مشاعرہ۔پطرس سے معذرت کے ساتھ(مزاحیہ)

 ’مشاعرہ‘ برِصغیری ز بانوں ،خاص طور پر اردو زبان و ادب، کا وہ سنہرا تاج ہے جس کی مثل کسی دوسری زبان میں ڈھونڈھنا آسان نہیں۔ اردو زبان کے فروغ میں جہاں اردو زبان و ادب سے پیوستہ ہر شخص اور ہر صنف کا حصہ ہے، وہاں مشاعرے کا حصہ کسی شخص یا صنف ِادب سے کم نہیں۔ مشاعرے نے بیک وقت کئی پہلوؤں پر اثرات ڈالے ہیں۔ تفریح، تعلیم، ثقافت،معاشرت،تربیت، تنقید وغیرہ کا اگر خوبصورت سنگم دیکھنا ہو تو آپ کسی مشاعرے میں چلے جائیں۔اگر آپ شاعر ہیں تو جب آپ کی شاعری کو داد کا تڑکا لگے گا تو دیکھیئے گا کہ آپ کے دل کا دل کیسے بلیوں اچھلتا ہے ۔اور اگر آپ شاعر نہیں ہیں تو دیکھیئے گا کہ داد دینے کا کتنا لطف آتا ہے۔ جیسے حاتم طائی خیرات بانٹا کرتا تھا بالکل ویسا ہی عملِ صالح آپ بغیر کسی جیب خرچ کے کر سکتے ہیں ۔ بس آپ نے کہتے چلے جانا ہے: واہ!واہ! ، مکرر! مکرر!، کیا بات ہے!، بہت اچھے!، کیا کہنے! ، جواب نہیں!!جیسے اظہارات کہتے ہوئے کیا جاتا ہے ۔ مفت میں آپ کی آواز بھی ریکارڈ ہو جائے گی اور آپ مشاعرے کے ایک ایکٹو پارٹنر بھی بن جائیں گے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ جودرپیش رہا ہے، اب بھی ہے اور رہے گا بھی وہ جیب کا ہے۔ لیکن مشاعرے میں ابھی تک مساجد کے برعکس ’ویلیں‘ دینے کا رواج شروع نہیں ہوا ، اگر کبھی وہ شروع ہو جائے تو آپ بے شک بالکل اس شور شرابے والی سرگرمی سے دور رہیں، ہمیں کوئی گلہ نہ ہوگا ۔ لیکن ابھی، اس وقت تو ایسا نہیں ہے اس لئے آپ کو مشاعروں میں جانا چاہیئے اور داد کی مفت خیرات بھی بانٹنی چاہیئے۔

ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جنت کے جس خطے میں برِ صغیر پاک و ہند کے لوگ آباد کئے جائیں گے ، وہاں مشاعرے ضرور ہوں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس مزاج کے لوگ شاعری اور مشاعروں سے حوروں یا پھلوں کے بدلے بغاوت کر دیں۔ شروع، شروع میں لکھنوی انداز کے مشاعرے ہوں گے۔ جب حور و قصور سے دل بھر جائیں گے تو دہلوی انداز کے مشاعرے ہونے لگیں گے،جب ذہنوں میں کچھ اپنائیت آئے گی تو پاک و ہند کے مشاعروں جیسے مشاعرے ہوں گے۔ اور جب لوگ اپنے آبائی مقاموں سے نکل کر جنت کے دور دراز علاقوں میں جا،جا کر آباد ہوں گے تو قطر، مسقط،بحرین، کینیڈا، لنڈن جیسے پر تکلف مشاعروں کی داغ بیل پڑے گی۔ لیکن مشاعرے ہو ں گے ضرور۔ آپ کو اس بات سے اتفاق کا پورا حق حاصل ہے اور اتنا ہی اختلاف کا بھی ہے ۔لیکن آپ ایک معقول بات سے اختلاف کیوں کریں گے ۔ایسا تو نا سمجھ ہی کرتے ہیں۔جہنم کے مشاعروں کا تصور تو کوئی بھی اذیت کا مارا کر سکتا ہے۔ لیکن ہماری ناقص عقل کے مطابق شاعر جہنم میں یا تو جائیں گے نہیں یا چلے بھی گئے تو وہاں رہیں گے نہیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ وہ کیسے۔ ہم وضاحت کریں گے کہ شاعروں کو دنیا ہی میں اتنی ذہنی، جسمانی، معاشی ، ہجریاور جذباتی اذیتیں مل جاتی ہیں کہ ان کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا ادھر ہی پوری ہو جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ شاعر معصوم ہوتے ہیں، بالکل نہیں ۔ لیکن وہ معصوم نما ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کی المناکی کی داستانیں جہنم کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔ دوسری یہ بات کہ اگر وہ جہنم میں چلے بھی گئے تو جہنم کے پہرے داروں کو دلنشیں اشعار سے یوں ہپنٹائز کریں گے کہ وہ خود ہی ان کو جہنم سے بھگا دیں گے اور پھر اگلے پر مرحلے پر بہشت کے داروغوں پر ایسے ہی اشعار سے ہلہ بولیں گے کہ وہ ان کو خود بخودجنت میں داخل کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں وہ جہنم سے مفرور ہوں گے اور جنت میں ضرور ہوں گے۔

