اصلاح فکر واعتقاد کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے امیر

 مولانا محمد شاکر علی نوری اکابراور ارباب دانش کی نظر میں

داعی کبیرحضرت علامہ محمد شاکر نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کی شخصیت خدمت دین کی بدولت پوری دنیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے۔۵؍ستمبر۱۹۹۲ء کوممبئی عظمیٰ کی سرزمین پرخداورسول اکرمﷺ کے کرم وعنایت پر بھروسہ کرتے ہوئے’’ تحریک سنّی دعوت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔حضرت موصوف کی قائدانہ صلاحیتوں نے اس تحریک کو عالمی تحریک بنادیا۔یہ تحریک ممبئی سے اٹھی اوردیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔آپ جہان بھر میں اپنی خطابت کے ذریعے اصلاح امت کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں،ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے ذریعے بھی رہ نمائی فرمارہے ہیں۔آپ نے ملک وبیرون ملک کے طول وعرض میں متعدددارالعلوم ا وراسلامی انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام فرمایاہے۔ہر پانچ سالوں پر دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔۲۰۰۹ء ،۱۵۔۲۰۱۴ء اور۲۰۱۶ء کی سروے رپورٹ میں مولانا موصوف کانام بھی فہرست میں موجودہے۔آپ کو خانۂ کعبہ میں نماز اداکرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔مولانا شاکر نوری نے اپنے اصلاحی کاموں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور اہل سنت کے عظیم عالم دین ہیں۔آپ کی شخصیت کے گوناگوں اور آفاقی پہلوؤں کی مکمل عکاسی کرناراقم کی بساط سے باہر ہے اس لیے حضرت موصوف کی سیرت وشخصیت کو اہلسنّت کے اکابر و ممتازعلمائے کرام کے تاثرات و اقوال کی روشنی میں پیش کیاجاتا ہے۔

۱۷؍مارچ ۱۹۶۰ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی جناب عبدالکریم بن جناب محمد ابراہیممیمن نوری کے یہاں مولاناشاکر علی نوری کی ولادت ہوئی۔آپ کے یہاں اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتہ چلتاہے۔’’مولانا موصوف نے ایس ایس سی (میٹرک)تک تعلیم جونا گڑھ میں حاصل کی ،مدرسہ عرفان العلوم اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میں حفظ قرآن کیا۔ وہیں تجوید وقراء ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل مینارہ مسجد ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر تبلیغ کے میدان میں آگئے، مولانا کے چند اساتذۂ کرام یہ ہیں۔

حضرت مولانا غلام غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا نور الحق (سابق استاذ دارالعلوم محمدیہ)، مولانا محمد حنیف خان اعظمی مبارکپوری، مولانا مجیب الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان صاحب صدر المدرسین دارالعلوم محمدیہ، حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد برکاتی اساتذۂ دارالعلوم محمدیہ وغیرہ سے تعلیم حاصل کی اور اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہے۔

مولاناشاکر نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کا سوانحی خاکہ محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی (صدر شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، اعظم گڈھ، یوپی)کے قلم سے پیش خدمت ہے :
’’مولانا موصوف کو سند الفقہاء،حبر الامہ، حضرت سیدی مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت اور تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری دام ظلہٗ ،سجادہ نشین آستانۂ عالیہ قادریہ بغداداور سرکار نظمی مارہروی سے شرف خلافت حاصل ہے، یہ حسن اتفاق کہ مولانا بھی نوری ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ بھی نوری ہیں، اور آپ کے والد مرحوم بھی نوری تھے اور یہ بندہ گنہگار راقم الحروف بھی اسی سلسلۂ نوریہ سے منسلک ہے اور آج تو ایک جہان اسی نور عرفان سے روشن ومنور ہے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے

لیکن مولانا نے نوری پیر سے جو اکتساب نور کیا وہ قابل رشک ہے کیونکہ مرشد بر حق کے فیضان نے انہیں سنت کا عامل بھی بنا دیا اور شریعت کا مبلغ بھی ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔عمامہ شریف برابر زیب سر رکھتے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے احکام سے روشناس کرنے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تقریباََ سترہ سال پہلے ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی جو بہت مقبول ہوئی، ہندوستان، برطانیہ، کناڈا، امریکہ، افریقہ وغیرہ میں اس کے پرچم تلے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور برطانیہ میں عظیم الشان پیمانے پر سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں۔ وادیٔ نور آزاد میدان ممبئی میں تقریباََ پانچ لاکھ فرزندانِ توحید جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں راقم الحروف نے بھی بارہا شرکت کی ہے، ان میں اصلاح عقائد اور اصلاح اعمال کے مختلف موضوعات پر علما کے نورانی بیانات ہوتے ہیں، خود مولانا کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ کی روشنی میں بہت عمدہ اور اثر انگیز خطاب فرماتے ہیں، اجتماعات کا ایک اجلاس فقہی احکام ومسائل کے لیے خاص ہوتا ہے ،جس میں لوگوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔ وہابیوں،دیوبندیوں کے عقائد اور احکام کے تعلق سے بھی سوالات ہوتے ہیں جن کے تفصیلی جوابات کتاب وسنت کی روشنی میں دئیے جاتے ہیں۔اسٹیج کافی وسیع وعریض ہوتا ہے جو علما، فقہا، ائمہ، قرا، حفاظ اور شعرا سے بھرا ہوتا ہے۔․․․․․․․․․․․․․․․․ایک ایسا شخص جس کی کل تعلیم درجۂ خامسہ تک ہو اور وہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دے،قابل رشک وقابل تقلیدہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مرشد بر حق حضور سیدی ومولائی وملجائی مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نوری فیضان ہے جو مولانا موصوف پر برس رہا ہے۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۳۸)

