ماتحت عدلیہ کا سوتیلہ پن
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
ہتک عزت کے قانون پی پی سی سیکشن 499 کے ساتھ |
|
فی زمانہ معاشرئے میں رواداری کے
جذبوں کی جس طرح پامالی ہوئی ہے اور جس انداز میں ہوس نے معاشرئے میں ڈیرئے
ڈال رکھے ہیں۔اور مختلف انداز میں حیلے بہانے سے مقدمہ بازی میں ایک دوسرئے
کو پھانسنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ اِس لحاط سے دیکھا جائے تو معاشرئے میں
نفوذ پزیری کے حامل افراد کا عمل دخل کم سے کم تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ مروجہ
قانون ہتک عزت میں سزا ہونا اور جرمانہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے کہ گدھے کے سر
پہ سینگ نکل آئیں۔ ہتک عزت کے قانون کو مقصد پاکستانی معاشرئے میں اتنا ہی
ہے کہ کسی کو ڈرایا جائے اور کسی کو اُس کے کیے سزا کی بجائے صرف رگڑا جائے۔
انسانی آزادیوں کی باتیں جو یورپ امریکی میں کی جاتی ہیں اور جس طرح انسان
کی قدرو منزلت ہوتی ہے اُس انداز میں تو پاکستانی معاشرئے میں یا تیسری
دُنیا کے معاشروں میں انسان کی عزت و توقیر ہونے کا سوچا بھی نہیں
جاسکتا۔ہم تفصیل کے ساتھ پاکستان میں ہتک عزت کے قانون کے حوالے سے بحث
کریں گے۔اگر کسی بھی شخص کے متعلق ایسے الفاظ بولے جائیں، پڑھے جائیں یا
اشارۃ کہے جائیں یا ایسا مواد شائع کیا جائے جس سے اُس شخص کی شہرت داغدار
ہوتی ہو تو یہ امر ہتک عزت تصور کیا جاتا ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں انٹرنیت، موبائل اور ،کیبل کے استعمال نے اس
شعبے کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا
عمل انتہائی سست ہونے کے سبب آئے دن ا یسے معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ
بات کا بتنگڑ بنا لیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا کی آزادی نے انسانی
حقوق کے حوالے سے ایک ایسی توانا آواز بلند کی ہے جس کی کوئی نظیر نہ ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز کی بھرمار نے معیاری صحافت کو نقصان بھی
کسی حد تک پہنچایاہے ۔اکثر او قات عوام الناس یہ محسوس کرتے ہیں کہ میڈیا
عوام کے اذہان کو کنٹرول کرکے اپنی مرضی کی ثقافت کے فروغ میں مشغول ہے جس
کی وجہ سے بے حیائی اور مادر پدر آزادی کا واہمہ سر اُٹھارہا ہے۔ترقی پزیر
ممالک جیسے کہ پاکستان جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں
وہاں میڈیا عوامی جذبات کی تر جمانی کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات کو بھی عوامی
احساسات پر حاوی کر دیتا ہے ۔ میڈیا پر کسی طور بھی قدغن نہیں لگنی
چاہیے۔لیکن میڈیا کو بھی خود احتسابی کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے وطن پاک
کی سماجی، ثقافتی، عمرانی، معاشی، مذہبی اور نظریاتی اساس کی حفاظت کرنی
چاہیے۔میڈیا کی ترقی و آزادی نے جاگیرداروں، آمروں، سیاست دانوں ، لٹیروں
اور غاصبوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ پاکستانی قوم میڈیا کی احسان
مند ہے۔ حالیہ وکلاء تحریک اور مشرف کی دیار غیر رخصتی میں میڈیا نے ہراول
دستے کا کردا ر ادا کیا ہے۔پاکستان میں موجود ہتک عزت کے قانون اور میڈیا
