نیند اُڑ گئی․․؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پہلے بیان پڑھتے ہیں، بعد میں اس میں
سے پوری کوشش کرکے امید کا تریاق کشید کریں گے۔ ’’ بین الصوبائی وزرائے
تعلیم کانفرنس کا بہت سالوں بعد آغاز کردیا ہے، اب یہ کانفرنسز پورے ملک
میں منعقد ہونگی، ہم کسی بین لاقوامی ایجنڈے پر نہیں اپنے اہداف پر کام کر
رہے ہیں، کوئی صوبہ اپنی حد تک نصاب میں کسی صوبائی شاعر یا بڑی شخصیت کو
شامل کرسکتا ہے، مگر قومی سطح پر نصاب ایک ہونا چاہیے، پنجا ب تعلیم پر
مختص کردہ بجٹ کا نوّے فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے، جبکہ دیگر صوبوں میں
صورت حال مایوس کن ہے، اگر سرکاری سکولوں میں بہتر تعلیمی سہولیات فراہم
کردی جائیں تو ان میں طلبا کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے، گزشتہ ایک سال میں
پانچ فیصد بچے نجی سکولوں سے سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے، دو کروڑ سے زائد
بچوں کا سکول سے باہر ہونا ہماری نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہے، ہمارا ہدف
ہے کہ کوئی ایک بچہ بھی سکول سے باہر نہیں رہنا چاہیے، بدقسمتی سے پاکستان
دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو کہ تعلیم کی فراہمی کے اہداف کے لحاظ سے
پسماندہ ترین سطح پر ہیں، پاکستان اپنے کل ڈی جی پی کا صرف دو فیصد تعلیم
پر خرچ کررہا ہے، جو کہ بہت افسوسناک ہے، ہم بہت جلد اس شرح کو بڑھائیں گے
․․․‘‘۔ یہ بیان وزیر مملکت برائے تعلیم وتربیت انجینئر بلیغ الرحمن کے خطاب
سے لیا گیا ہے، جو انہوں نے تعلیمی اہداف کی دو روزہ صوبائی کانفرنس سے کیا۔
پاکستان میں اگرچہ وفاق کی سطح پر تعلیم کا محکمہ نہ ہونے کے برابر ہے، اگر
ہے بھی سہی تو اس کے پاس کوئی خاص اختیارات وغیرہ نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ
تعلیم کے لئے مکمل وزیر کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اور وزیر مملکت سے ہی
کام چلا لیا گیا ہے تاہم خود کو مصروف رکھنے کے لئے وزیر موصوف سیمینار
وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ اگر وزیر صاحب کے بیان پر غور کیا جائے تو اس میں
کوئی بھی ایسا کام نہیں جس پر عمل کیا گیا ہو، یہ تمام باتیں حکمرانوں اور
متعلقہ وزیر کی خواہشات بھی ہوسکتی ہیں، (خواہشات کا معاملہ بھی دل کے خوش
رکھنے کے لئے بیان کیا جارہا ہے، ورنہ ہمارے حکمران اپنی خواہش کو سب سے
پہلے عملی جامہ پہناتے ہیں)۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کی باتیں محض
سیاسی بیانات ہی ہوتے ہیں، جو کہ عوام کو خوش یا مطمئن کرنے کے لئے ہوتے
ہیں، اور عوام بھی از راہِ عقیدت اپنے حکمرانوں کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے
ہیں۔ ’قومی نصاب ایک ہونا چاہیے‘، یہ حکومت کا بیان بھی ہے اور قومی سوچ
رکھنے والے تمام پاکستانیوں کا بھی، بلکہ یہ اس بات پر یہ طبقے مکمل یکسو
اور متحد و متفق ہیں کہ وفاقی وزارت تعلیم کو کسی بھی قیمت پر ختم نہیں
ہونا چاہیے، اور اگر صوبائی خود مختاری کی آڑ میں تعلیم کو بھی تقسیم کرلیا
تو پورے ملک کو متحد رکھنے والی کوئی چیز باقی نہیں بچے گی۔ مگر اس بات کا
اظہار کرنے کے باوجود موجودہ حکومت کو قائم ہوئے تین برس ہونے کو ہیں، کسی
نے اس اہم ترین معاملے پر توجہ نہیں دی۔ اگر تعلیم کو دوبارہ مکمل وزارت کی
صورت میں بحال نہیں کیا جاسکا تو چاروں صوبوں میں ایک نصاب کا وعدہ یا
خواہش کا کیا ہوا؟ یہی کہ بہت جلد اس پر عمل ہوجائے گا؟
دو کروڑ سے زائدبچوں کا سکول سے باہر ہونا وزیر(یا حکومت) کی نیندیں اڑانے
کے لئے کافی ہے۔ اس جذبے کو بھی سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا،
کیونکہ جس بات سے انسان کی نیند اڑتی ہے، وہ اس کو اپنی اولین ترجیح بناتا
ہے، دن رات اس کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے، سرکھپاتا اور وسائل اس میں
جھونک دیتا ہے، بھلا کونسا گھر ہے، جہاں بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہوں
اور گھر کا سربراہ وہاں نیا موٹر سائکل لاکر کھڑا کردے۔ کسی کی والدہ بیمار
ہو اور وہ اپنی جمع پونجی کسی اچھے ہوٹل پر کھانا کھانے میں لگا آئے۔ کسی
کے تن پر کپڑے نہ ہوں اور وہ گھر میں اے سی لگا لے۔ ظاہر ہے سب سے پہلے سب
سے اہم کا م کیا جاتا ہے، بھوک، بیماری اور دیگر سخت مجبوریوں پر پہلے خرچ
کیا جاتا ہے، اگر دو کروڑ سے زائد بچوں کے سکول سے باہر ہونے سے حکمرانوں
کی نیند اڑتی ہے، تو جناب ان بچوں کو سکول لا کر مزے کی نیند سوئیں، مگر
تلخ حقیقت کا کیا کریں کہ خود وزیر کی زبانی ہم کل ڈی جی پی کا دو فیصد بھی
تعلیم پر خرچ نہیں کررہے، وزیر صاحب نے ان باتوں پر افسوس کا اظہار کردیا
ہے، آئیے ہم بھی افسوس کریں اور آرام کی نیند سوئیں۔ |
|