نبیرۂ رئیس القلم مولاناخوشتر نورانی صاحب (ایڈیٹر جام نور،دہلی)نے اپنے میگزین کے لیے امیر سنّی دعوت اسلامی کا انٹرویولیا۔ ادارتی نوٹ میں امیر سنّی دعوت اسلامی کے دعوت وعزائم و تصنیفی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولاناخوشتر نورانی صاحب رقم طراز ہیں:
’’مولانا تعلیم دین کو عام کرنے کے لیے ایک سو گیارہ مدارس قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں جب کہ اب تک ایسے ۲۵؍مدارس اسکول قائم ہوچکے ہیں۔(تا وقت تحریر پچاس اداروں کاقیام عمل میں آچکاہے)مولاناکے منصوبوں میں انگلش میڈیم اسکول اور ہاسپٹل کا قیام بھی شامل ہے۔مولاناموصوف کا وقت تبلیغی اسفار،تربیت مبلغین،تحریک کی بہتر تنظیم اور اپنے مدارس کی نگرانی اور تجارت جیسے امور میں صرف ہوتاہے۔ہر سال حج وعمرہ کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔موصوف کوخانۂ کعبہ مقدسہ کے اندرون میں عبادت کرنے کا اعزاز بھی تین سال قبل حاصل ہوا۔ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک سہ روزہ فقہی سمیناراورآخر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتے ہیں۔تصنیف وتالیف سے بھی رشتہ ہے۔ماہ رمضان کیسے گزاریں؟،گلدستۂ سیرت النبیﷺ،مژدۂ بخشش (نعتوں کا مجموعہ)، عظمت ماہ محرم اور امام حسین،قربانی کیا ہے ؟،امام احمد رضااور اہتمام نماز،بے نمازی کا انجام ،مسلم کے چھ حقوق، حیات خواجہ غریب نواز،خواتین کا عشق رسول اور خواتین کے واقعات ‘‘ وغیرہ آپ کے اصلاحی قلم کی شاہکار ہیں۔مولانااپنے خون جگر سے اپنی اصلاحی تحریک ’’سنّی دعوت اسلامی ‘‘کی سینچائی میں مصروف ہیں۔‘‘(جام نور،ص۴۴،نومبر۲۰۰۹ء)

یہ تو رہاسوانحی خاکہ اور دعوتی عزائم کی چندجھلکیاں۔اب اہل سنت کی بڑی خانقاہوں کے سجادگان اور ممتاز علمائے کرام کے تاثرات اورتقریظات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت سیدشاہ آل رسول نظمی مارہروی علیہ الرحمہ
شہزادۂ حضورسیدالعلما حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے ساتھ جب امیر سنّی دعوت اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:
’’اس مستانے کی نذر جسے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو اس کے حبیب ﷺکی سنت ہے،یعنی تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری برکاتی سے ہے جنہیں میں اپنے بھائی کی طرح چاہتاہوں۔‘‘(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)

’’غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین گوئی بھی عکس ریز ہے۔ (مرجع سابق)

حضرت سید نظمی میاں علیہ الرحمہ نے امیر سنّی دعوت اسلامی کو ۱۷؍صفرالمظفر ۱۴۳۳ھ کو خلافت سے نوازاتھااور خلافت عطا کرتے وقت فرمایاتھاکہ :
’’شاکر بھائی!خوب لگن سے دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ فقیر برکاتی اور خاندان برکاتیت آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت دیتاہوں جو حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دی تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور قدیمہ دونوں کی خلافت دیتاہوں۔(مرجع سابق)
پیرطریقت امین ملت حضرت الحاج الشاہ پروفیسر سیدمحمد امین میاں
قادری برکاتی مدظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ

مولاناشاکر نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)امیر سنّی دعوت اسلامی کی کتاب ’’برکات شریعت ‘‘کی تقریظ میں رقم طراز ہیں:
’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک میں شامل ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اﷲ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال وکمال اور تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین بجاہ الحبیب الامین وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین(برکات شریعت ،حصہ اول ،ص۳۴)

حضور شرف ملت حضرت سید محمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی
اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن رائٹر حضورشرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں۔ امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر حضور شرف ملت اپنے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔

نعت نبیﷺ بڑا ہی سخت میدان ہے۔ اس راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں عمر بھر کیلیے معتوب بنا سکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسولﷺ پر سمجھوتہ۔

شاعری، شاعر کے دل کی ترجمانی کرتی ہے، جناب شاکر نوری کو اپنے پیرانِ سلسلہ اور تحریک سُنی دعوت اسلامی سے والہانہ عقیدت و محبت ہے، ان دونوں جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے آنکھیں خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔ (مژدۂ بخشش نعتوں کا مجموعہ،ص۵)
برادر گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد ؔ رضوی نے مولانا محمد شاکر نوری کی شاعری پر ۲۰۰۶ء میں ’’مولانا محمد شاکر نوری ـ: دبستان بریلی کے خوش فکر شاعر ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا تھا جو سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ، ممبئی ، شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا ۔ چار صفحے کا یہ مضمون بڑی عمدگی اور محنت سے لکھا گیا تھا ، اس مضمون کے اخیر میں مشاہدؔ رضوی لکھتے ہیں :
’’ حضرت مولانا موصوف کی نعتیہ شاعری میں دبستان بریلی کے معاصر شعراے کرام کی طرح سوز وگداز ، کیف وجذب اور محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی تڑپ اور کسک پائی جاتی ہے ، آپ کی شاعری کے مضامین میں آورد نہیں بلکہ آمد آمد ہے ۔ طرز ادا کا بانکپن ، اظہار مدعا میں عاجزانہ پن ، آسان اور سہل الفاظ میں بات کو پیش کرنا ، افراط وتفریط سے مبرا ، محتاط وارفتگی کے ساتھ شاعرانہ پیکر تراشی کا چابک دستی سے استعمال اور جان ایمان مصطفی جان رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی محبت والفت کا اظہار واشتہار آپ کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ‘‘ (سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ، ممبئی ، شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء ص: ۴۳)

حضرت علامہ منان رضامنانی میاں صاحب قبلہ بریلی شریف
امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی جو باغ وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب نے تحسین آفرین کلمات ارشاد فرمائے،ملاحظہ کریں:
’’پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہلسنّت سنّی دعوت اسلامی کی جان، مسلک امام احمد رضا خاں رحمۃ اﷲ علیہ کو پھیلانے والا انسان، نازش سنّیت، حضرت مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں کہ حضور مفتی اعظم ہند کی روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے کہ ان کے کام کو نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام کو انگلینڈکی زمین پر بھی دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے پروگرام،لسبن کے پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم اسلامی میں منانی گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدﷲ!سولہ ملک میں جانا ہوا،کہیں ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا،ہر جگہ بستر لگاہوامل گیا۔وہ بستر اٹھاتے پھرتے ہیں جن کا کوئی نہیں،ہماراتو سب کچھ ہے ؂
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچاہمارا نبی