کی ذمہ داریوں کے حوالے سے راقم نے حسب ذیل قا نونی پہلووں پر اختصار کے
ساتھ ر و شنی ڈالی ہے۔ اگر کسی فوت شدہ شخص کے بارے میں ایسے الفاظ کہے
جائیں جو اگر اُس کی زندگی میں کہے جاتے تو اُس کی شہرت داغدار ہو جاتی۔یا
فوت شدہ شخص کے خاندان کے لوگ اس طرح کے کسی عمل کی وجہ سے تکلیف محسوس
کریں یا اس وجہ سے اُن کے جذبا ت کو ٹھیس پہنچے۔ اگر کسی کمپنی ، ادارہ یا
کسی گروپ یا لوگوں کے گروہ کو اس طرح ہدف تنقید بنایا جائے جس سے اُن کی
خوامخواہ بدنامی ہو اور اُن کی شہرت داغدار ہو۔ اگر کسی شخص کی
ذہانت،کردار،ذات کے حوالے سے ایسے امر واقعہ ہو تو وہ بھی ہتک عزت تصور ہو
گی۔عوام کے مفاد میں اگر کسی شخص کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس سے خبردار
رہیں یہ اس طرح کے کردار کا حامل ہے۔ تو یہ ہتک عزت نہ ہوگی۔اگر کسی سرکاری
ملازم کے متعلق یہ رائے دی جائے کہ اُس کا رویہ اپنی سرکاری ذمہ داریوں کو
ادا کرنے کے حوالے سے ٹھیک نہ ہے تو یہ بات بھی ہتک عزت تصور نہ ہو گی۔ اگر
نیک نیتی سے کوئی بھی رائے دی جائے اور اُس کی زد میں کوئی اگر آتا ہے تو
یہ بھی ہتک عزت نہ ہو گی۔ اس طرح اگر کسی عدالتی کاروائی کو شائع کیا جائے
جو سچ پر مبنی ہو تو اس امر کے حوالے سے بھی یہ سمجھا جائے گا کہ یہ ہتک
عزت نہ ہے۔کس بھی مصنف نے اگر کوئی کتاب تحریر کی ہے اور اُس میں کوئی رائے
نیک نیتی سے دی ہے تو ہے بھی ہتک عزت نہ ہو گی ۔ اگر مجاز اتھارٹی کسی بھی
شے کو سنسر کرتی ہے تو یہ بھی ہتک عزت نہ ہو گی۔ اگر کو ئی شخص اپنے نیک
نیتی سے کسی بھی شخص یا عوام کو اگر کسی شخص کے خلاف بتاتا ہے کہ فلاں شخص
بہتر نہیں ہے تو یہ عمل بھی ہتک عزت کے زمرے مین نہیں آتا۔2000 PCr, LJ
1847 کے مطابق اگر کسی نے کوئی بیان جاری کیا یا شائع کروایا جس سے اس خیال
کو تقویت ملے کہ اس امر سے متعلقہ شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا ہے ہتک
عزت کے زمرے میں ہو گا۔2000 Cr. LJ1847 کے مطابق مندر جہ ذیل ڈیفینس ان معا
ملات میں ہیں۔
(1) عوامی مفاد میں سچا بیان ( 2)حکومتی اداروں کے حوالے سے اُن کے کام
کرنے کے انداز کے حوالے سے دیانت دارانہ رائے (3)کسی شخص کے رویے کے متعلق
رائے۔ (4) عدالتی کاروائی کی درست اور صیح انداز میں رپورٹنگ کرنا۔ (5)
فیصلہ شدہ عدالتی مقدمات کے حوالے سے میرٹ کے معاملے پر دیانت دارانہ رائی
دینا (6) عوامی کارکردگی پر درست تجزیہ کرنا۔ (7)سچائی سمجھتے ہوئے کسی بھی
شے کا سنسر کرنا۔(8) مجاز حکام کے اوپر نیک نیتی یعنی کہ in good faith کسی
کام کے حوالے سے الزام لگانا۔(9) ذاتی یا عوامی مفاد کی حفاظت کے لیے الزام
لگانا (10) کسی عوامی مفاد کے لیے کسی شخص یا پبلک کو خبردار کرنا۔PLJ 2001
Cr C karachi 671 کے مطابق Defamation کے جرم میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ
جس شخص پر ہتک عزت کا الزام دھرا گیا ہے اُس کی Intention کیا تھی۔جب کوئی
شکایت کی جاتی ہے تو اُس وقت الزامات لگانا ایک فطرتی بات ہوتی ہے ۔ اس مقد
مہ میں شکایت کندہ نے کوئی خاص واقعہ بیان نھیں کیا اور نہ ہی کسی گواہ کو
گواہی کے لیے پیش کیا ۔شکایت کندہ اپنے کسی بھی رشتے دار کو گواہی کے لیے
پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جس نے اس کے ساتھ رابطہ منقطع کیا ہو۔ صحت مند
معاشرے کے لیے تنقید ٖضروری ہے ۔اخبارات جب تنقید کرتے ہیں کہ وہ کیا بہتر
سمجھتے ہیں اور نیک نیتی سے اُن کو یقین ہوتا ہے کہ معاشرے کے یے یہ عمل
فائدہ مند ہے۔ سیکشن 50 پاکستان پینل کوڈ 1860 کے مطابق اگر کوئی شخص کوئی
ایسا مواد چھاپتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اس مواد کے چھپنے سے کسی کی شہرت
داغدار ہوگی تو اُس شخص کو دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں یعنی جرمانہ اور
سزا دی جائے گی۔ سیکشن 502 پاکستان پینل کوڈ کے مطا بق اگر کوئی شخص ایسا
مواد فر وخت کرتا ہے جس سے کسی شخص کی بدنامی ہو یا شہرت داغدار ہو تی ہو
تو ایسے شخص کو دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو ں گئیں۔ سیکشن 502
اے پاکستان پینل کوڈ کے تحت ہتک عزت والے کیس کی سماعت سیشن کورٹ کے دائراہ
اختیار میں آتی ہے اور سیشن کورٹ نوے دنوں میں اس کیس کا فعصلہ کرنے کی
پابند ہے۔ سیکشن 505-B کے تحت اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت جو زنا یا ریپ کے
کیس میں فریق ہو یا اُس کی فیملی کے متعلق کوئی شخص شناخت سے یا پوائنٹ آوٹ
کرے تو اُس شخص کو چھ ما قید یا جرمانہ یا دنوں سزائیں ہوں گئیں۔ مندرجہ
بالا شقوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات قرین انصاف ہے کہ کسی بھی مہذب
معاشرے میں کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نھیں دی جاسکتی کی کسی بھی شخص
کی عزت اُچھالی جائے۔پاکستانی معاشرے میں کیو نکہ اچھی روایات اب زوال پزیر
ہیں اخلا قیات ، سچ بولنا دوسروں کو عزت دینا ان سب جذبوں کا سودا روپے
پیسے کے عوض کر دیا گیا ہے۔ محدودچند کے سواہ جمہور کی دوڑ شا ن وشوکت ،
گاڑی ، بڑا گھر، بینک بیلینس کے لیے ہے۔ مادیت پسندی نے انسانیت کی عزت و
تذلیل کے فرق کو مٹا کر رکھ دیا ہے۔ ہتک عزت کا قانون کتابوں کی حد تک تو
بہت ہی جاندار دیکھائی دیتا ہے ا صل میں اُس جذبے کی ضرورت ہے کہ اس کی روح
کے مطابق عمل کیا جا ئے۔ معاشرے کو صحت مندانہ رحجا نات کی طرف گامزن کرنے
کے لیے عزت دو اور عزت لو کے مترادف رویے اپنانے کی ضرورت ہے۔یورپ، امریکہ
، کینڈا، برطانیہ ،سویڈن، ڈنمارک جیسے ممالک میں اس طرح کے معاملات میں
کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔لیکن بات پھر وہی ہے کہ معاشرے کا عمومی رویہ
کیسا ہے۔ اس طرح کے قوانین کا نفاذ بھی اُن ممالک میں ہو پاتا ہے جہاں
معاشی آسودگی ہے اور شرح تعلیم بہت زیادہ ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں جہاں
غربت کے منحوس چکر نے معاشرے کو اپنے شکنجے میں پھانس رکھاہے وہاں ہتک عزت
کے قانون پر عمل کیسے ہو گا۔ اس حوالے سے عوام الناس کو آگاہی میڈیا کے
طفیل مل سکتی ہے۔ ملک میں جس طرح کا سیاسی کلچر اِس وقت موجود ہے۔ اور
معاشرئے میں جس طرح کے حالات اِنسان کو درپیش ہیں۔ وہاں تو زندگی کی بھی
ضمانت حقیقی طور پر قانون فراہم نہیں کر پاتا عزتِ نفس تو بہت دور کی بات
ہے۔حسایست تو اُن معاشروں کا زیور ہے جن میں انسانیت کوقدر منزلت حاصل ہے۔ |
|