تحریر قراتہ العین سکندر
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا باعث اس کے قابل اور ہنر مند افراد ہوتے ہیں
دور حاضر میں وہی اقوام ترقی کر رہی ہیں جو اپنے مروجہ نظام تعلیم میں فنی
تعلیم کی مسلمہ حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں۔ان اقوام نے باقاعدہ انڈسٹری کو
فروغ دیا ہے۔اور فنی تعلیم کو نصاب میں جزو لازم قرار دیا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم کیا ہمیں وہ سب کچھ
فراہم کر رہا ہے؟ کیا ہنر مند افراد ہمیں مہیا کر رہا ہے۔فنی تعلیم ملک کی
ترقی اور خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔بہت سے کورسز کروا کر
ہنر مند افراد سے حتی المقدور ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے فائدہ مند
ثابت ہو سکتے ہیں۔اور بہت سے ادارے اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔اور انواع و
اقسام کے کورسز کرواے جا رہے ہیں۔سول ٹیکنالوجی الیکٹریکل ٹیکنالوجی
الیکٹرونکس ٹیکنالوجی مکینیکل ٹیکنالوجی انسرومنٹ ٹیکنالوجی آٹو اینڈ فارم
ٹیکنالوجی ریفریجریشن ایر کنڈیشنگ ٹیکنالوجی فوڈ ٹیکنالوجی ٹیکسٹائل
ٹیکنالوجی آٹو اینڈ ڈیزل ٹیکنالوجی کیمیکل ٹیکنالوجی ویلڈنگ ٹیکنالوجی
وغیرہ۔
فنی سکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ اور طالبات کے ہاتھوں میں
ازخود ہنر آجاتا ہے۔جس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ پر بوجھ نہیں بنتے بلکہ کسی
نہ کسی کام۔میں لگے رہتے ہیں۔اس لیے فنی تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے
انکار ممکن نہیں ہے۔خواہ وہ سرکاری اداروں سے حاصل کی گء ہو یا پراؤٹ
اداروں سے۔
اس بات کا ادراک تو ہمیں کرنا ہو گا کہ ہم اپنے ملک کے لیے کس شے کے متمنی
ہیں پیداواری صلاحیتں اجاگر کرنے والے افراد خانہ یا بے روزگاری کا طوق گلے
میں لٹکاے ہوے افراد۔
اگرچہ حکومت کی یہ سکیم قابل تحسین ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں فیس
نہیں ہو گی کتابوں کی فراہمی بھی مفت ہوگی تاکہ مالی پریشانیوں میں ڈوبے
افراد تعلیم حاصل کر سکیں۔اس کے باوجود بھی ابتدای تعلیم کو آغاذ میں ہی
خیر باد کہ دینے والے بچوں کی شرح بہت ذیادہ ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ
منفعت دینے والے بچے خواہ ہاتھ سے کوی ہنر کے تحت کمای لانے کا سبب ہوں یا
باقاعدہ بھیک مانگ کر مالی تعاون کر رہے ہوں دونو ں صورتوں میں والدین بچوں
کو سکول بھیجنے سے گریزاں ہوں گے کیونکہ یوں روزی روٹی کا ایک ذریعہ ہا تھ
سے جاتا رہتا ہے۔
ایک وجہ سکولوں کی خستہ حالی بھی ہے۔اکثر بچوں جھلسا دینے والی گرمی میں
دھوپ پر بیٹھا دیا جاتا ہے وجہ وہی سکول کی عمارت کی خستہ حالی اور کمروں
کی عدم دستیابی۔اگر کوی کمرہ ہے بھی تو یوں جیسے اپنی آخری سانسیں گن رہا
ہو اور کسی وقت بھی سر پر آن گرے گا۔تپتی گرم۔زمین پر بیٹھنا ان بچوں کی
مجبوری بن جاتی ہے ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر وہ سکول سے بھاگ جاتے ہیں۔
ایک وجہ اساتذہ کرام کی کم دستیابی بھی ہے۔ایک ہی استاد کو بیک وقت قصبات
میں دو تین کلاسز کو دیکھنا پڑتا ہے وہ بھرپور توجہ نہیں دے پاتے۔جس کی وجہ
سے بچہ بدظن ہو کر دلبرداشتہ ہو کر سکول سے جان چھڑانے۔لگتا ہے۔
پھر ایک بڑی وجہ اساتذہ کرام کا ہر وقت کا ناک پہ غصہ دھرا رہنا بھی ہے جس
کا اکثر اوقات وہ بلا دریغ بچوں کے چہرے اور جسم پر نت نیے مار کٹای سے
رونما ہونے والے نشانات ہیں جو بطور تحفہ وہ گھر لے کر جاتے ہیں اور یوں
استاد کے اس ناروا سلوک کے باعث وہ تعلیم سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں۔کم
تعلیم یافتہ اساتذہ اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور لاٹھی کا بے دریغ استعمال
کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے۔سکول سے راہ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں۔
آج کل جو ملکی حالات چل رہے ہیں مایں اپنے جگر گوشوں کو سکول بھیجتے ہوے
ایک خوف میں مبتلا رہتی ہیں جب تک بچے صیح سلامت گھر نہیں آجاتے۔
ہمارا ایک اور المیہ یہ ہے کہ جب بچہ سکول جانے کے قابل ہوتا ہے تو ایڈوانس
فیس کے نام پر پرایوٹ تعلیمی ادارے اتنی رقم کا تقاضا کرتے ہیں کہ شبہ
گزرتا ہے کہ بچوں کا سکول میں ایڈ میشن کروانے آے ہیں یا مکان گروی
لینے۔یوں اس پریشانی میں اکثر بچوں کی عمر بڑھ جاتی ہے جو بعد میں تعلیم کے
خاطر خواہ حصول میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قابل اور درد مند دل رکھنے والے افراد کو اس فیلڈ
میں لایا جاے اور اہم منصب دیے جایں تاکہ تعلیم کا حصول ممکن بنایا
جاسکے۔ناخواندگی کو قابو میں کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی پروگرام
مرتب کیے جایں جو تعلیم کے حصول میں معاون و مددگار ثابت ہو سکیں۔جدید
سائنسی اور جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ اساتذہ کو اہم پوسٹ دی
جایں۔تعلیم کی خامیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالی جاے جہاں جہاں کمیوں کا ادراک ہو
وہاں فی الفور اصلاح کی جاے۔اﷲ رب العزت پاکستان کا نام ہمیشہ ہر میدان میں
سر بلند رکھے۔آمین |