اﷲ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد میں ہم گئے پہلے یہ گئے،سب بستر لگے لگائے مل گئے۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل ۲۰۰۸ء ،نندوربارمہاراشٹر)

خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ جملے:’’منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی نوری صاحب کی بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔

مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب مصباحی
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہندحضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب (سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن،برطانیہ)روز اول ہی سوادِ اعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کی نہ صرف سرپرستی فرمارہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں تحریک کی بنیادوں کوبھی مستحکم کررہے ہیں۔تحریک عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی’’کسی بات کو شروع کرنے‘‘کے ہیں۔اصطلاحاً کسی مقصد کے حصول کے لیے جب افراد کا گروہ کوشش کرتا ہے تو اسے تحریک کہتے ہیں خواہ کسی بھی حد تک کامیابی حاصل ہو۔

۵؍ستمبر۱۹۹۲ء کوممبئی عظمیٰ کی سرزمین پرخداورسول اکرمﷺ کے کرم وعنایت پر بھروسہ کرتے ہوئے’’ تحریک سنّی دعوت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔یہ تحریک ممبئی سے اٹھی اوردیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔حضور مفکر اسلام جابجااپنے خطبات میں تحریک کی سرگرمیوں کو سراہتے اور حضرت علامہ محمد شاکر نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی)کی خدمات کاتذکرہ فرماتے ہیں۔

سنّی دعوت اسلامی کے مقاصد پر آپ نے ایک خصوصی خطاب بھی فرمایاہے،اس خطاب میں حضور مفکر اسلام نے سنّی دعوت اسلامی کے اغراض ومقاصد،مستقبل کے عزائم، تحریک کی خدمات اور امیر تحریک کی کاوشوں پر سیر حاصل گفتگوفرمائی ہیں۔خطاب کے آغاز پر آپ سامعین سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
’’یہ سنّی دعوت اسلامی کیاہے؟اس کے اغراض ومقاصد کیاہے؟اور یہ پورے ملک میں جگہ جگہ جلسے منعقد کرتی ہے اس کے پیچھے کیامقاصداور کیا مصالح ہیں،یہ جانناہم سب کے لیے بہت ضروری ہے ۔(مقاصد سنّی دعوت اسلامی،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول ، ص۳۰۵)

ان تمہیدی کلمات کے بعد آپ نے تحریک کی ضرورت کو بیان فرمایااور تحریک سنّی دعوت اسلامی کے اغراض ومقاصد کویوں پیش کیا:
’’سنی دعوت اسلامی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ صدیوں کی سوئی ہوئی قوم کو عمل کی طرف راغب کیاجائے،قومِ مسلم کو اس کے فرائض اور محسوسات کو یاد دلایاجائے،اس کی ذمہ داریاں اسے بتائی جائیں،اسے مائل بعمل کیاجائے تاکہ جس زوال سے آج قومِ مسلم دوچار ہے اس زوال کے ماحول سے وہ خود کو نکال سکے اور ترقی کی راہوں پرگامزن ہوسکے۔ (مقاصد سنّی دعوت اسلامی،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۳۰۶)
اسی خطاب میں حضور مفکراسلام نے تحریک کے دفعات ومقاصد کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک اور مقام پریوں ارشاد فرمایا :
’’سنّی دعوت اسلامی کابنیادی مقصد یہی ہے کہ آپ کو دعوت کی طرف بلایا جائے، اس نظام اور اس آئین کی طرف بلایاجائے جو نظام اور آئین ہمارے رسول نے عطا فرمایاتھا اور جس کو ہمارے اسلاف نے انتہائی محنتوں کے ساتھ ،انتہائی مشقتوں کے ساتھ ،انتہائی تکلیفوں کے ساتھ ہم تک پہنچایاہے،اس نظام کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے ۔(مقاصد سنّی دعوت اسلامی،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص۳۱۷)

اسلام ایک مکمل نظام زندگی فراہم کرتاہے۔اسی لیے امیرِ تحریک اور آپ کے تربیت یافتہ وفیض یافتہ مبلغین چندمخصوص باتوں کی نہیں بلکہ مکمل اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے حضور مفکر اسلام علامہ اعظمی صاحب اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:’’میں مبارک باد دیتاہوں سنی دعوت اسلامی کے قائدین کوکہ انہوں نے اس ضرورت کو پہلی بار محسوس کیاہے کہ اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے متعارف کرایاجائے۔اسلام ان کی پرائیوٹ زندگی کا بھی رہنما ہواور ان کی اجتماعی زندگی کا بھی۔ان کی معاشرتی زندگی کا بھی،ان کی معاشی زندگی کا بھی،ان کی قومی زندگی کا بھی اور ان کی آئینی زندگی کا بھی۔بلکہ زندگی کا کوئی گوشہ اسلام کے مقدس نظام سے الگ نہ ہو۔ایسا نہ ہوکہ سجدے تو کئی سو کئے جائیں اور حلال وحرام کا امتیاز نہ ہو۔ایسا نہ ہوکہ عبادتیں تورات بھر کی جائیں مگر دن بھر غفلت کی طویل نیند کے ذریعے سے وقت گزاراجائے۔یہ عبادت موت کی وادی میں لے جانے والی ایک خاموش نیند ہے۔سرورکائنات محمدرسول اﷲﷺکے صحابہ کا مزاج کیاتھا؟وہ رات کے عابد ہواکرتے تھے اور دن کے غازی ہواکرتے تھے،یہ مزاج ان کا تھا،یہ مزاج جب تک پیدانہیں ہوگاہم اپنی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔(دعوت اسلام کی اہمیت،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۰۱)

