میرا حجاب
(MD Mushahid Hussain, India)
’ مسلم خواتین کا حجاب اسلامی انقلاب کا پر
چم ہے ‘‘ یہ الفاظ ایک مغربی مفکر نے کہے ہیں ۔ 22دسمبر کو پیرس میں 15ہزار
مسلمان خواتین نے جن میں اسکا رف پہنی ہوئی خواتین کی اکثریت مظا ہر ہ کر
رہی تھیں ۔ یہ تمام خواتین اسلئے سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لئے امڈ آئی تھیں
تاکہ حجاب پر پابندی کیو نکہ لگ سکتی ہیں اور اس بات کو یہ منوانا چاہتی
تھیں کہ حجاب مسمان تہذیب کی شناخت اور علامت ہے ‘‘ اگر چہ ہروز بروز اخلا
قی اقدارواسلامی تہذیب سے خواتین راہ فرار اختیار کراتی ہیں لیکن دوسری
جانب اسی تہذیب کے ناچنے گاتے لوگ اب تھک چکے ہیں ۔ غیر مطمئن اشیاء میں جب
فطری تسکین تلاش کی جاتی ہے تو نتیجہ ہمیشہ برعکس ہوتا ہے ۔ یہ بات عیاں ہے
کہ ہر سمت مغرب کے اشاروں پر یہ ’’ اندھی تہذیب‘‘ اب پھیکی پڑ ھنے لگی ہے ۔
نصلی چکا چو ند اور چمک رکھنے والی تہذیب اب رو بہ روال ہورہی ہے ۔ پیرس
میں اس طرح کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ تھا جس میں با حجاب خواتین اس
بات کو بہ آواز بلند بو ل رہی تھیں کہ ہم بے لباس کے دورسے گذ رکر واپس آئے
ہیں ۔ ہم نے اب عورت کی آزادی کا مفہوم سمجھ لیا ہے ۔ آزاد ی نسواں کے نام
پر تمام تر تباہ کاریاں دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں اور ہم نے اب ان
کڑوے پھلوں کو چھوڑ کر دامن حجاب میں آنے کا فیصلہ کیا ہے فرانسیسی جھنڈ ے
پر نعرہ بھی درج تھا ۔ میرا حجاب میرا انتخاب ۔حال ہی میں فرانس میں حجاب
پر پابندی لگائی گئی اور حکومت کی طرف سے حجاب کو اپنا نے والی خواتین خوشی
سے حجاب پہنتی ہیں ایک خاتون کو راستے پر حجاب چھوڑ نے پر جب پکڑا گیا تو
اس نے برجستہ جواب دیا ’’ اگر آپ چہر ے کو کھلا ر کھوانا چاہتے ہیں یا حجاب
سے خطرہ لگتا ہے تو جو ہیلمٹ پہنتے ہیں ان پر بھی پابندی لگائیں ۔ چونکہ
فرانس میں پہلے سے ہی حکومت نے حجاب مخالف رویہ اختیار کیا ہے۔ اور وقتاً
وقتاً حجاب کا مسئلہ بھی اٹھتا رہتا ہے ۔ یہ بات مشرقی و مغربی مفکران کو
بھی تسلیم ہیں کہ اسلامی حجاب ایک سیدھا سا دھا اصول ہے جو دراصل خواتین کی
عفت و عصمت کی علامت بنے ۔ اس اصول میں کوئی بھی خرابی نہیں ہے اگر اس کو
ایک مسئلہ بنا دیا جائے تو اس نکلنے والے نتائج حجاب کے مخالف نہیں بلکہ
موافق ہونگے یعنی جتنی حجاب پر پابندی لگادی جائے گی اتنا حجاب اپنایا جائے
گا ۔غور طلب بات ہے کہ آجکل ہم جس دور سے گذ ررہے ہیں اسکو اگر’’ جدیت جا
ہلیت ‘] کا نام دیا جائے تو بے جانہ ہوگا، ریشے ریشے میں رچی یہ تہذیبی
جارحیت ہمیں جس ماڈرن ازم کی طرف دھکیل رہی ہیں اور مادیت کی دوڑ دوڑ نے
والے کسی بھی طریقہ کار کو اپنا نے کے لئے تیار ہیں چاہے انسانوں کی تجارت
ہو یا جانوروں کی ۔اس کار خانے کو چلانے والے ایک منظم لابی یقینا سازشیں
کتنی ’’ منظم ‘‘ اور اسلامی تہذیب کو پروان چڑھا نے والے کتنے غیر منظم اس
