تاریک نگر سے روشن نگر تک
(Abdulrazzaq Choudhri, lahore)
کوئی بھی باشعور معاشرہ تعلیم کی اہمیت و
حیثیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔تعلیم نہ صرف انسانی زندگی میں بلکہ معاشرتی
زندگی میں جنم لے چکے اندھیرے کو نئی صبح عطا کرتی ہے۔ آج کا دور مسابقت کا
زمانہ ہے ۔ ترقی کی میراتھن ریس جاری ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کے
عمل میں بے تاب اور بے کل دکھائی دیتا ہے جبکہ اس دوڑ کی جیت میں تعلیم
بنیادی ستون کا کردار ادا کرتی ہے ۔تعلیم ہی ہے جو ادھورے و بکھرے ہوے
انسان کو جو خواہشوں ،آرزووں اور تمناوں کے سمندر میں غرق ہوتا ہے کے
خوابوں کی تکمیل کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔تعلیم انسانی ترقی کے مدارج میں
لازوال کردار ادا کرتی ہے اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں مزاحمتوں اور
کانٹوں کو چن لیتی ہے۔تعلیم کی اہمیت کے ضمن میں تو برملا کہا جا سکتا ہے
کہ ریاست کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار بھی تعلیم یافتہ معاشرے پر منحصر
ہے ۔جس ریاست کے باشندے جس قدر تعلیمی زیور سے آراستہ ہوں گے وہ ریاست اسی
قدر مضبوط،مستحکم اور خوشحال ہو گی۔یاد رہے تعلیم صرف نصابی کتب کے مطالعہ
تک محدود نہیں ہے بلکہ تعلیم سے تو علم و دانش اور معرفت و عرفان کے ایسے
دریچے وا ہوتے ہیں جس سے انسانی معاشرے کی تہذیب و تمدن کی بنیادیں ہی یکسر
تبدیل ہو جاتی ہیں۔تعلیم کے مینارہ نور تلے انسان شعور و آگہی کی روشنی
حاصل کرتا ہے اور پھر علم کی خوشبو بن کر پورے معاشرے میں یوں سرایت کر
جاتا ہے کہ معاشرتی زندگی گل و گلزار کا عکس دکھائی دیتی ہے ۔تعلیم کے
سمندر سے بہرہ ور ہو کر انسان ترقی کے کسی بھی جزیرے پر اتر سکتا ہے جبکہ
تعلیم یافتہ افراد کسی بھی معاشرے کی تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی اقدار کے
آئینہ دار ہوتے ہیں اور ان صاحب بصیرت و خیال افروز ہستیوں کی بدولت ہی
معاشرتی زندگی کے اعلیٰ معیار تخلیق پاتے ہیں۔تعلیم انسان کی ذات میں سوچنے
سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے ۔ سوچنے سے انسان کی زندگی میں
تجسس جنم لیتا ہے اور تجسس کی بیداری سے انسان کے اندر سوالات جنم لیتے ہیں
جو تحقیق و جستجو کا باعث بنتے ہیں اور یہ تحقیق و جستجو ایجادات کی راہ
دکھاتی ہے اور پھر ترقی کی نئی منازل کا حصول انسان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
اگر فی زمانہ ترقی کے میدان کو عمیق بھری نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہو
گا کہ تعلیم یافتہ اقوام تعلیم سے بے بہرہ اقوام کی نسبت تیزی سے ترقی کرتی
ہیں اور اس ضمن میں مغربی ممالک کی تمثیل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ مغربی
ممالک نے تعلیم کے فروغ کو اپنی ترقی کی منصوبہ بندی میں ترجیح اول کا درجہ
دیا اور تحقیق و جستجو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور یوں وہ عہد حاضر
میں ترقی کے میدان میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور ہم ان کی ترقی کے درجات کو
شمار کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔بد قسمتی سے وطن عزیز کے قیام سے لے کر
آج تک تعلیمی شعبہ ارض وطن کے حکمرانوں کی کبھی بھی پہلی ترجیح نہیں رہا
اگر اس بات کی تصدیق مقصود ہو تو ہر دور میں حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی
شعبہ کے لیے مختص کردہ رقم کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس سے بخوبی اندازہ ہو
جائے گا کہ حکمران تعلیمی شعبہ کی ترقی میں کس قدر سنجیدہ تھے۔ان حکمرانوں