آج لوگ آسانی چاہتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کی طرف گامزن ہونے کی بجائے اپنی آسائش وسہولت کے پیش نظرکسی نہ کسی طرح اسلامی احکامات وضوابط میں سہولت تلاش کرنا چاہتے ہیں۔چوں کہ مکمل اسلام کی دعوت دینا مشکل وکٹھن ہے۔ہزارہا تکالیف ہیں اس راہ میں۔اس لیے حضور مفکر اسلام تحریک سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے سنّی دعوت اسلامی کے کارکنو!تم نے ایک بہت بڑی ذمہ داری سنبھالی ہے۔رسول اﷲﷺکے نظام رحمت سے اس دنیاکو آشنا کرناچاہتے ہوجو انسانیت سے گرکر درندگی کی سطح پر اتر چکی ہے۔تم ایک بہت بڑے نظام کے امین ہو اس لیے تمہاری ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہیں،ان ذمہ داریوں کو محسوس کرو۔(نظام مصطفیﷺ،خطبات مفکر اسلام ، جلد اول،ص۲۰۰)

راہِ دعوت و تبلیغ میں بے شمار پریشانیاں ہیں۔ کبھی اندازِ دعوت کا تمسخر اڑایا جائے گا تو کبھی دعوت کے مطابق عمل میں کمی وغیرہ سے طعنہ سننے کی نوبت بھی آئے گی لہٰذا ہر چیز کو برداشت کرنے کا جذبہ داعیان دین میں ہونا چاہیے۔اسی کے پیش نظر حضور مفکراسلام ایک اور خطاب میں مبلغین کے عزائم کو تقویت فراہم کرتے ہوئے، مستقل مزاجی،سخت محنت اور توکلت الی اﷲ کی دعوت دیتے ہوئے یوں لب کشاں ہوئے:
’’سنّی دعوت اسلامی کے مجاہدو!اسی دعوت کو عام کروجو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت تھی۔ایک لمحے کے لیے بھی تم جادۂ مستقیم سے اپنے قدم کو مت ہٹانا،کوئی بھی مصلحت ہو،کوئی بھی سہل کوشی،کوئی بھی سہل انگاری،کوئی بھی سہولت کا راستہ تم کو مشکلوں کی راہ سے دور نہ کرنے پائے،مشکلیں آئیں گی،دشواریاں آئیں گی اس راستے میں لیکن ان مشکلات پر قابوپانے کے لیے اﷲ تعالیٰ پر اعتماد بے پناہ ضروری ہے۔(دعوت اسلام کی اہمیت،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص۱۲۰)

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’پورااسلام پیش کرو،مکمل اسلام پیش کرو،سنّی دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نکلنے والاآپ کا داعی ،آپ کا مبلغ اور آپ کا نوجوان ساتھی،اس یقین کے ساتھ نکل رہاہوکہ میرے شکم میں ایک دانہ بھی حرام نہیں ہے۔اس یقین کے ساتھ نکل رہاہوکہ میری نگاہ کبھی کسی نامحرم کو اختیاری نہیں دیکھے گی۔دل ونگاہ کے ایمان کے ساتھ نکل رہاہو ؂
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

میرے عزیز و!خوشی کی بات ہے کہ اس تحریک میں نوجوان زیادہ شامل ہیں۔ خوداس تحریک کے جو امیر ہیں،وہ بھی نوجوان ہیں۔بہت اچھے وقت میں یہ ذمہ داری انہوں نے سنبھالی ہے۔خداان کو طویل عمر عطا فرمائے۔لیکن کسی بھی تحریک کے پھلنے اور پھولنے کے لیے آدھی صدی تو چاہیے نا؟انہوں نے ایسے وقت میں سنبھالا ہے کہ آدھی صدی تک اِن شاء اﷲ اس کی ذمہ داری کو وہ نبھاسکتے ہیں۔نوجوانوں کو بھی انہوں نے ساتھ لیاہے اور یادرکھوجب کسی قوم کا نوجوان سنبھل جاتاہے تو پوری قوم سنبھل جاتی ہے ؂
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
خدایا یہ دعا ہے تجھ سے میری
میرانور بصیرت عام کردے
(دعوت اسلام کی اہمیت، خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۱۶)

حضور مفکر اسلام نے مذکورہ پچاس سالوں پر مزیدتبصرہ کرتے ہوئے کس قدر ہمت افزا کلمات ارشاد فرمائے ہیں:
’’ابھی توآپ نے کام کاآغاز کیاہے اور اﷲ اکبر!یہ جم غفیر ہے۔دوسروں کا کام آج کا نہیں پچاس سال پرانا ہے۔پچاس سال میں تو آپ کے بینرکے نیچے ان شاء اﷲ پورا ہندوستان ہوگا۔اگر آپ کا اخلاق رہا،آپ کی محبت رہی،پوری دنیاہوگی۔آپ کا کام تو پچاس مہینے کا بھی نہیں ہے،پچاس دن کا ہے۔دوسروں کا کام پچاس سال کا ہے اس لیے اس سے مقابلہ مت کیجئے۔پچاس سال میں تو ان شاء اﷲ پوری دنیاآپ کے جھنڈے کے نیچے رہے گی۔خداآپ کی عمر دراز فرمائے اور محنتوں کی توفیق عطا فرمائے۔(دعوت اسلام کی اہمیت،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۴۵)

سنّی دعوت اسلامی کے ذریعے باربار علم وعمل کی دعوت دیئے جانے کی اہمیت وافادیت کو بیان کرتے ہوئے حضور مفکر اسلام نے فرمایاکہ :
’’اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ اگلے سو دوسوسال میں ہم دنیاکی قیادت کریں تو ہمیں کم از کم اپنی پندرہ نسلیں علم اورتجربہ کے راستے پر آگے بڑھانی ہوگی۔سنّی دعوت اسلامی جو باربار علم کی بات کررہی ہے،تجربہ کی بات کررہی ہے وہ اسی لیے کررہی ہے کہ آج ہی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا،آج تم دوسروں کی ٹیکنالوجی حاصل کروگے ،دوسروں کی لیباریٹریز میں بیٹھ کر تجربہ کروگے،لیکن خدا تمہیں ایک خاص صلاحیت اور دماغ دینے والا ہے ،وہ چاہے گا تو تمہارا دماغ تعمیر کائنات کے لیے تیار ہوجائے گا اور آئندہ تم تقدیر کائنات کا فیصلہ کرنے والے ہوجاؤگے۔(مسلمانوں کا علمی ومعاشی مقام،خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص۲۷۸)