چچا غالبؔکا تو حساب کتاب پر ہی فرشتوں سے جھگڑا ہو جانا ہے اور وہ وہاں بھی ضرور کہہ اٹھیں گے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پے ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ؟

خیر یہ ہماری ذاتی اختراع ہے ۔ کوئی مانے نہ مانے ۔لیکن اگر کوئی شاعروں سے چڑ رکھتا ہے اور اس نے اپنے جہنم میں انہیں ضرور جلانا ہے تو ہم کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کے قائل نہیں ہیں۔

شاعرکو معاشرے کی آنکھ کہا جاتا ہے ۔جب افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو نکالنے کی بات کی تھی تو دراصل اس نے معاشرے کے ایسے چہرے کا تصورپیش کیا تھا جس پر آنکھیں نہ ہوں ۔ وہ تو بعد میں ارسطو کا بھلا ہو کہ اس نے وہ آنکھیں واپس لگانے میں اپنی کامیاب کوشش کی۔ورنہ یہ فلسفی قسم کے لوگ پتہ نہیں انسان کو کس معاشرتی دلدل میں دھنسا دیتے۔شاعروں کو برا کہنے کی روایت نئی نہیں۔ ہوتا آیا ہے کہ اچھوں کو برا کہا جاتا ہے۔ویسے بھی ہر پیشے اور قماش کے لوگ اپنی اپنی پسند اورنا پسند رکھتے ہیں۔بد قماش بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ انسان ہر پیشے میں آخر انسان ہوتا ہے۔

اس تحریر کو لکھنے کا محرک دراصل اردو زبان و ادب کے ایک معروف مزاح نگا ر پطرس بخاری کا ایک مزاحیہ مضمون ہے جس کا نام انہوں نے خود ہی ’کتے‘ رکھا تھا۔اس مضمون کا موضوع بھی کتے ہیں۔ یعنی عنوان اور مواد دونوں میں ’کتا‘ شامل ہے۔ہمیں اس مضمون سے میٹرک میں اکتسابِ فیض کرنے کا موقع ملا ۔ ہمیں اس کا ایک جملہ پچھلے بتیس سالوں سے یاد ہے:’ایک تو ایک کتا اورپھر بکری کی جسامت کا گویا بہت ہی کتا‘۔ لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم شاعری سے صرف دلچسپی رکھتے تھے، دوسروں کے شعر پڑھتے اور یاد کرتے تھے۔ ان کے حوالے دیتے اور محظوظ ہوتے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے جب سے ہم شاعر نما بنے ہیں ہمیں اس مضمون سے کچھ چڑ سی ہوتی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں؟ لیکن آہستہ آہستہ اس نفسیاتی مسئلے کا حل بھی نکل ہی آیا۔ پطرس نے کتوں کے بھونکنے کوشاعروں کے مشاعرہ کرنے سے اس لئے تشبیہہ دے دی کہ وہ خود شاعر نہیں تھے، جیسے افلاطون نے اپنی اتھارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعروں کو اپنی جمہوریہ سے دیس نکالا دے دیا ۔ لیکن پطرس صاحب کو کیا پتہ تھا کہ آنے والے دور میں ان کا محاصرہ اور محاسبہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ بھی اپنی اتھارٹی کے بل پے جو مناسب یا نا مناسب سمجھتے کہہ دیتے، کیوں کہ وہ ہمیشہ اسی زعم میں رہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔لیکن یہ بات ہمیشہ کب ٹھیک ہوتی ہے، خاص طور پر شادی کے بعد۔پطرس صاحب نے مشاعرے کو کتوں کی اداؤں اور صداؤں کے ساتھ جس طرح بیان کیا ہے اسے انہی کے الفاظ میں پیش کرنے کے لئے مجھے ان کی کتاب’ پطرس کے مضامین‘ بازار سے نقد خرید کرنی پڑی ۔ کوئی بات نہیں اس کا حساب ہم پطرس صاحب سے عالمِ ارواح میں لیں گے۔ لیکن جتنے وہ چالاک تھے ہمیں امید نہیں کہ وہ حساب دیں گے ، الٹا ہمیں ہی لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ چلیں جو بھی ہو دیکھا جائے گا ۔ آپ پطرس صاحب کے بیان سے لطف اندوز ہوں:
’’کل ہی کی بات ہے کہ رات کے گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر ’’طرح‘‘ کا ایک مصرع دے دیا۔

