تحریر ۔۔۔۔۔سارہ مشتاق
جی ہاں بلکل جب مفت مال ملے تو دل بے رحم ہو ہی جاتا ہے آخر آج کے دور میں
مفت مال کسے پسند نہیں اور پھر کسے پروا کے مال جائز طریقے سے آیا یا کہ
پھر ناجائز طریقے سے کمایا گیا اور ایسا کیوں نہ ہو ہم آخر نام ہی کے تو
مسلمان ہیں عمل کی پروہ کسے ہے ۔کہتے ہیں ناکہ لیا اـس نے نہیں جسے ملا
نہیں اور جسے ملا اس نے چھوڑا نہیں۔کیا پاکستان کا کوئی ایک ایسا ادارہ ہے
جس کے ملازمین سو فیصد ایمان دار ہو اور اس ادارے کو مثال کے طور پر سامنے
رکھا جا سکے اور پاکستان میں اسا کوئی ادارہ نہیں جو کہ کرپشن جیسی لعنت سے
پاک ہو ۔
سوچ رہی ہوں بات کہاں سے شروع کروں تمہید تو کافی لمبی ہوگئی ،آج بھی ہمارا
موضوع تعلیم ہی ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ سیڑھی ہی جس سے ہمارا معاشرہ اور
ہمارا ملک پاکستان ترقی پاسکتے ہیں۔آج میں اساتذہ کے مسائل کو سامنے لاؤں
گی اگرچہ بہت سے لوگ پہلے سے ان مسائل کا شکار ہیں یا کم سے کم آشنا ضرور
ہیں،ہوسکتا ہے کہ میری اس تحریر سے کسی کے زخم ہرے ہوجائے یا پھر کسی کے
زخموں پہ میرے یہ الفاظ مرہم ثابت ہو۔آج بات کروں استاد کے ظلم کی یا پھر
استاد پر ظلم کی،دونوں صورتوں میں کیا یہ کہاوت ٹھیک بیٹھتی ہے کہ مال مفت
دل بے رحم۔
اساتذہ تو بے چارہ مظلوم طبقہ ہے خاص طور پر پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے
والا اساتذہ کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ عزت نفس
کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ادارے تو ادارے سکول کالجوں میں پڑھنے کے لئے آنے
والے بچے اور ان کے والدین کسی بھی وقت استاد کی عزت اتار کر استاد کے
ہاتھوں میں دے سکتے ہیں ۔استاد جو ایک قوم کے مستقبل کو سنوارتا ہے مگرآج
اسکا اپنا مستقبل ایسا ہے کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ایک زمانہ تھا استاد
بولتا تھا اور شاگرد سنتا تھا ،اگر کبھی استاد راستے میں مل جاتا تو ادب سے
شاگرد کا سر نہیں اٹھتا تھامگر آج شاگرد استاد کو پیسوں کے ترازو میں تولتا
ہے۔ جو قومیں اساتدہ کی عزت نہیں کرتی ان قوموں کی دنیا بھی عزت نہیں کرتی
نہ ہی دنیا میں ان قوموں کا کوئی نام ہوتا ہے ۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ
اٹلی میں میں میرا ٹریفک چالان ہوا اور مصروفیت کے باعث وقت پر فیس ادا نہ
کر سکا تو کورٹ جانا پڑا اور جج نے وقت پر فیس ادا نہکرنے کی وجہ دریافت کی
تو میں نے کہا کہ پروفیسر ہوں ،مصروفیت ایسی رہی کہ وقت ہی نہ ملا ،اس سے
پہلے کے میں بات پوری کرتا کہ جج نے کہا
''A TEACHER IS IN THE COURT'
اور سب لوگ کھڑے ہوگئے۔اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کردیا۔اس
روز میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔
استاد کا ادب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے ،استاد معاشرے کی قابل قدر اور قابل
احترام شخصیت ہے۔مگر دور حاضر میں اس احترام و اداب کو بھلا دیا گیا ہے۔اگر
ہم چاہتے ہیں کہ ہم ہمارا ملک آگے کی طرف گامزن ہو تو ہمیں اپنے اساتذہ کو
وہی مقام دینا ہوگا جو کہ مہذب معاشرے اور توقی یافتہ ممالک اپنے اساتذہ کو
دیتے ہیں اور جس کے وہ حقدار ہیں |