اسی طرح صوبہ کرناٹک کے شہر گلبرگہ شریف میں سال ۲۰۰۳ء میں علامہ اعظمی نے درج ذیل فکر انگیز کلمات کا اظہار فرمایاجس میں علامہ اعظمی صاحب نے تحریک کو ’’ہماری‘‘ تحریک فرمایااور تحریک کے مقصد اور امیرمحترم کے پُر خلوص جذبے کی تائید میں امت مسلمہ کا نکھرامستقبل پیش فرمایا:
’’ا صل انقلاب وہ ہے جو جوانوں میں پیداکیاجاتا ہے۔ا صل انقلاب وہ ہے جو جوانوں کی قسمت بدل دیتا ہے۔ا صل انقلاب وہ ہے جو جوانوں کی نگاہوں کوپاکیزہ بنادیتا ہے۔جوجوانوں کے اندر یہ جذبہ پیداکرتا ہے کہ آدم کی ہر بیٹی کو اپنی بہن سمجھے اور ہر ماں کو اپنی ماں سمجھے۔جوجوانوں کے اندر عفت عطاکرتا ہے ۔جوجوانوں کے اندر پاکیزگی عطا کرتا ہے۔جوجوانوں کو انسانیت کا احترام سکھاتاہے۔جوجوانوں کو سجدے کا شعوردیتا ہے۔جوجوانوں کے اندرتبدیلی پیداکرتا ہے۔اور جب کسی قوم کا جوان سنبھل جاتا ہے تو صدیاں سنبھل جاتی ہے صرف ایک نسل نہیں۔اگر ہم صرف بوڑھوں کو تبلیغ کرتے،بوڑھوں کو دین پڑھاتے، بوڑھوں کو مسجد لے جاتے ،بوڑھے مرجاتے جوان پھر گناہ کرتے،گناہوں کا سلسلہ چلتا رہتا۔مگر مولانا شاکر نوری نے جوانوں پر ا س لیے محنت کی ہے کہ جوان اگر سنبھل گیا تو بوڑھا تو مارے شرم کے سنبھل جائے گا اور بچے اس کے پیچھے پیچھے سنبھلتے ہوئے آئیں گے۔یاد رکھو اور بھی تحریکیں کام کررہی ہیں۔لیکن وہاں جوان نظر آتے ہیں،ضعفائے فرتوت نظر آتے ہیں۔مایوس نظر آتے ہیں،زندگی کی لذتوں سے بے بہرہ نظرآتے ہیں،جنسی اعتبار سے ناکارہ نظرآتے ہیں،ہلتے ہوئے ہاتھ اور لرزتے ہوئے قدم والے نظر آتے ہیں،مگر یہ تحریک جہاں ۹۰؍فی صد شباب کی توانائیوں سے معمور ہیں پھر بھی پیشانیاں جھکی ہوئی ہیں اور کسی حرام کی طرف جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔اگر یہ نسل سنورگئی تو ان کے بعد آنے والے بچے تو سنورجائیں گے۔اور پھر ان کے بعد آنے والے بچے خودبخود سنورجائیں گے ۔ ہماری تحریک بہت طوفانی قوت کے ساتھ نہ پھیلے،ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ہم لاکھوں آدمیوں کو شامل نہ کرسکیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔لیکن ہم نے کسی جوان نسل کو اﷲ کے قانون کا پابند بنادیا،قرآن پاک کے زیر سایہ زندگی گزارنے کاہم نے طریقہ سکھادیاتو زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا،ایک دو نسلوں کے بعد ہی وہ نوجوان ایک غالب قوت کی حیثیت سے ابھرے گا ۔

عالمی اجتماع میں دوران تقریر مفکر اسلام کایہ جملہ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں مفکر اسلام جیسے عالمی خطیب امیرتحریک کو اپنا’’امیر‘‘ تسلیم کرتے ہیں:
’’میراامیر Bycycle(سائیکل)پر چلتا ہے ،ڈھائی سوگز کے مکان میں رہتا ہے، اورجب وہ آواز دیتا ہے تو ٹھاٹیں مارتاہوا سمندرموجود ہے۔‘‘(عالمی اجتماع، ۲۰۱۰ء)اس جملے سے جہاں مفکراسلام کی سنّی دعوت اسلامی سے کلّی وابستگی کا علم ہوتاہے وہیں پوری دنیامیں امیر تحریک کے اثرات کا یقین بھی ہوتاہے۔ساتھ ہی علامہ قمرالزماں اعظمی جیسی مہتم بالشان شخصیت کی عاجزی و انکساری بھی مترشح ہوتی ہے کہ باوجود اس قدر اعلیٰ اوصاف کے وہ امیر محترم حضرت مولاناشاکر نوری صاحب کو محض آپ کی ہمہ گیر دعوتی سرگرمیوں کے سبب اپناامیر فرمارہے ہیں ۔

پیغام اعظمی نامی خطاب میں حضور مفکر اسلام امیرِمحترم کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ سنّی دعوت اسلامی میں شمولیت کی دعوت کس حسین پیرائے میں دے رہے ہیں:
’’میں سلام کرتاہوں حضرت مولاناقاری شاکر کی خدمات کواور ان کی تحریک کو اور ان کی تعمیر کو ان کی انسان سازی کو اور نوجوانوں پر ان کے اثرات کو۔میں آپ سے استدعاکرتاہوں کہ صرف سن کر مت چلے جائیے گا بلکہ کام کا طریقہ یہ ہے کہ سنّی دعوت اسلامی کے باضابطہ رکن بن جائیے،اپنے بچوں اور نوجوانوں کو شامل کیجئے اس تحریک میں اور اس تحریک کو عالمگیر تحریک بنادیجئے۔‘‘(خطبات اعظمی نمبر۱،بیان نمبر۱۵)

حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی صاحب قبلہ
امیرسنّی دعوت اسلامی نے مسلمانوں کے اعمال ،افعال، اخلاق ،کردار کی اصلاح ودرستی کی ہر ممکن کوشش کی۔کل تک جو لوگ فلمی نغموں کے شوقین تھے اب وہ نعت مصطفیﷺکے اسیر ہوچکے ہیں۔چنانچہ پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی صاحب قبلہ(سجادہ نشین خانقاہ فیض الرسول و ناظم اعلیٰ دارالعلوم فیض الرسول، براؤں شریف،یوپی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ موصوف اپنے گوں نا گوں خصائل حمیدہ کے سبب خواص علما و مشائخ کی نگاہ میں انتہائی قدر و عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اصلاح عقائد و اعمال کی عالمی تحریک ’’سُنّی دعوتِ اسلامی‘‘ کے بانی، امیر و سربراہ کی حیثیت سے ان کی مذہبی خدمات کا سلسلہ کئی بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کے لوگ دین کی تڑپ لے کر جب اس پاکیزہ تحریک سے وابستہ ہوئے تو ان کی زندگی میں اعتقادی، عملی و فکری حیثیت سے ایسا انقلاب آیا کہ وہ تحمل و بردباری، سنجیدگی و متانت، ایثار و خود داری، دین کے لیے جاں نثاری و فدا کاری کا مرقع اور صاحب کردار مسلمان کی عملی تصویر بن گئے۔ کچھ نے تو راستیِ گفتار و پاکیزگیِ کردار سے آراستہ ہو کر اپنے ماحول میں دعوت و اصلاح کے لیے خود کو اس طرح وقف کر دیا کہ دوسروں کے لیے رہبر و رہنما بن گئے۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۴۳)

حضرت علامہ مولانا افتخار احمد صاحب قادری مصباحی
حضرت علامہ افتخار احمد صاحب مصباحی (استاذ دارالعلوم قادریہ غریب نواز، لیڈی اسمتھ، ساؤتھ افریقہ)کا یہ اقتباس بھی چشم غور سے پڑھنے کے قابل ہے :
’’حضرت علامہ حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی امیر سُنّی دعوتِ اسلامی جماعت اہلِ سنت کے قابل رشک علما میں سے ہیں، اعلاے کلمۃ اﷲ کے سلسلے میں وہ اپنی تحریروں، تقریروں اور سرگرمیوں میں امتیازی شان کے مالک ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ ان کی نگارشات بڑی وقیع، اہم اور قرآن و سنت کی روشنی سے منور ہوتی ہیں۔ ان کا اسلوب دل کش، موثر اور جاذب قلب ہوتا ہے۔ جو فرماتے یا لکھتے ہیں اپنی ذات کو اس کا اولین مخاطب کرتے ہیں اس لیے بے شمار پروانے ان کی شمعِ حیات کے گرد رقصاں اور نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کے رشحات قلم سے رونما ہونے والی متعدد نگارشات اس حقیقت پر شاہدِ عدل ہیں۔‘‘(برکات شریعت برائے خواتین،ص۴۳)

ایک اور مقام پر یوں لکھتے ہیں:
’’جو حضرات دعوت کی فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہ یقینا عظیم و جلیل ہیں، کیوں کہ نبی کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں فرمایا تھا ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ‘‘ حاضرین پر فرض ہے کہ میرا یہ پیغام غائبین تک پہنچا دیں۔گویا یہ حضرات نبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم و فرمان کو بجا لانے کی سعادت و برکت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ امت کا جو فرد بھی یہ فریضہ انجام دے گا وہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اطاعت شعار اور سعادت مند امتی ہوگا۔ لیکن یہی فریضہ اگر علما انجام دیں گے تو اس کی اہمیت و جلالت دو چند ہوجاتی ہے۔ علما کی یہ مجلسیں سراپا نور و برکت ہوتی ہیں، زبانِ نبوت سے اس کا تعارف پڑھیے۔

سرورِ کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے محبوب صحابی جو حضور کی نعلین مبارک اور مسواک مقدس اٹھایا کرتے تھے اور حضور کو پیش کرتے اور دوسری خدمات بھی انجام دیتے وہ عظیم صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں، ان سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداﷲ! علم دین کی مجلس میں تیرا بیٹھنا اس طرح کہ نہ تو قلم چھوئے اور نہ کوئی حرف لکھے یہ ایک ہزار غلاموں کے آزاد کرنے سے بھی افضل و بہتر ہے اور عالم کے چہرے کو تیرا دیکھنا ایک ہزار گھوڑوں سے افضل ہے جسے تو راہِ خدا میں صدقہ کرے اور عالم کو تیرا سلام عرض کرنا ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے۔(لباب الحدیث از امام سیوطی)سُنّی دعوتِ اسلامی کے امیر محب گرامی حضرت علامہ مولانا محمد شاکر علی نوری صاحب زید مجدہ کو مذکورہ حدیث کے مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو حسن ظن کہتا ہے کہ آپ بھی اس حدیث کے مصداق ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۴۵)

عالم نبیل حضرت مولاناعطیف میاں قادری ولی عہدخانقاہ قادریہ بدایوں شریف
مینارہ مسجد میں منعقدہ حضور نظمی میاں علیہ الرحمہ کے محفل عرس چہلم میں وقار ملت کی موجودگی میں خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف کے چشم وچراغ مولاناعطیف میاں قادری بدایونی اپنے خطاب میں ضمناً مولاناشاکر علی نوری برکاتی صاحب کا تذکرۂ خیر فرماتے ہوئے ڈاکٹر اقبال اور خمار بارہ بنکوی کے اشعاریوں نذرکیاہے:
’’ آج پہلی بار اس محفل کی برکت سے امیر سنّی دعوت اسلامی حضرت مولاناحافظ شاکر برکاتی کی زیارت ہوئی۔۔۔۔میں بمبئی میں تھا،سنا تھا کہ بمبئی میں اجتماع ہوتا ہے،ایک دو بار گیا بھی تھاوہاں پر،میں سوچتاتھا ملاقات ہوگی تو ایک شعر عرض کروں گا علامہ اقبال کا،کہتا ہے شاعر مشرق کہ ؂
نہ گھبرا تندی باد مخالف سے اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
دوسرا شعر خمار بارہ بنکوی کاکہ
نہ ہاراہے عشق اورنہ دنیا تھکی ہے
دِیاجل رہاہے ہواچل رہی ہے