ایک آدھ منٹ بعد سامنے بنگلے میں سے ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا تو ایک حلوائی کے چولہے سے باہر لپکے اور پھٹکا کر پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔

اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیئے، بعض تو دو غزلے، سہ غزلے لکھ لائے تھے، کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے نہیں آتا۔ہم نے کھڑکی میں سے ہزار دفعہ آرڈر آرڈر پکارا لیکن ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے۔یہ گھروں کے درمیان آ کر سوتوں کو ستانا کونسی شرافت ہے؟‘‘

اس بیان میں واضح طور پر وہ سارے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو کہ شاعروں کے مشاعرے میں ہوتے ہیں: طرح کا مصرع، مطلع، کہنہ مشق استاد، غزل ، مقطع، قدر شناس، داد دینا، قصیدے، مشاعرہ، طبع آزمائی وغیرہ۔ اگر پطرس اس زمانے میں ہوتے تو ان سے پر زور احتجاج کیا جاتا کہ وہ کتوں پر مضمون لکھنے کا اپنا شوق ضرور پورا کریں لیکن شاعروں کی عزت و آبرو کی قیمت پر نہیں۔ لگتا ہے کہ پطرس صاحب کو شاعروں کی شہرت سے حسد تھا۔ انہیں شاعروں جتنی داد نہیں ملتی تھی۔ ان کے لا شعور میں کہیں نہ کہیں شاعروں کا تعصب بیٹھا ہوا تھا جس کی بنا پر انہوں نے کتوں کے پیچھے چھپ کر اپنی کوئی پرانی رنجش پالی ہے اور یوں اپنی کسی پوشیدہ محرومی کو تسکین دینے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ ہم اس کوشش کو ناکام اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اس بات کو شعرو ادب کی دنیا میں کہیں بھی سراہا نہیں گیا۔یا ہو سکتا ہے کہ کچھ شاعر ان کے دوست ہوں اور وہ ان کا مذ اق بنانا چاہتے ہوں لیکن اس مزاح کی آڑ میں وہ سارے شاعروں پر شبخون مار گئے۔اس میں طنز بھی نہیں کہ اس کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ اس میں مزاح بھی نہیں کہ اس میں معصوم شاعروں کی دل آزاری بلکہ دل خراشی کی گئی ہے۔