پر سوچنے کی ضرورت ہے افسوس کی بات ہے کہ تعلیم یافتہ ہو کے بھی ہماری ماؤں
بہنوں کے شعور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اسلامی شناخت ایک رحمت ہے بلکہ
با صلاحیت ہوکے بھی نحوست کو اندھی آنکھوں سے قبول کر رہی ہیں ۔یہ بات عیاں
ہے کہ موجودہ استحصال نظام میں عورت کو ایک ’’مارکیٹ ‘‘ Productکی حیثیت
حاصل ہیں Globalizationکے علمبردار اچھی طرھ سے جانتے ہیں کہ عورت کو ایک
اشیاء (Commodity) کے طور سے کس طرح استعمال کیا جائے ۔ کس طرح سے عورت کی
عریا نیت کو تجارت کے لئے استعمال کیا جائے دنیا بھر میں فلش ٹریڈ ، کے
مقصد کے لئے ، ہا لی ووڈ ، بالی ووڈ ، مقا بلہ حسن ، فیشن شوز، کا سمٹکس کی
تجارت ، بیوٹی پارلروں کا بڑھنا رجحان و کاروبار وغیرہ نیز اس تجارت سے
منسلک تمام کاروائیا ں اور سرگرمیاں ایک دوسر ے سے جڑ ی ہوئی ہیں ۔ جسکو
ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے چلا یا رہا ہے جسکو وہ اپنی زبان میں
Businessکہتے ہیں ۔اس ساری تجارت کے پیچھے تاجر ایک ہی تیر سے کئی شکار کر
لیتے ہیں مادیت تہذیبی جارحیت اور آخر پر استعماریت ۔اسی بزنس ٹرینڈ کو
ترقی دینے کے لئے فیشن اور ملٹی فیشن کمیٹیوں کی طرف سے جہاں بھی باز ار
حسن کااہتمام کیا جاتا ہے تو اسکے پیچھے بھی ان کے دینے مقاصد ہوتے ہیں جو
ہر طرح سے تجارتی سطحوں پر منحصر ہوتے ہیں ۔ مقابلے حسن اس لئے کرائے جاتے
ہیں تاکہ کا سمیٹکس بنا نے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر
کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرسکیں ۔ لیکن فطرت کا اصول ہے کہ جس
چیز کو زیادہ بایا جاتا ہے وہ آخر اتنا ہی ابھرتا ہے اب حجاب دنای کے ہر
حصے میں اپنا یا ہے جاتا ہے حجاب تو اب اسلامی انقلاب کی شناخت ثابت ہونے
والا ہے اور یہی انقلاب اسلام کے مخا لفوں کے لئے زہر سے کچھ کم نہیں ہے
۔صرف سر اور بالوں کو حجاب سے ڈھا نپنے کا نام پردہ نہیں ہے بلکہ تحقیق کے
مطابق حجاب میں اور بھی شرائط داخل ہیں لباس یا حجاب باریک نہ ہو جس میں
بال نہ جھلکے ۔ خوشبو مین بسا نہ ہو ۔ مرد کے مشابہ نہ ہو کا فر عورتوں کے
مشابہ نہ ہواور شہرت کا لباس نہ ہو ۔ ہماری سو سائٹی کی Tenagersسرکو حجاب
سے تو ڈھا نپتی ہے اور پھر نیچے سے Skin Touch Jeansپینٹ بھی پہن لیتی ہیں
۔ مردوں کی مشابہت والا لباس اختیار کرنے والوں پر اﷲ کی لعنت اسلام میں
بیان کی گئی ہے ۔ اسلام میں مردہ عورت کو بھی ایسے کپڑے میں رکھنا قبیح
قرار دیا جس میں اسکے نسوانی اعضا ء ظاہر ہوتے ہوں تو پھر زندہ عورت کا
ایسے لباس میں ہونا کہاں جائز ہوگا۔ والدین بھی اکثر اس جانب توجہ نہیں
فرماتے ۔ یہی تو وجہ ہے کہ برائیاں جب پروان چڑھتی ہے تو اسکی جڑ ماں کی
گود ہی ہوتی ہے اسلئے والدین کو اسلامی تصورات بچپن سے ہی اپنی بیٹیوں کو
دیتے چاہے ۔ جن کو وہ بلوغیب میں آسانی اور خو ش اسلوبی سے اختیار کریں گی
۔
|
|