کو کون سمجھائے کہ در حقیقت تعلیمی پستی ہی قومی زوال کا سبب ہے ۔تعلیم
یافتہ معاشرہ ایسے اساتذہ کوجنم دیتا ہے جن کی تعلیمات،افکار اور نظریات
پوری معاشرتی زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ تعلیمی زیور سے
آراستہ معاشرے میں ایسے گوہر نایاب ادیب تخلیق پاتے ہیں جو اپنی چشم کشا
اور ناقابل فراموش تحریروں کی بدولت علمی و فکری جوہر بکھیرتے ہوے معاشرتی
زندگی میں ندرتوں،جدتوں اور وسعتوں کے نئے افق تشکیل دیتے ہیں جس سے
معاشرتی و ثقافتی اقدار کے درو دیوار اک نئی روشنی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور
افراد کی ذاتی و اجتماعی زندگی میں شعور و آگہی کی منفرد لہر جنم لیتی ہے
جس سے قومی سوچ میں خیال افروزی اور فکر انگیزی کا ایک نیا باب رقم ہوتا ہے
جو جہالت کی تاریکی میں لت پت افراد کی زندگی کے ہر گوشہ کو بقعہ نور بنا
دیتا ہے اور پھر یہ اجالا تاریک نگر کے باسیوں کو روشن نگر کی سیر کروانے
نکل کھڑا ہوتا ہے ۔تعلیمی و فکری شعور کے ستون پر استوار معاشرے کے ادیبوں
کی تحریریں جادو اثر ہوتی ہیں جو قاری کے دل و دماغ کو معطر کرتے ہوے جسم و
جاں میں تحلیل ہو کر دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی
ہیں۔ان کے قلم کی نوک سے نکلی ہوئی معلومات حسنہ اور فکری احساس بنجر ذہنوں
کی سطح کو بھی علم کے سمندر سے سیراب کر کے ان کی ذہنی سطح کو زرخیز کر
دیتا ہے ۔یہ کہنہ مشق افراد جب فلسفہ کی آمیزش میں علم کی روشنی کو چہار سو
پھیلاتے ہیں تو ان کے فنی اسلوب کی شائستگی نقطہ معراج کو چھوتے ہوے قاری
کی روح تک کو نہال کر دیتی ہے ۔صالح نیت کے پیرہن میں ملبوس ،مجسم فہم و
فراست اور علمیت کا تاج پہنے ہوے ایک ادیب کے قلم میں اللہ تعالیٰ اتنی
برکت ڈال دیتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کی جاذبیت ، کشش اور اثر انگیزی کی
بدولت معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو مثبت رخ دینے کی قدرت حاصل کرلیتا ہے
اور اس کی تحریریں براہ راست لوگوں کے ذہنوں پر اثر کرتی ہیں جس سے عام
آدمی کے سوچنے،سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا
ہے اور یوں لوگوں کی زندگیوں میں بدلاو کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور نتیجے کے
طور پر سماجی،ثقافتی اور تمدنی زندگی کے پر ثمر اثرات ہر جانب دکھائی دینا
شروع جاتے ہیں اور معاشرہ نکھر کراک نئے رنگ و روپ میں ابھر کر سامنے آتا
ہے جس کی بنیاد انسانی اقدار کے اعلیٰ نمونہ پر موقوف ہوتی ہے اور ہر سو
امن و سکون اور خوشحالی رقص کناں دکھائی دیتی ہے اور معاشرتی زندگی حسن
کرداراور حسن سلوک کے اعتبار سے مثالی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
پاک سر زمین کے بے بس باشندے اک مدت سے کسی ایسے مسیحا حکمران کی تلاش میں
ہیں جو کما حقہ تعلیم کی افادیت سے بہرہ ور ہو ۔ بصیرت افروز ہو ۔ دور ا
ندیش ہو ۔ تعلیم پرور ہو اور تعلیم کے حقیقی ثمرات سے واقف ہو ۔ڈنگ ٹپا
وپالیسیوں اور منصو بوں کی بجائے دور رس نتائج کے حامل ایسے منصوبوں کا جال
بچھائے جو قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے علاوہ قومی وقار میں اضافہ کا
باعث ہوں اور یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب حکمرانوں کی پالیسی میں تعلیمی شعبہ
کو بنیادی حیثیت حاصل ہو گی۔جس دن بھی حکمرانوں نے تعلیم کو وہ اہمیت دے دی
جس کی حقیقی معنوں میں وہ حق دار ہے ۔ پاکستانی معاشرے کی سماجی ،معاشی اور
ثقافتی آب و تاب اور جلوہ گری پوری دنیا رشک بھری نظروں سے دیکھے گی اور
ہمارے سماج و قومی وقار کی دلکشی اور رنگینی بے مثل ہو گی |
|