دیکھیں نا اب خواتین شاعرات بھی مشاعروں میں کود پڑی ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک یقینی ہے کہ پطرس صاحب کے زمانہ میں خواتین شاعرات ، مشاعروں میں ہی کیا ، کتابوں میں بھی نہیں چھپتی تھیں۔ اب وقت نے عورت کو بے باکی سکھائی ہے جس سے وہ بھر پور استفادہ کر رہی ہے۔ اور کر نا بھی چاہیئے۔ اگر پطرس کے زمانے میں خواتین شاعرات، مشاعروں میں تشریف لاتیں تووہ درج بالا الفاظ کہنے کی یا تو جسارت نہ کرتے یا پھر ان کی غلط فہمی جلد ہی دور کر دی جاتی، جو کہ آج کے دن تک نہیں ہو سکی۔اب سوچیں جس محفل میں صنفِ نازک اس نازو انداز سے تشریف لائیں کہ جنت کی حوریں بھی محوِ رشک ہوں اس محفل کا تقدس نذرِ سگاں کر دینا کتنی بڑی زیادتی ہے۔ اور وہ خواتین بھی ایسی جو تخلیق کار ہوں اور اپنی تخلیق بھی شاعری ہو اور وہ بھی ہنر سے آراستہ ۔ ان کو سننے اور دیکھنے والے بھی کتنے خوش نصیب ہوں گے اور ان پری زادیوں اورخوش نصیبوں کی محفل کوشورِ سگاں سے تشبیہہ دینا یااس کا استعارہ استعمال کرنا ،ادبی زیادتی کا مرتکب ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ جانتھن سوفٹ(Jonathan Swift) جس نے گلیور ٹریولز (Guliver Travels) اور الیگزنڈر پوپ(Alexander Pope) جس نے دی ریپ آف دی لاک(The Rape of the Lock) میں اٹھارہویں صدی ک عیسوی کی انگلش معاشرت پر طنز کے وہ تیر اور کوڑے برسائے ہیں کہ خدا کی پناہ لیکن یہ دونوں طنز نگار بھی شاعروں جیسی معصوم مخلوق کو معاف کر گئے ۔لیکن پطرس صاحب اپنی قلم کی روانی کو کنٹرول نہ کر سکے اور اپنے ہی ادبستان کے گلابوں کو روند ڈالا ۔

ہم نے اس تحریرکے آغاز میں بیان کیا ہے کہ مشاعرہ بیک وقت کئی ایک اطراف میں اپنے فیض کی کرنیں بکھیرتا ہے ۔ اب ہم تھوڑا سا ذکر ان باتوں کا بھی کرتے چلیں تا کہ اس تحریر کی افادیت میں اضافہ ہو ۔ کہیں کوئی پطرسی یہ نہ سمجھ لے کہ ہم نے پطرس صاحب کی قبر پر زور سے لات مار دی ہے۔ ہمیں اس قسم کی عادت ہر گز نہیں ۔ لیکن اپنے دل کی بات، جو کہ معقول ہو، کہنا ہر کسی کا ادبی اور لسانی حق ہے۔

تفریح اور مشاعرہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جیسی تفریح مشاعرہ فراہم کرتا ہے ویسی کوئی اور صنفِ ادب یا آرٹ یا کھیل بھی مہیا نہیں کرتی۔ فلم،ڈرامہ، ناول ، کہانی وغیرہ ہر کسی کے لئے ذہنی کوشش کرنی پڑتی ہے اور کافی وقت بھی صرف کرنا پڑتاہے۔ عمر کے ہر حصے میں فلمیں بھی نہیں دیکھی جا سکتیں۔ ڈرامے، ناول وغیرہ بھی دماغ سوزی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ جب کہ مشاعرہ خود بخود ذہنوں میں وہ لطف انڈیلتا چلا جاتا ہے جو کسی اور چیز سے نصیب نہیں ہو سکتا۔دماغی کام کر کر کے تھکے ہوئے لوگ ایسی جگہوں کی طرف لپکتے ہیں جہاں مشاعرہ ہو رہا ہو۔ مشاعرے میں فراہم کی گئی تفریح بہترین ہوتی ہے۔

مشاعرہ جہاں تفریح دیتا ہے وہاں تعلیم بھی دیتا ہے اور یہ بہت کم سرگرمیوں میں ہوتا ہے کہ تفریح بھی ہو اور تعلیم بھی۔ انسان مشاعرے میں نئے الفاظ سیکھتا ہے ، نئے اظہارات اس کے سامنے آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسی بہت سی باتیں جن کی طرف اس کا کبھی دھیان یا گمان بھی نہیں گیا ہوتا اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔وہ اپنی ذہنی بالیدگی کی لطافت سے مستفید ہوتا ہے۔ اسے بات کرنے کے آداب آتے ہیں اور وہ ایک معزز شہری کا رویہ سیکھتا ہے۔ اس طرح تہذیبی رویئے فروغ پاتے ہیں۔اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔شاعری انسان کی سب سے پہلی استاد اور رہنما رہی ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والا بہت کم گمراہ ہوتا ہے۔

