حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے خواتین پر تشدد کے
خلاف تحفظِ نسواں نامی ایک بِل پاس کیا گیا ہے جس کے بعد اب خواتین جسمانی
تشدد کرنے والے یا پھر انہیں ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف عدالت سے
پروٹیکشن آرڈر حاصل کرسکیں گی-
عدالت مذکورہ فرد کو پابند کرے گی وہ درخواست دائر کرنے والی خاتون سے ایک
مقررہ فاصلے پر رہے اور اس پابندی کو یقینی بنانے کے لیے تشدد یا ہراساں
کرنے والے شخص کو ایک جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ بھی پہنایا جائے گا جسے
اتارنے یا ٹمپر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی -
|
|
ٹریکنگ بریسلٹ کو نقصان پہنچانے یا اتارنے کی صورت میں خودکار سسٹم متعلقہ
سنٹرز کو مطلع کردے گا جس کے بعد اس شخص کو مزید 6 ماہ سے ایک سال تک کی
سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے-
اس کے علاوہ خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے نکالا بھی نہیں جاسکے گا
اور اگر خاتون جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے خود گھر چھوڑتی ہے تو عدالت
خاندان کو اس بات کا پابند کرے گی کہ وہ خاتون کے لیے متبادل رہائش گاہ کا
انتظام کرے-
اس کے علاوہ خواتین کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی آمدنی اپنی مرضی سے
کہیں بھی خرچ کرسکتی ہیں-
تاہم دوسری جانب سے اس بِل کو بعض مذہبی اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید
تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا
جارہا ہے- ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے معاشرے میں جنسی بے راہ روی پھیلنے
کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے خواتین کی جان کو مزید خطرات لاحق ہوں گے اور غیرت
کے نام پر زیادہ قتل کیے جائیں گے-
|
|
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا تحفظِ نسواں بل
واقعی خواتین کو تحفظ فراہم کرسکے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہبی اور
عوامی حلقوں کے خدشات درست ہیں؟ یا پھر اس بِل میں موجود قوانین مشرقی
معاشرے کے لیے کارآمد نہیں؟
تبصرے کی صورت میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے!
|