴) سب سے گھٹیا بات اس معاملے میں یہ ہے کہ بعض جگہ تو خود لڑکے والے جہیز کی بھاری مقدار کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ اس قدر بے ضمیر اور بے حس نہ ہوں تو پورے خاندان کی لڑکی کے جہیز پر نظر ضرور ہوتی ہے اور اس کے جہیز سے متعلق مختلف امیدیں باندھی جاتی ہیں خوش قسمتی سے اگر لڑکی والے ان امیدوں پر پورا اتریں تو فبھا ورنہ لڑکی کو طعنے دیئے جاتے ہیں اور اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔

یہ چند خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے حتیٰ کہ اہل جاہلیت کی طرح بچی کی پیدائش پر خوشی کی بجائے چہرے سیاہ ہوجاتے ہیں اور وہ بچی جس کی پیدائش کو رحمت کہا گیا ہے زحمت سمجھا جانے لگا ہے مگر یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ ہے اور عورت کے معاملے میں بھی اعتدال کو چھوڑ کر تفریط کی راہ اختیار کی گئی ہے۔

آج ذرائع ابلاغ، تعلیم و تربیت اور وعظ و نصیحت کے ذریعے ان تصورات کی قباحتیں مختلف انداز سے متواتر بیان کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ یہ عیب بن کر رہ جائیں، کسی بھی معاشرے کے غلط تصورات و رسومات اس طرح رفتہ رفتہ دور ہوئی ہیں کہ اس معاشرے کے ارباب اقتدار ، اہل علم و دانش اور بارسوخ طبقے مل جل کر ایک ذہنی فضا تیار کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ فضا فروغ پاتی ہے مگر آج ہمارا یہ طبقہ کچھ ایسے مسائل میں گھر چکا ہے کہ جس میں معاشرے کی تربیت و ذہن سازی جو کہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ قدامت پسندی و انتہا پسندی شمار کی جاتی ہے، مگر مایوس بیٹھ رہنے سے بھی تو کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ ایک داعی حق کو چاہئے کہ وہ اپنی دعوت قرآن و سنت کی روشنی میں جاری رکھے، مسلمان سوئے ضرور ہیں مگر مرے نہیں اسلامی تعلیمات ان کی متاع ہے وہ بیدار ہو کر اپنی متاع حاصل کرینگے(انشاء اﷲ) اور پھر کامیابی انکے قدم چومے گی۔

مسلمان خواتین بھی اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ یہ معاملہ براہ راست انہی سے متعلق ہے، لہٰذا ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے حلقوں میں جہیز کا صحیح اسلامی تصور اجاگر کریں اور اس سلسلے میں جو خرافات معاشرے کالازمی حصہ بن چکی ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ انشاء اﷲ آپ کا یہ اقدام بہت سی خرابیوں کا سدباب بنے گا۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372804 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.