انسان کو ہمیشہ اپنے دل کی بات کہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے اس کا کتھارسس ہوتا ہے۔ اگر کتھارسس ہو جائے تو وہ نارمل رہتا ہے ورنہ اس کا شعوری یا غیر شعوری ردِ عمل کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جدید زمانے میں جن چیزوں کا قحط پڑتا جا رہا ہے ان میں ایک کتھارسس بھی ہے۔ کوئی کسی کی بات سننے کا وقت ہی نہیں رکھتا ۔ مغرب میں یہ قحط ہم سے دس گناہ زیادہ ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں بھی ہے ضرور۔ بڑھتی ہوئے مصروفیات نے انسان کو زیادہ سے زیادہ مشینی انسان یا زندہ روبوٹ ، یا روبوٹی انسان بنا دیا ہے۔ اس روبوٹی انسان کا باہر تو بدل نہیں سکتا لیکن اندر کے حالات میں بڑی خرابی آ چکی ہے۔ انسانی جسم سے جب تک فاسد اور فاضل مادے خارج نہ ہوں وہ پر سکون اور صحت مند نہیں ہو سکتا ،یا پھروہ ہلاکت کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ اسی طرح ذہنی میکا نزم ہے جس میں سوتے، جاگتے ہر وقت شعوری، لا شعوری بے شمار چیزیں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ناگوار چیزوں کا کسی نہ کسی صورت میں اخراج از حد ضروری ہے ۔ اس کتھارسس کا بہترین طریقہ گفتگو ہے۔ اندر سے جلے بھنے انسان کو کتھارسس کا موقع ملنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو یقینی حادثے سے بچا لینا ۔اور اگر کتھارسس کے ساتھ ادبی لطف بھی شامل ہو جائے تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔ مشاعرہ یہی فریضہ انجام دیتا ہے۔ یہ ایسے سمجھ لیں جیسے کڑوی دوائی کو مزیدار کھانے یا علاج کی سنگینی اور سنجیدگی کو ہنسی مزاح میں محو کر دیا گیا ہو۔مشاعرہ ، معاشرے کا سیفٹی والو ہے۔ معاشرہ پھٹنے سے بچ جاتا ہے جس سے عدم اعتماد کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔

معاشرہ ہماری ثقافت کا مظہر ہے۔ مغرب میں شاعری تو صدیوں سے ہے لیکن مشاعرہ ہمارے لوگوں کی دین ہے۔ مغرب ، عرب اور امریکہ ، جاپان، آسٹریلیا وغیرہ میں اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد جا چکی ہے۔ وہاں منعقد ہونے والے مشاعروں کی خبریں ، تصویروں سمیت آتی رہتی ہیں۔اور آئندہ اس بات کے فروغ پانے کے قوی امکانات ہیں۔ مشاعرہ میں آداب کی جو طرح ڈالی جاتی ہے وہ ہماری معاشرت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب بھی ادب کی روایت بڑی مضبوط ہے جو کہ مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے۔ اردو زبان کا مستقبل دنیا کی کسی بھی دوسری زبان سے زیادہ روشن ہے اور اس میں مشاعروں کا کلچر موجودہ دور سے بھی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے گا ۔

کسی بھی آرٹ یا فن کے فروغ کے لئے اس آرٹ کا نقاد ہونا بہت ضروری ہے۔ مشاعرہ انسانوں ، خاص طور پر شاعروں کو اکٹھے بیٹھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جس سے ادبی معیارات کو جانچنے ، پرکھنے اور سیکھنے کا موقع میسر آتا ہے۔ نقاد کے بغیر آرٹ کو عروج ملنا مشکل ہے۔مشاعرہ میں اس نقاد کا رول سامعین ادا کرتے ہیں۔ وہ بغیر کسی تعصب یا جانبداری کے ہر کسی کو اس کے فن کی عمدگی اور مہارت کے مطابق داد سے نوازتے چلے جاتے ہیں۔ شاعروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی شاعری کی جانچ پرکھ کے انداز سمجھ آتے ہیں۔ ویسے تو انسان کو تنقید قطعاً اچھی نہیں لگتی، یہاں تک کہ وہ تنقید پر مرنے مارنے پر بھی تل جاتا ہے،لیکن مشاعروں میں ہونے والی پر لطف تنقید گوارا بھی ہوتی ہے اور وہ ہنر میں نکھار بھی لاتی ہے۔ایک مشاعرہ کئی ایک کتابیں پڑھنے سے زیادہ ہنرِ شاعری کی آبیاری کرتا ہے۔ جتنی کسی قوم کی شاعری اور دوسری ادبی فن پارے اعلیٰ معیار کے یوں گے اتنی ہی وہ قوم دوسری قوموں پر برتری اور حاکمیت رکھے گی۔اس طرح مشاعرہ ،شاعروں کے ہنر کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی استقامت فراہم کرتا ہے۔