حضرت علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب
سنّی دعوت اسلامی کے عالمی سالانہ اجتماع کی اہمیت وافادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب(ڈربن) اپنے خطاب میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’سنّی دعوت اسلامی کے امیر ہمارے امیر دعوت مولاناشاکر علی صاحب نوری نے یہ سب کچھ اس لیے کیاہے کہ امت کے سامنے اس دنیاکی زندگی میں ایک کامیاب زندگی،خوشگوار زندگی اور پھر اس زندگی کے بعد جو آخرت کی زندگی ہے اس کے لیے آپ کو اتناسرمایہ وہ دے دیں کہ جب آپ یہاں سے جائیں توآپ مالا مال ہوکر جائیں۔‘‘(عالمی اجتماع ،۲۰۱۱ء)

نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری صاحب
اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کو مقرر وخطیب بنایاہے کیوں کہ خطابت دعوت وتبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔آقا علیہ السلام نے حجۃ الوداع میں جو خطاب فرمایاوہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے عظیم قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔امیر محترم کے خطابت وکتابت کے متعلق نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری صاحب (رضوی امجدی دارالافتاء، ممبئی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ مولانا حافظ وقاری محمد شاکر علی نوری امیر سنی دعوت اسلامی جس طرح اپنی دلنشیں تقریر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح تحریر ولٹریچر کے ذریعہ بھی تبلیغ واشاعت مسلک اعلیٰ حضرت کی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘‘(برکات شریعت ، مجلد،ص۵۰)

حضرت مولانامفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی
اسی طرح حضرت علامہ مفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی دام ظلہ النورانی(مفتی و قاضی ادارۂ شرعیہ مہاراشٹرا)بھی امیر محترم کے حق میں دعاگو ہیں:
’’اس دور پُر آشوب اور صلح کلی ماحول میں تحفظ عقائد اور صیانتِ دین و مذہب کے لیے مؤثر انداز میں کتابوں کی اشاعت کی سخت ضرورت ہے۔ جان و مال کا خوف دلا کر اﷲ و رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے دشمنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا ایمان سوز حربہ شیاطین استعمال کر چکے، ایمان کی کھیتیاں جل رہی ہیں، عقیدہ کا باغ جھلس رہا ہے، امتیازِ سُنیت مجروح ہو رہا ہے، ایسے ماحول میں اسلام کے داعی، سُنیت کے مبلغ، مصلح قوم و ملت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ دعا ہے کہ مولیٰ امیر سُنی دعوت اسلامی و ان کے رفقائے کار اور دین و سُنیت کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا جذبہ رکھنے والوں کو سرکارِ اعلیٰ حضرت سیدنا امام احمد رضا قادری حنفی بریلوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مسلک کو خوب خوب عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (ماہ رمضان کیسے گزاریں؟ص۸)

خطیب الہند علامہ عبیداﷲ خان اعظمی
قرآن کریم نے فرمایا: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے کہ وہ حسبِ اسطاعتِ علم وعمل دین کی باتیں عوام الناس تک پہنچائے ۔حدیث پاک بلغوا عنی ولو اٰیۃ کے تحت تبلیغ اسلام کی ذمہ داری ہر فردِ مومن پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عائد ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ افرادِ امت جن کے نصیبے میں یہ سعادت آئی۔ انھی سعادت مندوں میں ایک نام ہے امیرِ سنی دعوتِ اسلامی کا مولانا محمد شاکر علی نوری مدظلہ العالی کا، جنھوں نے انفرادی قوت کے ساتھ اجتماعی طور پر مسلم معاشرے میں اس عظیم کام کے لیے ہمت کی کمر کس لی۔ ان کی جد وجہد کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیاں اور بے حیائیاں ہم نابود ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مولانا موصوف نے سنی دعوتِ اسلامی کی شکل میں ایک ایسی ٹیم تیاری کردی ہے جو ظلمت کے مقابلے میں نورِ حق کا اجالا پھیلا رہی ہے۔ پروردگارِ عالم سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے اور مسلمانوں سے التماس ہے کہ وہ سنی دعوتِ اسلامی جیسی خالص مذہبی، علمی اور عملی تحریک کے ساتھ منسلک ہوکر آخرت کی سعادتیں حاصل کریں۔

فاضل گرامی حضرت مولاناعبدالرب مصباحی حشمتی
(نائب شیخ الحدیث جامعہ غوثیہ نجم العلوم ،ممبئی)
حضرت امیرسنی دعوت اسلامی مولانامحمدشاکرعلی نوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی کا شمارآج اہل سنت کی بڑی شخصیات میں ہوتاہے ۔انہوں نے اپنے ذاتی جذبے ،اخلاص اور اپنے دعوتی،اصلاحی ،تصنیفی اوراشاعتی کام کے باعث جومقام بنایاہے اس پروہ پورے اہل سنت کی جانب سے ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں کامطالعہ کیجیے توان کے وسعت مطالعہ اورکثرت مواددیکھ کرزبان سے بے ساختہ مرحبامرحباکی صدائیں بلندہونے لگتی ہیں۔حضرت امیرسنی دعوت اسلامی کی شخصیت یوں توکثیرالجہات ہے مگران میں خطابت کاپہلوسب سے زیادہ غالب ہے ۔اصلاح امت اورفلاح قوم وملت کے لیے ملک وبیرون ملک کے مختلف خطوں میں اپنی تقاریرکے ذریعے انہوں نے جو تابندہ نقوشل چھوڑے ہیں وہ بڑے گہرے اورانمٹ ہیں۔
حضرت موصوف کااخلاقی معیاربہت بلندہے ۔۲۰۰۰ء میں جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعدسے ہی میں سنی دعوت اسلامی کے مرکزی ادارہ الجامعۃ لغوثیہ نجم العلوم میں تدریسی خدمت انجام دے رہاہوں ۔میرامشاہدہ ہے کہ دشمنوں کومعاف کرنا اورمشکل مراحل میں خندہ پیشانی سے پیش آناحضرت موصوف کاخاصہ ہے ۔

