دنیا میں کوئی چیز بھی اپنے لیے
نہیں ہے کیونکہ دریا خود اپنا پانی نہیں پیتے ،درخت خود اپنا پھل نہیں
کھاتے ،سورج اپنے لیئے روشنی ،حرارت نہیں دیتا ،پھول اپنی خوشبو اپنے لیئے
نہیں بکھیرتے اس لئے کہ دوسروں کیلئے جینا ہی اصل زندگی ہے تو پھر کیوں نہ
کہو ں کہ کاش میں درخت ہی ہوتا میرے بازو ہرے بھرے ہوتے میں لوگوں کو سکون
تودیتا میر ی چھاؤں سے لوگ لطف اُٹھاتے اور پرندے میری ٹہنیوں پر گھونسلے
بناتے بچے میری شاخوں سے جھولتے وہ خوش ہوتے اور میں مسکراتا اور جب بارش
ہوتی میں کھل اُٹھتا ہوا کے دوش پہ میں لہراتا میرانگ انگ کھل اُٹھتا اور
نہ تو چلچلاتی دھوپ ستاتی اور نہ ہی سردی بلکہ ہر موسم کی تلخیاں برداشت
کرتا ہاں میں سبکو ہی خوش رکھتا تھکے ہارے ماندے مسافر بھی میر ی چھاؤں میں
آرام فرماتے مجھ پہ پھل اور پھول لگتے جن کی مٹھاس ،خوشی اور سرور سے لبزیز
ہوتی مجھ پر جو پھول سجتے وہ چار سورنگ بکھیر تے میر ی محبت سب کیلئے یکساں
ہوتی مرد، ہو یا، عورت ،بادشاہ ،ہو یا فقیر ،سیاستدان ہویا ،بزنس مین رنگ
چاہیے کیسا ہی کیوں نہ ہوعقیدہ چاہیے کوئی بھی ہو میر ی چھاؤں سب کیلئے ایک
سی ہوتیں میٹھی ٹھنڈی نرم اور پرسکون امیروں اور غریبوں کیلئے میرے پھلو کی
چاشنی ایک سی ہوتی میرے لیئے سب برابر ہوتے میں کسی میں بھی امیتاز نہ
رکھتا اگر میں کبھی درخت ہوتا مجھے کبھی بھی کسی اقتدار اور کرسی کی خواہش
نہ ہوتی بنگلوں اور کوٹھیوں کی خواہش نہ ہوتی دولت وزرکی ہوس نہ ہوتی یتیم
،غریب ،اور بیوہ،کے مال پہ بری نظر نہ ہوتی میں جہاں ہوتا وہیں پہ اپنے
آپکو مطمیئن اور پرسکون پاتا اور کسی کا حق بھی نہ مارتا اور کسی کے مال و
پلاٹ پر قبضہ بھی نہ کرتا قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر بجالاتا میں کسی
کی دل آزاری نہ کرتا کسی کو ناحق قتل نہ کراتا کسی سے زیادتی نہ کرتا اپنی
چھوٹی سی دنیامیں ہی خوش رہتا تعصب اور فرق نہ رکھتا میراد ل سب کیلئے
دھڑکتا ،درد رکھتا سو میر ی قسمت ،اگر میں درخت نہیں بھی ہوں مگر ایک خوش
نصیب انسان تو ہوں اشرف المخلوقات زمین پر خدا کانائب ،خلیفہ ،تمام مخلوقات
سے افضل ،مگر کیا جانے کوئی ؟کیوں خوشی مجھ سے روٹھ گئی ہے نہ خوشی محسوس
کرتا ہوں اور نہ ہی سکون میسر ہے ہر طرف غم والام کے بادل نظرآتے ہیں جب
بارش ہوتی ہے میں گھبرا سا جاتا ہوں جب دھوپ چلچلاتی ہے حبس یاسیت طاری
کردیتا ہوں پاس سے گزرتے ہوئے مسافر کی مجھے پر واہ تک نہیں ہوتی بس اپنے
ہی مطلب سے غرض رکھتا ہوں اور یہاں تک کہ اپنے ،باغات کے پھل اور وں پہ
حرام کردیتا ہوں اپنے آنگن میں کھلے پھولوں کی خوشبوپر بھی پہرہ لگادیتا
ہوں میر ی محبت فقط میر ی ذات تک محدود ہے میں وہ شاہ پرست ہوں کہ مجھے
فقیروں سے واسطہ نہیں بجائے علم کے اور اثرورسوخ کی بنیاد پر آدمی کی حثیت