موجودہ زمانے میں برداشت کی خشک سالی چل رہی ہے۔ ذہنوں میں اتنی خشکی سما چکی ہے کہ دوسروں کو برداشت کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔مشاعرہ انسان کے اعصاب اور برداشت کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ تعریف اور تنقید دونوں طرح سے انسان کا دامنِاحساس وسعت اختیار کرتا ہے۔ یہی برداشت کا اضافہ ہی تو اکثر فلسفوں اور مذاہب کا اصل مدعا و مقصد ہے ۔ انسان کی برداشت بڑھ جائے یا بڑھا دی جائے تو دنیا کے اکثر و بیشتر جھگڑے ازخوددم توڑ جائیں گے۔ دنیا ایک پر سکون جنت کا منظر پیش کرنے لگے گی۔ باہمی رنجش ایک پھبتی میں اڑا دی جائے گی اور دل کا غبار یوں بیٹھ جائے جیسے برکھا سے زمیں کو تسکین مل جاتی ہے۔اتنا بڑا رول ادا کرنے سکنے والی سرگرمی کو بھلا کیسے سگوں کے شور سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔

ہم یہاں یہ بات بھی کرتے چلیں کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے مشاعرے کا اتنا دفاع اس لئے کیا ہے کہ ہم خود بھی شاعر ہیں۔ لیکن یہ بات ایک غلط فہمی سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ہم شاعر تو نہیں لیکن شاعر نما ہو سکتے ہیں ۔ ہماری ذاتی طور پر تنہائی سے زیادہ شناسائی ہے ۔ ہم مجلس میں سراپا گوش بن کے بیٹھنے والے کم گو سے انسان ہیں۔ ہم مشاعروں سے مقدور بھر اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ستم بر زبر دستی بلا ہی لے تو با دلِ نخواستہ چلے بھی جاتے ہیں۔ لیکن ہم مشاعروں کا دفاع ان کی افادیت اور ان کے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھنے کے لئے کیا ہے۔ کیوں کہ کسی چیز کو اس کا جائز حق ملنا ہی عدل ہے۔ مزاح کا مقصد تو بے اعتدالی کو اعتدال پر لانا ہوتا ہے، نا کہ اعتدال کو بھی گھسیٹ کر بے اعتدالی کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے۔

ہماری گزارش ہے کہ اگر کوئی ادبی اتھارٹی یہ اختیار رکھتی ہو تو وہ پطرس صاحب کے ’کتے‘ کے مضمون سے کتوں کے مشاعرے والا حصہ کٹوائے۔ اگر نہیں رکھتی تو کوئی ایسی معتبر ادبی شخصیت جس کا عالمِ ارواح میں آنا جانا ہو یا کوئی صرف جانے والی ہو اس کو یہ ذمہ واری سونپی جائے کہ وہ پطرس صاحب سے ان کے ’کتے‘ کے مضمون سے ان الفاظ کا حذف کردینے کی تحریری اجازت لے اور عزرائیل یا اگر وہ نہ مانے تو کسی اور مَلک کے ہاتھوں بھیج دے یا اگر وہاں بھی نیٹ دستیاب ہو تو کسی ادبی جرنل یا اخباریا نیوز چینل یا وزارتِ تعلیم کے کسی صوبائی یا وفاقی آفس کو ای۔ میل کر دے۔اور اگر خود لے آئے تو سب سے اچھا ہے۔ ادب کی بات ادب میں یعنی گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی اور کسی کو کانو ں کان خبر بھی نہ ہو گی۔

ہماری ان باتوں سے اگر کسی پطرسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو ہم معذرت خواہ ہیں اور ساتھ ہی گزارش کریں گے کہ اس دل آزاری کو برداشت کریں ۔ شاعر لوگ بھی تو اس دن سے ہر مشاعرے میں پطرس کے ’کتے‘ کے مضمون کے کتوں کا شور برداشت کرتے رہے ہیں جس دن سے وہ مضمون منظرِ عام پر آ کر ہر خاص و عام کی نظر سے گزرا ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 287382 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More