حضرت موصوف بے پناہ خوبیوں کے مالک ہیں ۔پچیس سال سے سنی دعوت اسلامی کاسفرآپ کی قیادت میں جاری ہے ۔آپ نے اﷲ عزوجل کے فضل سے اوراپنی بے پناہ کوششوں کے بل پر پچیس سال قبل کی اس چھوٹی سی تحریک کوآج بہت بڑی تحریک بنا دیا ہے اوراب یہ اتنی بڑی تحریک بن چکی ہے کہ دنیاکے مختلف خطوں میں سنی دعوت اسلامی کاکام ہورہاہے ۔لوگ آرہے ہیں اورکارواں بڑھتاجارہاہے ۔

میری دعاہے کہ اﷲ عزوجل اپنے حبیب کے صدقے وطفیل حضرت موصوف کوعمردرازعطافرمائے ،ان سے دین وسنیت کاکام لے اورتحریک سنی دعوت اسلامی کوبے پناہ کامیابی وکامرانی سے ہم کنارفرمائے۔

فاضل جلیل حضرت مولاناصادق رضامصباحی
’’سنی دعوت اسلامی اور امیر سنی دعوت اسلامی اپنی دعوتی خدمات،اصلاحی تحریکات،تبلیغی مساعی اورتذکیری جد وجہد کی بنیادپربر صغیر سے نکل کر دیگر بر اعظموں میں حیرت انگیز کامیابیوں کے نقوش مرتسم کرچکے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے اپنی غیرمعمولی اصلاحی کوششوں سے تاریخ کے چہرے کوضیابخشی ہے اس سے انکارانصاف ودیانت سے انحراف ہوگا ۔ بیس سال قبل یہ تحریک وجودمیں لائی گئی اور تب سے اب تک اس نے سلکِ تاریخ میں کامرانیوں کے وہ گہر پروئے ہیں کہ بر صغیر کی دعوتی واصلاحی تاریخ اس کا تذکرہ کیے بغیر ہمیشہ نامکمل سمجھی جائے گی۔ آج عالم یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں تحریک کاکام پھیلاہواہے اوربڑی برق رفتاری سے اس کے قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

امیر سنی دعوت اسلامی مولانامحمدشاکرنوری صاحب قبلہ بے حد مصروف شخصیت کا نام ہے، تنظیم کے بہت سارے کام ہیں جو ان کے دماغ سے ہروقت چمٹے رہتے ہیں اورانہیں ہروقت متحرک رکھتے ہیں۔ اﷲ کے فضل سے یہ سارے کام حسن وخوبی سے اپنی منزل کو پہنچ رہے ہیں۔ان کاذ ہنی سفرہمیشہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں جاری رہتاہے ۔ ہمارے حضرت موصوف ملکی وغیر ملکی دعوتی دوروں کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اپنی فیض رسانی کادائرہ وسیع سے وسیع ترکرچکے ہیں ۔ان کی تقریباً دو درجن کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین کی میز پر سج چکی ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۴)

مفتی محمد ابرار احمد قادری صاحب
( خادم حدیث وافتا دارالعلوم غوث صمدانی ، وانکانیر، گجرات)
اﷲ جل مجدہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے اپنے کچھ ایسے برگزیدہ بندوں کو اس خاکدان گیتی میں مبعوث فرماتا رہاہے جنہوں نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو کفر سے ایمان ، ظلمت سے نور ، ضلالت و گمرہی سے رشد و ہدایت ،بد عقیدگی سے صراط مستقیم ، ادیان باطلہ سے دین قویم کی طرف نکالا ہے۔

خالق جل و علا کے انہیں پاک طینت اور برگزیدہ بندوں میں سے امیر سنی دعوت اسلامی حضرت مولانا شاکر علی نوری دامت برکاتہم العالیہ بھی ہیں ، جن کے قلب و جگر میں اسلام وسنیت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، اور جن کا ہر ہر لمحہ گلشن اسلام کی آبیاری میں گذرتا ہے ۔جب سے امیر سنی دعوت اسلامی نے ’’تحریک سنی دعوت اسلامی ‘‘ کی بنیاد ڈالی ہے تب سے لے کر آج تک نہ جانے کتنے لوگ اس تحریک سے جڑ کر اپنے اعمال کی اصلاح کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں ۔شروع شروع میں تو اس تحریک سے ممبئی و مضافات ممبئی کے لوگ ہی واقف تھے مگر آج حال یہ ہے کہ یہ تحریک عالمگیر تحریک بن گئی ہے ، اور لوگ جوق در جوق اس تحریک میں شامل ہوکر دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کرنے کا سامان مہیا کررہے رہیں۔بلا شبہ یہ حضرت امیر سنی دعوت اسلامی کا بہت ہی بڑا داعیانہ کردار اور ان کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے ۔

انتہائی قلیل عرصے میں اپنے مخلصانہ دعوتی رویوں سے مولاناشاکر علی نوری صاحب نے عالمی سطح پر اصلاح فکر واعتقاد کا جو کار خیر انجام دیاہے اس کویوں توسیکڑوں افرادمسلسل سراہتے رہتے ہیں۔ہم نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اہل سنّت وجماعت کے ممتازاور جیداکابرعلماوقلم کار حضرات کے تأثرات کوجمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ان شاء اﷲ اس مضمون کی اگلی قسطوں میں دیگر علمائے کرام کے ملفوظات قلم بند کیے جائینگے۔ تاکہ اس امر کاواضح طور پر اظہار ہوسکے کہ خلوص وﷲیت سے کام کرنے والے داعی دین مولاناشاکرعلی نوری صاحب کو ہمارے یہ علماکیسی عزت بخشتے ہیں اور ساتھ ہی سنّی دعوت اسلامی جیسی تحریک کو تحسینی نظروں سے دیکھتے ہیں۔سچ ہے کہ مولاناشاکر علی نوری صاحب کے اچھوتے ،منفرد اور دل نشین طرز خطابت سے نہ جانے کتنے گم گشتہ راہ افراد نے راہِ ہدایت پائی۔اﷲ کریم جل جلالہ ، رسول کریم ﷺکے صدقہ وطفیل آپ کا سایۂ عاطفت تادیر قائم رکھے۔آمین۔
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731564 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More