کا تعین کرتا ہوں جس سے میرا مفاد وابستہ ہواُسے چنتا ہوں کوئی درخت تو
نہیں ہوں اسلیئے سیٹ،کرسی ،اقتدار کی خاطر لڑتا جھگڑتا ہوں اپنے مفاد کیلئے
دوسروں کاحق مارنا میرے نزدیک جائز ہے ضرورت کے پیش نظر فقط دل نہیں دکھاتا
مگر دل لگا لیتا ہوں صرف اپنے ہی مفاد سے غرض رکھتا ہوں میں ایک انسان ہوں
بلکہ حکمران بھی ہوں سیاستدان ہوں ،صحافی ہوں ،بزنس مین ہوں ،آفیسر ہوں
،دانشور ہوں ،ملاں ہوں ،مزدور بھی ہوں ،اور دوکاندا ربھی ہوں الیکشن کے
موسم میں جو وعدے کرتا ہوں وہ مسند سنبھالتے ہی بھول بھی جاتا ہوں عہدے
بانٹنے سے قبل قابلیت نہیں قبیلہ دیکھتا ہوں ترجیح اپنے عزیزوں کو ہی دیتا
ہوں اپنے وطن میں کم اور بے وطن زیادہ وقت گزارتا ہوں ایک سیاستدان ہوں جب
اپوزیشن میں ہوتا ہوں تو ایک برس میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کادعویٰ کرتاہوں
اور جب اقتدار میں آتا ہوں توسب نظمیں غزلیں بھول جاتا ہوں اور میں اپنا
قلم فروخت کرچکا ہوں جہل کا بیوپار کرتا ہوں کھوکھلے نظریات بیچ چکا ہوں
صرف اور صرف جذبات کا ناسور پھیلارہاہوں اور ایک ملاں ہوں جو فروغ حقیقت
میں اپنے رزق کا غم کھا جانے کو ڈرتا ہوں میں محافظ ہوں مگر قانون کو اپنی
حفاظت تک محدود رکھتاہوں کسی کی جان ومال کی حفاظت میری ٹھیکیداری نہیں
رشوت میرے جسم وزندگی کاجزو اعظم ہے اسکے بغیر میں ایک قدم بھی نہیں چل
سکتا بدعنوانی میرے جسم کا مقصد ہے اور قانون اندھا ہوتا ہے اس لیئے جرائم
کے سامنے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں چاہیے کوئی اینٹیں مارے یا کوئی بندوق
مجھے کوئی غرض نہیں اور اپنے آفیسر سے کہتا ہوں کہ سر آپکا خادم ہوں بس نظر
کرم رکھیئے گا آپکو اپنی بے ایمانی بدیانتی اور رشوت کا باقاعدہ حصہ
پہنچاتا رہوں گا میں انسان جوہوں ،اور ایک استاد بھی ہوں مگر کلاس نہیں
لیتا نونہالوں کا حق غصب کرتاہوں علم میں بھی بدیانتی کرتاہوں سفارشی ہوں
ہرماہ ہزاروں تنخواہ حرام کی کمائی سے اپنے بچے پال رہا ہوں میں ڈاکٹر ہوں
مگر سرکاری ہسپتال میں تڑپتے مریض بچوں کو بے دردی سے بے رحمی سے چھوڑدیتا
ہوں کہ وہ میرے ذاتی کلینک پر آجائیں میں صحافی ہوں مگر خبر کی حقیقت میں
بھی بے ایمانی دیکھا دیتا ہوں کہ میری خواہش کیسے پوری ہوسکے گی کبھی ادھر
کی کبھی ادھر کی ڈنڈی مارہی دیتا ہوں ادیب ہوں مگر تخلیقی سے زیادہ تکنیکی
سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہوں بڑھتے ہوئے ظلم وستم اور سماج کے زوال کیلئے
دعا گو ہوں یہا ں میں بھی اس بدحال معاشرے کا فرد ہوں اس سے بہتر تھاکہ میں
بھی ایک درخت ہوتا کاش کہ کسی کے کام توآتا یا پھر پرندہ ہی ہوتا چہچہاتا
پھرتا کسی کو تکلیف تو نہ پہنچاتا بلکہ دوسروں کے دکھ درد خود اپنے اندر
سمیٹتا، ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی نیلی نیلی لہروں کی طرح ۔ |